آزادی کا امرت مہا اتسو‘حکمرانوں کے محاسبہ کا وقت
آزادی کا امرت مہا اتسو حکمران جماعت اور اسکی معاونین تنظیموں کیلئے ایک بہترین موقع بھی ہے اور وقت بھی ہے کہ وہ اپنی قیادت اور سیاست کا محاسبہ کریں کہ ملک میں دہشت اور بے چینی کا ماحول کیوں برپا ہوا؟کیا ملک کے تمام طبقات ہماری قیادت سے خوشحال ہیں یا نہیں؟کیا ہم اپنا دیا ہوا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟کیا ہم عوام کو بنیادی سہولیات اور انکی ضرورتیں پوری کررہے ہیں یا نہیں؟کیا ہماری حکومت جمہوری طرز پر چل رہی ہے یا نہیں؟کیا ہم مذہب سے بالاتر ہوکر جمہوریت کے محافظ بنے ہوئے ہیں یا نہیں؟
سید سرفراز احمد (بھینسہ)
وطن عزیز کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے جارہے ہیں اسی نسبت سے ملک میں بطور سالگرہ امرت مہا اتسو منایا جارہا ہے اسی دوران پورے بھارت میں ایک طرف پچاس ہزار سے زائد رنگا رنگی تقریبات کا انعقاد ہوچکا ہے اور دوسری طرف ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سہ روزہ یعنی 13 اگست تا 15 اگست گھر گھر قومی ترنگا لہرانے کی اپیل بھی کی ہے تاکہ پورے ملک سے حب الوطنی کا یکساں ثبوت پیش کیا جاسکے اور یقیناًایسا ہونا بھی چاہیئے یہی نہیں بلکہ جنگ آزادی کے وہ مجاہدین جنہوں نے کھلے اور چھپے طور پر وطن عزیز کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنا لہو اس خاک وطن کے حوالے کیا ان تمام شہیدوں کو بھی یاد کرنا چاہیئے کیونکہ ان لاکھوں شہیدوں کی مسلسل جدو جہد کو ملک کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔
دیش کے واسیوں میں وطن کی محبت اور وطن کیلئے مرمٹنا ایک موروثی حیثیت رکھتا ہے جو آج بھی ملک کے ایک ایک شہری کا دل وطن کیلئے اس جذبہ سے سرشار ہے امرت مہا اتسو بھی یہی درس دیتا ہیکہ موجودہ نسل اورآنے والی نسلوں میں وطن سے محبت وطن سے وفاداری وطن کیلئے قربانی بالخصوص وطن میں بین المذاہب کے درمیان اتحاد کو قائم کرنا ہر ایک کا اولین فرض ہونا چاہیئے کیونکہ ان ہی مطلوبہ صفات ہی کی وجہ سے آج سے پچھتر سال پہلے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروایا گیا ورنہ اگر ملک کے باشندے ملک کے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہوتے یا مذہبی تفرقہ میں پڑے ہوئے ہوتے تو نہ ملک آزاد ہوتا اور نہ ملک ترقی کرتا ہمارے اسلاف کی تعلیمات سے یہ سبق ملتا ہیکہ غلامی کا طوق پہننے والی قومیں ہمیشہ جکڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ماتحت بنکر رہ جاتی ہیں جبکہ ایک آزاد مملکت کی قوم کو قطعی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غلامی کی زندگی گذاریں اور نہ آزادی کا غلط استعمال کریں بلکہ دستور اور قانون کی رو سے اس پر سختی سے عمل آوری کرتے ہوئے اسکے شرائط اور نظم و نسق کی پابندی کریں یہی ایک آزاد مملکت کے ہر شہری کیلئے رہنمایانہ خطوط ہیں جو ہر شہری کو اسکا پابند بناتا ہے۔
بھارت اس سجے ہوئے گلدستہ کی مانند ہے جسمیں ہمہ رنگ کے گل لگے ہوں اور ہر گل اپنی ایک علحدہ رنگینی وخوشبو کی شناخت رکھتا ہو پھر اپنی یکسانیت اور خوبصورتی سے پر کشش بنانے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے بالکل یہی مثال ہمارے ملک بھارت کی بھی ہے جو کبھی کثرت میں وحدت کا ایک مثالی نمونہ ہوا کرتا تھا دنیا اس نمونہ کی مثال دیتی تھی کیونکہ ایسی کوئی مثال دنیا کے کسی خطے میں بھی نہیں ملتی تھی لیکن اس خوبصورت گلدستہ کو ملک میں بکھیرا جارہا ہے تاکہ انھیں منقسم کردیا جائے یہ محض سیاسی عزائم کا حصہ ہوسکتے ہیں لیکن ملک کی عوام کو اس سیاسی شعبدہ بازی کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیئے ورنہ نقصان خود کا اور ملک کا ہوگا ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے مسلمانوں سے ہی دیش بھکتی کا ثبوت مانگا جاتا ہے حالانکہ مسلمانوں کی ہزاروں سال پرانی تاریخ اس ملک سے وابستہ ہے جسکے تاریخی قلعے اور حکمرانی کی وہ جھلکیاں ہر روز چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہیں بات یہیں نہیں رکتی بلکہ اسی قوم کے رہنماؤں علماء و دانشوران کا ملک کی آزادی میں بہت بڑا اور اہم رول رہا ہے یہاں تک کہ ہنستے ہوئے سولی پر چڑھ گئے حالانکہ یہ تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے یہ الگ شکل ہیکہ اسکو چھپانے کی کوشش کی گئی پھر آج آزاد مملکت کے پچھتر سال بعد ہماری دیش بھکتی کا ثبوت مانگنے کا حق انھیں کس نے دیا؟ لیکن انکا کیا جوحکمران پارٹی کے سرکردہ قائدین میں شامل ہیں جو کھلے عام کہتے ہیں کہ ایک دن لال قلعہ پر بھگوا جھنڈا لہرائیں گے تو کیا اس بیان کو کونسی دیش بھکتی میں شامل میں کیا جائے گا؟ حالانکہ ایک طرف مودی جی کہتے ہیں کہ بھارت کے ترنگے کو ملک کا ہر فرد ڈی پی لگائے گھر گھر ترنگا لہرائے امرت مہا اتسو کا جوش و خروش کے ساتھ اہتمام کیا جائے لیکن تھوڑا سا وقفہ لیکر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ‘وزیر اعظم کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں قومی ترنگا نہیں لہرایا جاتا اور جو حکمران جماعت کے قائدین لال قلعہ پربھگوا جھنڈا لہرانے کی بات کرتے ہیں اور اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اس سے یہ صاف عیاں ہوتا ہیکہ بھارت کی آزادی کی پچھترویں سالگرہ کا جشن اور قومی ترنگے کی عزت اور حیثیت انکے نزدیک کیا ہے تو آج یہی جنکی دیش بھکتی کا پتہ نہیں وہ دیش بھکتوں سے دیش بھکتی کا ثبوت مانگ رہے ہیں حالانکہ گذشتہ آٹھ سالوں میں حکمران جماعت نے ملک کی جو تصویر پیش کی ہے اس تصویر میں آزاد مملکت کے وحشت ناک مناظر ملیں گے آزاد ملک میں تنگ نظری‘مخصوص مذہب کی آزادی سلب کرنا‘اظہار خیال کی آزادی پر غیر قانونی شکنجہ کسنا‘یا من چاہی آزادی پر عمل پیرا کے حامی بننا تو یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزاد ملک کے حکمران خود آزاد رہ کر اپنی رعایا کو زہنی غلامی کا طوق پہنانا چاہتے ہیں یہ نا تو آزادی کا تعارف ہے نہ ہی تعاون بلکہ یہ ایک سیاسی اور غیر زمہ دارانہ منطق ہے ۔
آزادی کا امرت مہا اتسو حکمران جماعت اور اسکی معاونین تنظیموں کیلئے ایک بہترین موقع بھی ہے اور وقت بھی ہے کہ وہ اپنی قیادت اور سیاست کا محاسبہ کریں کہ ملک میں دہشت اور بے چینی کا ماحول کیوں برپا ہوا؟کیا ملک کے تمام طبقات ہماری قیادت سے خوشحال ہیں یا نہیں؟کیا ہم اپنا دیا ہوا نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟کیا ہم عوام کو بنیادی سہولیات اور انکی ضرورتیں پوری کررہے ہیں یا نہیں؟کیا ہماری حکومت جمہوری طرز پر چل رہی ہے یا نہیں؟کیا ہم مذہب سے بالاتر ہوکر جمہوریت کے محافظ بنے ہوئے ہیں یا نہیں؟کیا ہم سیکولرزم کی بقاء کیلئے اور اسکی مضبوطی کیلئے کیا کوششیں کررہے ہیں یہ وہ سوالات ہے جنکا جائزہ اور احتساب اس موقع پر حکمران جماعت اور اسکی معاونین تنظیموں کو کرنا چاہیئے اور پھر وہ ترنگا جو ہر آن لہراتے ہوئے مساوات اخوت بھائی چارگی آزادی کا درس دیتا ہے اسکی حرمت دل کی پاکدامنی سے کرنا چاہیئے اور اس موقع پر یہ عہد کرنا چاہیئے کہ حکومت کا نصب العین سیکولرزم کی بقاءبین المذاہب میں بناء کوئی تفریق آپسی بیر کا خاتمہ اتحاد کا فروغ اور ملک کی ترقی ہونا چاہیئے جو ایک سیکولر ملک کی اہم نشانیاں ہیں اسکے علاوہ اس وطن عزیز کی پچھترویں سالگرہ پر یہ بھی عہد کیا جانا چاہیئے کہ ملک میں مذہبی آزادی میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا بلکہ مساویانہ حقوق فراہم کیئے جائیں گے تب ہی اس بکھرے ہوئے گلدستہ کو ایک گلدان میں سجایا جاسکتا ہے اسکی تہذیب و ثقافت کو دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے اور اس ملک عزیز کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال بنایا جاسکتا ہے تو پھریقینًایہ ملک آزاد بھارت کہلانے کے لائق رہے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰