مضامین

سر کٹانے کے لئے جنگ میں ہیں ہم موجود

حیدرآباد سٹی پولیس 1847 میں دور عثمانیہ سے سرگرم عمل ہے۔ شہری پولیس کے عہدیداروں نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اُسے ساری دنیا احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

حیدرآباد سٹی پولیس 1847 میں دور عثمانیہ سے سرگرم عمل ہے۔ شہری پولیس کے عہدیداروں نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اُسے ساری دنیا احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

متعلقہ خبریں
اللہ کے نزدیک عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے، مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان
لائم لائٹ ڈائمنڈز نے حیدرآباد میں اپنے دوسرے اسٹور کا افتتاح کردیا، لکشمی مانچو نے انجام دیا افتتاحی فریضہ
حیدرآباد کے ڈائیٹ کالج میں داخلے کے لیے ویب کونسلنگ کا مطالبہ
موسیٰ پروجیکٹ، مکانات کے انہدام کی مخالفت،اندرا پارک پرمہادھرنا
روڈی شیٹر ایوب خان گرفتار

حضور نظام کی پولیس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دور سے کھڑے ہوکر مجرموں کی لبوں کی جنبش کو دیکھ کر اسکرپٹ تیار کرلیتی تھی اور جب مجرمین کو  دبوچا جاتا تھا تو وہ لاجواب ہوکر اپنے جرم کا اعتراف کرلیتے تھے۔

آج حیدرآباد سٹی پولیس میں انٹلیجنس اتنی مستعدنہیں ہے جتنی پہلے ہوا کرتی تھی۔ کسی واقعہ کے سامنے آنے کے بعد اس کی تحقیقات کرنا اہم نہیں ہے بلکہ کمال تو جب ہے کہ واقعات کی روک تھام کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی ملکوں میں جرائم کو روکنے کے لئے مختلف محکمے کام کررہے ہیں۔

عوام کا تحفظ سب سے بڑی فوقیت ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پولیس کا وجود بیکار ہی کہلائے گا۔ اگر پولیس کو کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق اِن پٹ نہیں ملتا ہے تو یہ پولیس کے محکمہ کے لئے ایک المیہ ہوگا۔

حیدرآباد سٹی پولیس میں انتہائی کارکرد پولیس عہدیداروں کے ساتھ ساتھ مخبروں کا ایک بہت بڑا جال ہوا کرتا تھا جو مقامی پولیس کے علاوہ سٹی پولیس کمشنر پولیس تک فیڈ بیاک دیتا تھا۔ پتہ نہیں کہ آخر انٹلیجنس کو کمزور کیوں کردیا گیا ہے۔

پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے میں مصروف رہتی ہے جو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ انٹلیجنس کے ساتھ ساتھ پبلک ریلیشنس کا شعبہ بھی بہت اہم رول ادا کرتا تھا لیکن ناعاقبت اندیش ڈائرکٹر جنرلس  نے آہستہ آہستہ کسی وجہ کے بغیر اُسے ختم کردیا۔ پی آر اوز کے ذریعہ پولیس کو بہت ساری معلومات ہوا کرتی تھیں جو اب نہیں ہورہی ہیں کیونکہ لگ بھگ تمام ضلعوں میں ان عہدیدوں کو برخاست کردیا گیا ہے۔

کوالیفائیڈ پبلک ریلیشنز آفیسرس کا تقرر ایک انتہائی اہم ضرورت ہے اسے جلد از جلد پورا کیا جانا چاہئے۔ انٹلیجنس کے محکموں کو اگر سرگرم رکھا جاتا تو ہماری انتہائی پُرامن اور باشعور ریاست تلنگانہ میں میدک، عادل آباد اور حیدرآباد جیسے مقامات پر کمیونل واقعات پیش نہیں آتے۔

حیدرآباد سٹی پولیس کمشنر سی وی آنند نے پچھلے دنوں نامپلی اسمبلی حلقہ میں کانگریس اور مجلس کے درمیان بڑھتے سیاسی تنازعات اور جھڑپوں کے واقعات سے نمٹنے کے لئے بحیثیت ایگزیکٹیو مجسٹریٹ فریقین کی سماعت کرکے ایک مثال قائم کی جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔

واقعات کے ہونے کے بعد کارروائی کرنے کے بجائے ہم بار بار یہی کہیں گے کہ اس طرح کے واقعات کو ہی نہ ہونے دیا جائے۔ بہرحال ان کی ایک اچھی کوشش ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے مجلس کے قائد ماجد حسین اور کانگریس کے لیڈر فیروز خان کو پابند کیا کہ وہ کسی تصادم یا لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید ا نہ ہونے دیں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ قائدین کو سیاسی اقدامات کرنے کی پوری پوری آزادی ہے لیکن امن و ضبط کا مسئلہ پیدا کرنے کا کسی کو حق نہیں پہونچتا۔

سی وی آنند کو پبلک ریلیشنس کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے کیونکہ آنے والے دنوں میں آپ ہتھیار سے امن و ضبط کو برقرار نہیں رکھ سکتے کیونکہ آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اربوں کے ہتھیار بھی عوام کو قابو میں نہیں لاسکتے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں پولیس کو امن و ضبط کی برقراری سے متعلق سمینارس ، سمپوزیمس اور انٹر ایکشن پروگرامس کرنے پڑیں گے جس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

کچھ طاقتیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے فرقہ پرستی کو بنیاد بنائے ہوئے ہیں اور پولیس ان کی ان حرکتوں کو اچھی طرح جانتی ہے لیکن بسا اوقات ان کے خلاف صحیح کارروائی نہ کرنے کے سبب ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ عوام کی نظروں میں پولیس کو بلند و برتر ہونا پڑے گا اور یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اُسے امن و ضبط کے سیوا کوئی چیز عزیز نہیں۔

پچھلے دنوں گنیش نمجن کے موقع پر ہائی کورٹ کی واضح ہدایت یا پابندی کے باوجود گنیش نمجن حسین ساگر میں ہی کیا گیا جو مناسب نہیں تھا ۔ یہ کوئی اچھی بات نہیںہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سٹی پولیس گنیش سمیتی کے ذمہ داروں سے بات کرتی اور انہیں مطمئن کرتی کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ماننا دستور کو سلام کرنے کے مترداف ہے ۔

حسین ساگر کا پانی صاف رکھنا کسی ایک ذات یا فرقہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ تمام شہریوں کا مشترکہ فرض ہے کہ پانی کو پراگندہ نہ ہونے دیا جائے۔ پولیس کے محکمہ کو اس مسئلہ پر Introspection کرنا چاہئے۔ تہوار آتے ہیں اور جاتے ہیں لیکن ملک میں انصاف کو نقصان نہیں ہونا چاہئے۔

ہمیں یقین ہے کہ سٹی پولیس ان مسائل پر غور کرے گی اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا سد باب کیا جائے گا۔ حیدرآباد کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے لوگ پیار و محبت سے رہتے ہیں ، مشترکہ طورپر تہوار مناتے ہیں اور ان کے کھان پان بھی ایک جیسے ہیں لیکن کچھ طاقتیں کبھی مندر میں تو کبھی مسجد میں کوئی نہ کوئی شرارت کرنے کی کوشش کرتی ہیں جنہیں آہنی شکنجے سے کچل دیا جانا چاہئے۔

اس کالم کے ذریعہ ہم کمشنر پولیس سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ انٹلیجنس کو مضبوط کرنے کے لئے حیدرآباد میں ایک نیشنل کانفرنس منعقد کریں تاکہ تلنگانہ کے دارالخلافہ سے پورے ہندوستان کو یہ پیغام ملے کہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی پہلے ہی سے روک تھام ہوجائے۔ تلنگانہ کے ڈی جی پی کو بھی چاہئے کہ وہ پوری ریاست میں پبلک ریلیشنس کا شعبہ پھر سے قائم کریں تاکہ مختلف صحافیوں کے ذریعہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو فیڈ بیاک مل سکے۔

ہمیں یقین ہے کہ پولیس کے یہ دو عہدیدار ضرور اس سمت میں توجہ دیں گے اور ہمارے بے انتہا حرکیاتی چیف منسٹر ریونت ریڈی کے ہاتھوں کو ‘ جن کے پاس محکمہ داخلہ کا قلمدان بھی ہے ‘بے انتہا مضبوط کریں گے۔ بہرحال پولیس کا محکمہ سیاستدانوں کے لئے خدمت کے بجائے عوام کی خدمت کرے تو بہتر ہوگا۔ شاعر کا یہ خیال ہمارے پولیس جوانوںکے بارے میںحق بجانب لگتا ہے کہ

سر کٹانے کے لئے جنگ میں ہیں ہم موجود

رہنماؤں کو تو آرام سے گھر رہنا ہے