امریکہ و کینیڈا

کیا ڈونالڈ ٹرمپ جیل سے صدر منتخب ہوجائیں گے؟

سابق امریکی صدر نے اس رقم کو ادا کرنے کا اس لیے کہا تھا کہ تاکہ بالغ فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئلز یہ انکشاف نہ کردیں کہ ان کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک رات کا تعلق قائم ہوا تھا۔

نیویارک : امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق صدر کیخلاف سزا کا فیصلہ سنایا گیا ہے، جج ڈونالڈ ٹرمپ کو کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی پر مجرم قرار دیتے ہوئے 11جولائی کو ان کی سزا کا اعلان کریں گے۔

متعلقہ خبریں
ٹرمپ کی ریلی میں پھر سکیورٹی کی ناکامی، مشتبہ شخص میڈیا گیلری میں گھس گیا (ویڈیو)
ٹرمپ پر حملے کو کس زاویے سے دیکھا جارہا ہے؟ اہم رپورٹ
ڈونالڈ ٹرمپ کا طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا
کملاہیرس اور ٹرمپ میں کانٹے کی ٹکر متوقع
ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی

سابق صدر ٹرمپ کو خاموشی کی قیمت (ہیش منی) اور کاروباری ریکارڈ میں خورد برد کے مقدمات میں تمام 34الزامات میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔عدالت کی 12 رکن پر مشتمل جیوری کے اس فیصلے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر بن گئے ہیں جنہیں کسی جرم میں باقاعدہ سزا سنائی گئی ہے۔

امریکی قوانین کے مطابق سابق صدر کو ہر جرم کیلئے چار سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے اور یہ سزا 11 جولائی کو دی جائے گی۔اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور سزا کے بعد ٹرمپ کے سیاسی مستقبل سے متعلق اہم سوالات اٹھائے۔انہوں نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات تھے کہ انہوں نے سال 2016 کے انتخابات سے پہلے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے بالغ فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئلز کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کرنے کیلئے کہا تھا۔

سابق امریکی صدر نے اس رقم کو ادا کرنے کا اس لیے کہا تھا کہ تاکہ بالغ فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئلز یہ انکشاف نہ کردیں کہ ان کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک رات کا تعلق قائم ہوا تھا۔ انہوں نے اس کام کیلئے کاروباری ریکارڈ میں 34 مختلف طریقوں سے جعل سازی کی تھی۔

ماریہ میمن نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو اس وقت چار فوجداری مقدمات کا سامنا ہے جس میں خاموشی کی قیمت (ہیش منی) اور کاروباری ریکارڈ میں خورد برد جس میں ان کو سزا ہوئی۔اس کے علاوہ سال 2022 میں صدر جوبائیڈن کی بطور صدر توثیق روکنے کی سازش کا مقدمہ، وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد خفیہ دستاویزات اپنے ساتھ لے جانے کا کیس اور انتخابات میں دھاندلی کروانے کا کیس شامل ہیں۔

یاد رہے کہ عدالت نے چھ ہفتوں کے دوران22 گواہان کے بیانات سنے، متفقہ فیصلے پر پہنچنے سے پہلے بارہ ججوں نے دو دن تک غور و خوض بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ تمام صورتحال کی روشنی میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ جیل جاسکتے ہیں؟ جس کا جواب ہے کہ جی ہاں جاسکتے ہیں۔

دوسرا سوال ہے کہ کیا وہ بحیثیت صدارتی امیدوار انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں؟ اس کا بھی ہاں میں ہی ہے کیونکہ امریکی قوانین میں اس بات کی اجازت ہے کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے شخص کو الیکشن لڑنے سے روکا نہیں جاسکتا۔

اس حوالے سے کیے جانے والے مختلف عوامی سروے میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتی الزامات کے بعد ٹرمپ کی مقبولیت میں زیادہ اضافہ ہوا ہے ان کی چندہ مہم میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔

تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ بطور صدر اپنی سزا معاف کرپائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ منتخب ہوکر بھی خود کو معافی نہیں دے سکتے کیونکہ جس مقدمے میں سزا ہوئی وہ وفاق نے نہیں نیویارک کی ریاست نے قائم کیا تھا جسے صرف گورنر ہی معاف کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ فیصلے کیخلاف اپنے ردعمل میں مجرم قرار دینے والی جیوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر یہ مقدمہ بنانا دھاندلی ہے، میں بالکل بے قصور ہوں، یہ مقدمہ میری توہین ہے لیکن معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

حیدرآباد: حیدرآباد لوک سبھا سے آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر وبیرسٹر اسدالدین اویسی نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے  ایک مرتبہ پھر اپنی پارٹی کا پرچم لہرایا ہے۔ اسد اویسی مسلسل پانچویں مرتبہ حلقہ پارلیمنٹ حیدرآباد سے کامیابی حاصل کی ہے۔

واضح رہے کہ بی جے پی نے اسد اویسی کے خلاف مادھوی لتا کو اپنا ٹکٹ دیا تھا جبکہ کانگریس محمد ولی اللہ سمیر نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اسد اویسی نے 3 لاکھ 16 ہزار سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے بھگوا جماعت کی لیڈر مادھوی لتا کو کراری شکست دی ہے۔ حیدرآباد مجلس کا مضبوط گڑھ ماناجاتا ہے۔ صدر مجلس اسد اویسی 2004 سے لوک سبھا میں حیدرآباد کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔