ڈاکٹر سیّد احمد قادری
دنیا کے مختلف ممالک باہمی اشتراک سے دنیا میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر انسانی مسائل مثلاً انسانی حقوق کا تحفظ ، اقتصادی وسماجی ترقی اور ماحولیات وغیرہ کے لیے موافق حالات کے لیے اب سے 77 سال قبل اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا ۔قیام کے اتنے طویل عرصہ بعد ان متذکرہ مقاصد کے حصول میں اقوام متحدہ کس قدر کامیاب یا ناکام رہا ، اس کے جائزہ ، محاسبہ اور کچھ تبدیلی پر غور و خوض کرنے کے سلسلے میں بھی اب آوازیں اٹھنے لگی ہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ا س کے قیام کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ۔ اس تناظر میںیہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کی ہولناکی کو دنیا نہ صرف دیکھ چکی تھی بلکہ شدت سے بھگت بھی چکی تھی اور عالمی سطح کی ایک تنظیم ”لیگ آف دی نیشنز “ کی ناکامی سے بھی دنیا واقف تھی ۔ عالمی جنگ میں جو تباہی وبربادی ہوئی تھی، جس میں کروڑوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ اس لیے آنے والی نسلوں کو ان ہلاکتوں اور تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے ایک ایسے ادارے کا قیام کو ضروری تصور کیا گیا ۔ اس کے قیام کے لیے بلا شبہ امریکہ نے ہی پیش قدمی کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ UNC یعنی اقوام متحدہ کا نام پہلی بار امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے 1941 ءمیں استعمال کیا تھا اور جب 25 اپریل 1945 ءسے 26 جون 1945 تک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں پچاس ممالک کے نمائندوں کی عالمی امن و سلامتی کے لیے اہم کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا ۔ اس کے نام کی تجویز امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے پیش کی اور اسے قبول کر لیا گیا اور 24 اکتوبر 1945 ءکو اس کی باضابطہ تشکیل عمل میں آئی۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس ادارہ کی یہ اہمیت ہی کا ثبوت ہے کہ قیام کے وقت جہاں ممبران ممالک کی تعداد صرف پچاس تھی ، وہ بڑھ کر 193 ممبران ممالک اور دو غیر ریاستی ممبر تک پہنچ گئی ہے ۔ سیکورٹی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی میں کسی بھی رکن کو چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کئے جانے پر خارج کئے جانے کا اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام عمل کے وقت اس عالمی تنظیم کے چھ ادارے کے قیام کو بھی ضروری سمجھا گیا تھا،تاکہ دنیا میں امن و امان اور انسانی مسائل پر خاطر خواہ توجہ دی جاسکے ۔ ان چھ اداروں میں جنرل اسمبلی ، سلامتی کونسل ، اقتصادی وسماجی کونسل ، ٹرسٹی شپ کونسل ، انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ، سیکریٹریٹ شامل ہے۔ سلامتی کونسل جو اس عالمی تنظیم کا بہت اہم اور پاور فُل ادارہ ہے ۔ اس میں صرف 15 ممالک ممبران ہیں ۔ ان میں پانچ مستقل ممبران امریکہ ، روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس ہیں، باقی ممبران کو علاقائی ترتیب کے مطابق جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے ۔ سلامتی کونسل میں گرچہ فیصلے اکثریتی ووٹ سے ہوتے ہیں لیکن مستقل پانچ ممبران ممالک میں سے کوئی بھی اپنے ویٹو پاورکا استعمال کر تے ہوئے فیصلہ کو یکسر بدل یا ختم سکتا ہے ۔ حالانکہ اس ویٹو کا استعمال بعض اوقات منصفانہ نہ ہو کر ریاستی مفادات کے لیے بھی کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ کئی ایسے اہم مواقع پر اقوام متحدہ کی بے بسی اور مجبوری بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ جب تک بڑے ممالک کو ویٹو پاور کا اختیار حاصل ہے ، تب تک اقوام متحدہ میں شفافیت اور انصاف ممکن ہوتا نظر نہیں آتا ہے ۔یہ بڑے ممالک چھوٹے اور کمزور ممالک پر ہمیشہ تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ایسے بھی کئی مواقع آئے جب کسی اہم فیصلہ لینے میں اقوام متحدہ بے بس رہاہے ۔ اقوام متحدہ میں انگریزی ، چینی ، روسی ، فرانسیسی ، عربی اور ہسپانوی زبانیںشامل ہیں ۔
اقوام متحدہ کے اس مختصر تعارف کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے ا س کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ ان میں وہ کس حد تک کامیاب ہے یانا کام رہا۔ ایک اہم بات جو اقوام متحدہ کی حمایت میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے قیام کے اتنے طویل عرصہ گزر جانے کے بعد عالمی جنگ کی نوبت نہیں آئی ہے ،اس کی وجوہات جو بھی رہی ہوں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک ڈھائی سو سے زیادہ مختلف ممالک کے درمیان جنگیں ہو چکی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے اب تک عالمی سطح پر امن و سلامتی کوبرقرار رکھنے کی کوشش اور مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے 172 معاہدے کرا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے بموجب ا س کے ایک ذیلی ادارہ universal Declaration of Human Rights نے 80 سے زیادہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے کنونشن کا انعقاد کرکے انسانی حقوق اور عالمی تحفظ کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے اہم ادارہ WHO نے دنیا میں تیزی سے پھیل رہی کئی بڑی بیماریوں مثلاََ چیچک ، پولیو وغیرہ اور پھیلتی وبا کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔اقوام متحدہ کی بہتر کارکردگی کے حق میں ایک بات یہ بھی جاتی ہے کہ اس عالمی سطح کی تنظیم کی مختلف ایجنسیوں اور کارندوں کو ان کی شاندار کارکردگی اور خدمات کے اعتراف میں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا جاچکا ہے ۔ ان تمام مثبت حقائق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ایسی بہت ساری ناکامیاں بھی ہیں۔ جو اس بین الاقوامی ادارے کی اہمیت اور افادیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔ ہم بہت دور نہیں جاکر حالیہ واقعات اور سانحات کو یاد کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی ، چین کے سنکیانگ صوبے کے ایغور مسلمانوں کی چینی حکومت کے ذریعہ مسلسل قتل و غارت گری ، کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم ، فلسطین پر اسرائیلی بربریت ، روانڈا میں بڑھتی نسل کشی، شام،یمن، بوسینیا، سوڈان، مالی وغیرہ میں مسلمانوں کی بد سے بد تر ہوتی زندگی ،ساتھ ہی دنیاکے بہت سارے ممالک میں مسلسل انسانی حقوق کی پامالی اور اقوام متحدہ کی صرف بیان کی حد تک کوشش دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ہندوستان ہی کی مثال لے لیں ۔ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان میں مسلسل حقوق انسانی کو روندا جا رہا ہے اور متعدد بار اقوام متحدہ نے ہندوستان کی حکومت کواس سلسلے میں صرف متنبہ اور مذمت کیا ہے۔ افسوس کہ مذمتی بیان صرف بیان تک ہی رہااور حکومت ہند پر مذمت یا انتباہ کاکوئی اثر نہیں ہوا۔ابھی ابھی 19 اکتوبر کو ہی اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس ہندوستان کے دورہ پر تشریف لا ئے اور ممبئی کے آئی آئی ٹی کے طلبہ ، صحافیوں اور انسانی حقوق کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے بہت ہی واضح طور پر یہ بات کہی کہ ملک میں اقلیتوں کا تحفظ ہندوستان کی ذمہ داری ہے ۔انھوںنے ہندوستان کو اس بات کا بھی احساس دلانے کی کوشش یہ کہہ کر کی کہ دنیا میں مقبولیت اور شناخت ملک کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ انتونیو گوٹیرس نے حکومت ہند کو اس بات کی بھی اہمیت بتائی کہ ہندوستان کو دنیا بھر میں عزت واحترام اور مقبولیت انسانی حقوق کی پاسداری کرکے ہی مل سکتی ہے اور اسے اعتبار حاصل ہو سکتا ہے ۔ گوٹیرس نے شاید اپنے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر بھی نکالنے کی کوشش کی کہ حقوق انسانی کے ایک منتخب رکن کے طور پر ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کی تشکیل کرے اور اقلیتی برادریوں سمیت تمام افراد کے حقوق کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کرے نیز کثیر ثقافتی ، کثیر مذہبی اور کثیر النسلی معاشرے کی حفاظت اور نفرت انگیز تقریر کی مذمت کرکے یہ باوقارمقام حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس موقع پر انتونیو گوٹیرس نے ہندوستان کی عدلیہ کی آزادی کو بھی یقینی بنانے پر زور دیا ہے ، لیکن افسوس کہ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے اتنی ضروری اور اہم باتوں کا رسمی طور پر بھی کوئی جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ،لیکن ملک کے وزیر اعظم مودی حقوق انسانی کے مسئلے کو ہمیشہ دہشت گردی کی جانب موڑنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں ۔ اب سے چند سال قبل برسلز میں ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں جب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون تھے ،اس وقت مودی نے دہشت گردی پر سوال اٹھائے تھے ۔ بان کی مون کے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری رہتے ہوئے بہت سارے ممالک میں دہشت گردانہ ،ظلم وبربریت سے بھرے حملے ہوئے ، انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ، مہاجرین کے مسئلہ کا بھی کوئی مناسب حل نکالنے کی منصوبہ بند سنجیدہ اور عملی کوشش نہیں دیکھی گئی ۔ کئی ممالک دوسرے ممالک کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر حملہ آور ہوئے ، جنگ وجدال کی فضا قائم رہی ۔ معصوم اور بے گناہوں کے ناحق خون بہتے رہے ، اسکولوں اور اسپتالوں میں بمباری ہوتی رہی اور وہ اپنے انسانی فرائض سے چشم پوشی کرتے رہے ۔ایسے پورے حالات میں بان کی مون ہندی لفظ میں کہا جائے تو ”مون“ دھارن کیے رہے ۔ گزشتہ سال کے نومبر ماہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم اور انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزیوں پر مبنی رپورٹ جب اقوام متحدہ میں پیش کی گئی تھی، اس رپورٹ کو اسرائیل کے مندوب گیلاداردن نے تمام مندوبین کی نظروں کے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا تھا اور نام نہاد فلسطین کے ہمدرد تماشا دیکھتے رہے ۔ گزشتہ کئی ماہ سے روس ، یوکرین پر جنگ مسلط کیے ہوا ہے ، لیکن اقوام متحدہ یہاں بھی بے بس نظر آ رہی ہے ۔ اس لیے کہ یہاں بھی مسئلہ بڑی طاقت کا چھوٹے ملک پر ظلم وزیادتی کا ہے ۔ اقوام متحدہ کی کارکردگی پر غائر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس عالمی امن ، سلامتی اور حقوق انسانی و مساوات کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہے ۔اقوام متحدہ ماحولیات اور بدلتے موسم کے سلسلے میں بھی بہت سنجیدہ نظر نہیں آتا ہے۔ ابھی 20 ستمبر کو ہی دو سو سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی رہنماﺅں کے نام اپنے مکتوب میں غذائی بحران کو ختم کرنے کی کوشش کیے جانے کی گزارش کی ہے ۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے اپنی مثبت کوشش کیے جانے کی بجائے چند روز قبل یہ کہہ کر کئی ممالک کو خوف زدہ کر دیا ہے کہ عالمی تنازعات ، موسمی تبدیلی اور کووڈ 19 کے بعد پیدا ہونے والے منفی حالات کی وجہ سے غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے ، جس کے باعث اگر ضروری اقدامات نہیں کئے گئے تو خوراک کا موجوہ بحران 2023 ءمیں عالمی تباہی میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی اس اطلاع سے بہت سارے ممالک میں تشویش لازمی ہے ۔ اس عالمی بحران کو اقوام متحدہ کس طرح حل کرنے کے لیے عملی جد و جہد کرتا ہے ۔ اس کا لوگوں کو انتظار ہے ۔
اقوام متحدہ کے کی کارکردگی پر محاسبہ اور جائزہ لیے جانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس عالمی تنظیم کو دنیا کے تمام ممبران کے مسائل کو سمجھنے اور حتی الامکان ان کے تدارک کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وقت اور حالات کے نئے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ممکن ہو تو ان میں کچھ بہتر تبدیلی بھی لائی جائے ۔ اس ضمن میں ترکیہ کے صدر رجب اردغان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کیے جائیں اور ایک شفاف اور مو¿ثر سلامتی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ تمام رکن ممالک کے لیے مساوی حقوق کی علمبردار بنے ۔رجب اردغان نے نفرت اور تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کو زیادہ مو¿ثر اورتعمیری کردار ادا کی ضرورت پر زور دیا ہے ،تاکہ جن مقاصد کے لیے یہ عالمی تنظیم عالم وجود میں آئی ہے ، وہ انھیں پورا کر تے ہوئے پوری دنیا میں اپنی اہمیت،افادیت ، اعتماد اور اعتبار حاصل کر سکے ۔