قصہ ”Car“سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ڈاکٹر سید عباس متقی
صاحبو! یہ کوئی ربع صدی قبل کی بات ہے کہ ہمارے بلند اقبال داماد میاں اصغر سلّمہ نے ایک تجربہ کار،کار ڈیلر سے1957 ء کی Centre Light Fiat خریدی تھی۔وہ نہایت دیدہ زیب اور خوب صورت کارتھی۔جب وہ امریکہ چلے گئے تو وہ کارگویا ہمارے قبضے میں آگئی اور ہم اسے مدتوں چلاتے بلکہ چلاتے کم اور بناتے زیادہ رہے۔ظاہر ہے کہ پرانی گاڑی چلائی کم اور بنائی زیادہ جاتی ہے۔ جب وہ کہنہ آثار کار اپنی منزل پر پہنچتے پہنچتے خراب ہو گئی تو کوئی میکانک ایسا نہ مل سکا جواسے کماحقہ ٗRepairکرسکے اوریوں ہم اپنی محبوب کارسے محروم ہو گئے۔ویسے ہمیں مذکورہ فیاٹ کافی پسند ہے۔اگر کبھی موقع مل جائے تو اس کار کی تلاش کر کے اسے ضرور خریدیں گے۔شرط بس یہ ہے کہ وہ کار Show-room Conditionمیں ہوتاکہ ہمیں میکانک کے ناز نخرے اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔بعض کار بنانے والے کا رکم بناتے ہیں اور کار والوں کو بے وقوف زیادہ بناتے ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ جب جب ہم اپنی کار کو کسی میکانک کے ہاں بنانے کے لیے لے جاتے تو وہ ہمیں دیکھ کر ہنستاتھا۔شکر ہے کہ ہم لوگوں کو ہنساتے ہیں رلاتے نہیں۔ویسے اس دنیا میں ہنسانے والے کم اور رلانے والے زیادہ ہیں۔میکانک ہماری گاڑی بنانے سے کترایا کرتے تھے۔ایک دن تو ایک میکانک نے کہہ ہی دیا ڈاکٹر صاحب یہ کیا چھینکا لیے پھر رہے ہیں آپ!اسے اسکراپ میں کیوں نہیں ڈال دیتے،اب اس کے بنانے کا خیال ترک کردو۔ہم کہتے کہ بھائی!ہماری گاڑی بھی ہیما مالنی کی طرح شکستہ شیشوں کے بیچ یہ گیت گاتی ہے کہ ”جب تک ہے جان،جان جہان میں ناچوں گی میں ناچوں گی۔“ہم کوئی دھرمیندر تو ہیں نہیں کہ گلا پھاڑ کر چیخیں کہ ”بسنتی!ان کتوں کے سامنے مت ناچنا۔“ویسے ہماری کار کانام فیاٹ ہے بسنتی نہیں۔کیا عرض کریں ہماری گاڑی کی کوئی نہ کوئی چیز خراب ہو تی ہی رہتی تھی۔ایک دفعہ ہارن خراب ہو گیاتھا تو ہم Car windowسے باہر سر نکا ل کر لوگوں کو ”بابو سمجھو اشارے،ہم خود پکارے پم پم پم“کی صدائیں لگاتے تھے۔ ہمارا شور اور ہم سے زیادہ گاڑی کا شور سن کر لوگ آپ ہی آپ راستہ دے دیاکرتے تھے۔غربت اور شوق جب یہ دونوں چیزیں کسی شخص میں جمع ہو جاتی ہیں تو لوگ اس شخصیت کو عباس متقی کہتے ہیں۔بعض وقت ہم لوگوں کو ہٹو سرکو کی صدائیں دینے کے لیے کسی دوست کو بھی ساتھ رکھ لیا کرتے تھے۔ہم گاڑی چلاتے تھے اور وہ لوگو ں کو خبردار کیاکرتا تھا۔وہ بائیں جانب کی ٹرافک کو دیکھ لیا کرتا تھا اور ہم سیدھی جانب کی بپلک کو کنٹرول کر لیا کرتے تھے، ہماری آواز سے لوگ پریشان بھی ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ جب وہ کار موسموں کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے کرتے بد رنگ ہو گئی تو ہم بازار سے کلر کا ڈبا، لپم اور برش وغیرہ لے آئے اورنہایت محنت و مشقت اٹھاکر آٖپ ہی اپنی کار کو کلر کرلیاکہ آپ کاج مہاکاج کو ہم کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں۔ہمارے کلر کرنے کے بعد گاڑی کی حالت قابل رحم سی ہو گئی تھی اور لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھتے تھے اورپوچھتے تھے کہ کس ماہر فن پینٹر نے آپ کی گاڑی کو پینٹ کیاہے۔ایک مرتبہ ہم نے کالر جھٹک کر صاف صاف کہہ دیا کہ ہم نے خود کلر کرلیاہے تو ان صاحب نے کہاکہ تبھی غریب کی یہ درگت بن گئی ہے۔ہم جس محلے میں رہاکرتے تھے،اس محلے کے لڑکے دوسرے محلے کے لڑکوں ہی کی طرح بہت شریر واقع ہوئے تھے۔شاید لوگوں کو ہماراموٹر نشین ہوناکھلتاتھا۔واقعی دنیامیں حاسدوں کی کوئی کمی نہیں۔ایک دفعہ محلے کے ناہنجار بچو ں نے ہماری گاڑی کے سامنے کا شیشہ پھوڑ دیاتو ہم شیشہ ڈلوانے کے موقف میں نہیں تھے اور ہم بغیر شیشے کے ہی گاڑی چلاتے رہے شیشہ نہ ہونے کایہ فائدہ ہواکہ سامنے کا منظر اچھا نظر آنے لگا تھالیکن ہواجب زیادہ چلتی تو ہماری ٹوپی اڑکر پیچھے والوں کے سروں پر جا ٹکتی تھی۔۔جب کسی وجہ سے وائپر کا بٹن دب جاتا تو وائپر شیشہ نہ ہو نے کے سبب ہمارے منھ تک پہنچ کرہمارے نورانی چہرے کو صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔یادش بخیر! اکثر گاڑی کی بیٹری ہاتھ دے دیاکرتی تھی۔اپنی پیدائش کے زمانے سے رواں دواں بیٹری کیاکام کرے گی۔ہم ایسے وقت نہایت ہوشیاری سے گاڑی کو لب سڑک پارک کرکے پیدل جاکر بیٹری کو بیٹری ساز کو دیتے اور چارج ہو نے کے بعد پھر پیدل آکر بیٹری کو انجن میں لگاتے اور دیر ہونے کے سبب جہاں جانا ہوتا وہاں نہیں پہنچ پاتے تو گھر لوٹ آتے تھے۔ اس زمانے میں ہمارے دوست احباب ہمارے گھر آنے سے گھبراتے تھے۔انہیں گمان ہو تا تھا کہ شاید گاڑی کو دھکے لگانے پڑیں گے۔بعض وقت تو یہ ہو تا کہ ہم سمجھ رہے ہیں کہ احباب دھکے لگارہے ہیں اورجب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے توکوئی بندہ دور تک نظر نہیں آتا۔یوں تو ہم نے بہت سے میکانک بدلے لیکن کوئی میکانک ماہر فن ثابت نہ ہو سکااور ہماری گاڑی شاہی ہاتھی کی طرح ہمارے گھر کے درواز ے پر جھولتی رہی۔ہمیں اس وقت بہت ملال ہو ا جب کار کے دروازے خراب ہو گئے اور وہ آ پ ہی آپ کھلنے کے عادی ہو گئے۔ایک دن صبح صبح دیکھا کہ ایک بکری اپنی آل و اولاد کے ساتھ ہماری موٹر میں گھس گئی ہے اور آرام سے اپنے دو بچوں کو آگے کی سیٹ پر اور آخری دو بچوں کو پیچھے کی سیٹ پر سلاکر خود بھی ہماری کار کے اسٹیرنگ وھیل پر اپنے سینگ ٹکائے آرام کررہی ہے۔ہم سوتے میں اپنی بیوی کو نہیں جگاتے بکری کو کیاجگائیں گے۔ہم نے باہر نکلنے کا ارادہ ملتوی کردیااورتھکے ہوئے پروفیسر کی طرح بارِدیگر پلنگ پر دراز ہو گئے۔
شام میں ہم نے دیکھا کہ بکری کے بچوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی مینگنیوں سے ہماری کار کو مزین کردیاہے اورزعفرانی ندیاں بہ رہی ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب جب ہم گھر بدلتے توکار رکھنے کی جگہ بھی بدلنی پڑتی تھی۔ایک مرتبہ جاوید نگر میں ہم نے ایک مقام پر اپنی کارپارک کی تھی۔صبح کیادیکھتے ہیں کہ کسی شریر بچے نے پتھر مار کے ہمار ی کارکے سامنے کاشیشہ پھوڑ دیاہے۔ہمیں بہت کوفت ہوئی لیکن ایک مجبوراور غریب ہندوستانی سوائے کوفت کرنے کے اور کربھی کیا سکتا ہے۔قسمت ہی جب پھوٹی ہو تو کار کے شیشے کے پھوٹنے کا کیاغم۔یہ سوچ کر کہ یہاں گاڑی پارک کرنا مناسب نہیں ہم کار کی کنجی لانے گھر گئے اور کنجی لے کر جب واپس آئے تو دیکھا کہ پیچھے کاشیشہ بھی پھوڑ دیاگیاہے۔یک نہ شد دو شد۔ہم نے جگہ تو بدل دی لیکن شیشوں کے بدلنے کے لیے ہمیں تیشوں سے گزرنا پڑا۔خدا کسی کو شوق کے ساتھ غربت نہ دے۔ایک مرتبہ کی بات ہے کہ ہماری گاڑی کی ہیڈ لائٹس بند ہو گئی تھیں اور ہم صرف پارکنگ لائٹس کھول کر گاڑی چلارہے تھے۔بغل میں ہمارے ایک دوست بیٹھے تھے،ہم نے صرف ان سے اتنا ہی پوچھا کہ وہ جو سامنے نظر آرہاہے آیا وہ آدمی ہے؟اتنا سنتے ہی انہوں نے ہاتھ جو ڑ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے یہاں اتار دیجیے۔مجھے نہیں معلوم تھاکہ آپ کی نگاہیں اتنی تیز واقع ہوئی ہیں۔اور پھر وہ کبھی ہمارے یہاں دیکھے نہیں گئے۔گاڑی کے بریکس اپنی کہنگی کے سبب ڈھیلے ہوگئے تھے۔بریک لگانے کے لیے کچھ دور پہلے سے ہمیں گاڑی سے کشتی لڑنی پڑتی تھی۔بعض وقت تو قدرے غفلت کے سبب ہماری گاڑی کااگلابمپر سامنے والی گاڑی کے پچھلے بمپر کا بغیر آواز کئے بوسہ لے لیا کرتا تھااور شرمندگی ہمیں اُٹھانی پڑتی تھی، کیوں کہ ہم بوسے کے لیے بوسے کی آوازکو لازمی سمجھتے ہیں۔ ہماری گاڑی از حد شریف گاڑی تھی۔۔بچوں کی سی معصوم،کسی بھی کنجی سے اسٹارٹ ہو جاتی تھی۔ایک دن ہم میاں بیوی کہیں باہر جانے کے لیے تیار ہوئے تو گاڑی کی کنجی مل نہیں رہی تھی۔بیگم نے اپنی تجوری کی کنجی دے دی۔ہم نے اس کنجی سے گاڑی کو اسٹارٹ کرلیااور کنجی لوٹانا بھول گئے۔دوسرے دن معلوم ہو اکہ ان کے زیورات میں ناک کی دال کم ہے اوریوں ہماری ناک کٹنے کاموقع آگیا۔ہم ناک کی دال چراکر کیاکریں گے اور ناک کی دال کے پیسے بھی کتنے آتے ہیں۔اس میں کھٹی دال ہی پک جاے توغنیمت ہے۔اور پھر ہم زیور کہاں چراتے ہیں زیور حسن کی بات اور ہے۔بہت ڈھونڈاگیا معلوم ہوا کہ ناک کی دال کان کے جھمکے میں چھپ گئی ہے۔بغل میں بچہ اور شہر میں ڈِھنڈورا شاید ایسے موقع پر ہی بولتے ہیں۔
جس زمانے میں ہمارے پاس کار تھی، اس عہد میں کیسٹوں کا دور دورہ تھا۔ایک کیسٹ میں دو فلمی نغمے ملا کرتے تھے۔فلمیں اور فلمی نغمے ہماری کمزوریاں ہیں۔اس شوق کے سبب ہم نے اپنی کار میں Tape recorderلگوالیا تھا اور کار چلاتے ہوئے فلمی نغمے سنا کرتے تھے۔کار میں موسیقی کچھ اور ہی مزہ دیتی ہے۔ہم اپنی کار میں کار چلاتے ہوئے مغل اعظم، کوہ نور، دل ہی تو ہے، بیس سا ل بعد،ان پڑھ، وہ کون تھی جیسی فلمو ں کے نغمے سنا کرتے تھے۔اس بابت ہم نے اپنے دوست سید نبی نذیر جو بہت زیرک آدمی ہیں،سے پوچھا کہ اس تفریق کیف کا سبب کیاہے،تو انہوں نے جواب دیا چونکہ کار ہر جانب سے بند ہو تی ہے، اس لیےLoss Of Noise نہیں ہو تا۔واقعی علم بھی کیا چیز ہے۔جب ہم فلمی نغمے لگا کر گاڑی چلاتے تو سفر معلو م ہی نہیں ہو تا کہ کب کٹ گیاہے۔جب کافی دن گزرگئے اور ہماری گاڑی نے اسٹارٹ ہو نے سے قطعی طور پر انکار کردیا اور وہ مصر کی ممی کی طرح مکان کے سامنے کھڑی رہنے لگی تو ”کار ِبے کار را دیوا می گیرد“کے مصداق،موقع کو غنیمت جان کر پاس پڑوس والے اپنا کچرا ہماری کار میں ڈالنے لگے۔آتے جاتے لوگ پان کی سرخ سرخ پچکاریوں سے اس کی باڈی رنگین کرنے لگے۔ایک دن ایک شخص کو ابکائی آئی تو اس نے ہماری کار کی ونڈو کے اندر منھ ڈال کر الٹی کردی۔ہمارے محلے کے بوکڑ داعش کے دہشت گردوں کی طرح ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں۔کیامجال جو کسی کی سنیں،اگرہم ہات ہوت کرتے تو نکیلے سنگ سے مارنے دوڑتے۔منا بھائی کا بوکڑ اکثر ہمارے گھر کے سامنے کے چبوترے پر بیٹھاجگالی کرتا تھا اور سامنے سے گزرنے والی بکریوں کو چھیڑا کرتاتھا۔جب وہ اپنی مخمور آنکھوں سے کسی بکری کو دیکھتا تو اندیشہ ہائے دور و دراز سے کانپ جاتی تھی۔منابھائی سے ہم نے کہابھی کہ اپنے بوکڑ کو سنبھالو، اس کے چال چلن کچھ اچھے نہیں ہیں۔اگر یہی حال رہاتوہم پولیس میں نالش کر دیں گے۔ہنس کر کہنے لگے بوکڑ کی شکایت پولیس تھانے میں سنے گاکون۔غنڈے موالیوں کی شکایت کوئی نہیں سنتا بوکڑ کی شکایت کون سنے گا۔یہ کہہ کر بیڑی بیتے ہوئے گزرگئے۔بکرابڑااوباش تھا۔ایک دن ایک بکری کا جو اس بوکڑ نے ا نتخاب کیاتو بیچاری بکری اس دہشت گرد بوکڑ سے بچتے بچاتے ہماری گاڑی میں گھس گئی اور اس کے پیچھے ہی وہ بکرااور پھر ہماری کار میں اس نے وہ قیامت کی دھوم مچائی کہ توبہ ہی بھلی۔اس کے حلقومِ توحش سے کچھ ایسی نا گفتہ چیخیں برآمد ہو تی تھیں گویادجال آگیاہے۔اسی دن غریب بکری کے چاروں پاؤں بھاری ہوگئے اور چند ماہ بعد اس نے ہماری گاڑی کے اندر پورے چار بچوں کو جنم دیا۔اسے کہتے ہیں پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔آخرش جب ہماری گاڑی نے چلنے سے مطلق ہاتھ اٹھالیا تو ہم نے بھی اسے اونے پونے فروخت کرنے پر ہاں کردی اور یوں ایک سنہرے اور خواب آور دنوں کی شام ہو گئی۔جہاں گاڑی کھڑی رہاکرتی تھی اب وہاں اس کی یادیں ایستادہ ہیں اور ہمارے لبوں پر”شگون“ کا یہ نغمہ گونج اٹھتا ہے:
تم چلی جاؤ گی پرچھائیاں رہ جائیں گی٭ کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی
٭٭٭