سیاستمضامین

ایمن الظواہری کو آتشِ نمرود نگل گئی

القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے وقت بھی عالم کفر امریکا کے ساتھ اور اس کی حمایتی نظر آئے۔ چین، روس، امریکا مخالف نظر آنے والے ممالک بھی امریکا کے اس کام میں اس ساتھ ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ پاکستان، ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر، عراق اور وسط ایشیائی ممالک سمیت تمام ممالک اس کام میں امریکا کے ساتھ ہیں۔ الظواہری کو نائن الیون حملوں کے مشتبہ ماسٹر مائنڈز میں سے ایک سمجھتے ہیں

قاضی جاوید

امریکی میگزین نیویارکر میں ایمن الظواہری کی زندگی پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں درج ہے کہ ’’ایمن الظواہری کا تعلق مصر کے ایک مشہور خاندان سے تھا اور اس خاندان کے ہزاروں افراد طب کے شعبے سے منسلک تھے۔ لیکن ’’عجب چیز ہے لذتِ آشائی‘‘ شاید وہ لوگ تھے جن کا ذکر علامہ اقبال نے کیا ہے کہ
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلہِ مسجد ہْوں، نہ تہذیب کا فرزند
اور جدید تاریخ نے ایسے لوگوں کی سزا ڈرون حملوں میں شہادت رکھی ہے۔ مصر میں سید قطب کو پھانسی کے بعد وہاں کے نوجوان کافی غصے میں تھے اور اس وقت مصر کی سیکولر حکومت سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ جس نے پوری دنیا کے کافر اور مسلمان حکمرنوں کے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی جس کی وجہ وہ آج بھی سکون سے خالی ہیں اور امریکا کے غلاموں کی پرورش کر رہے ہیں اور ایمن الظواہری کو آتشِ نمرود نگل گئی۔ کوویڈ میں مبتلا صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کی بالکونی سے باہر نکل کر الظواہری کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’انصاف ہوگیا ہے۔ یہ دہشت گرد اب نہیں رہے۔ اب دنیا بھر کے لوگوں کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ 2001ء سے ہر امریکی صدر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی مسلمان جہادی کو مار کر دنیا کو یہ بتائے کہ وہ اسلام کا نام لینے اور اس کی سر بلندی کے لیے امریکا سے ٹکرانے کی کوشش نہ کر ے۔ 2001ء میں اس روایت کا آغاز جارج بش نے کیا اس کے بعد اوباما نے اُسامہ بن لادن اور ٹرمپ نے جنوری 2020ء کو جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں ہلاکت کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا تھا اب ’’دنیا بھر کے لوگوں کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج کی دنیا میں امن نام کی کوئی چیز دنیا کے کسی خطے میں نظر نہیں آرہی ہے۔
القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے وقت بھی عالم کفر امریکا کے ساتھ اور اس کی حمایتی نظر آئے۔ چین، روس، امریکا مخالف نظر آنے والے ممالک بھی امریکا کے اس کام میں اس ساتھ ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ پاکستان، ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر، عراق اور وسط ایشیائی ممالک سمیت تمام ممالک اس کام میں امریکا کے ساتھ ہیں۔ الظواہری کو نائن الیون حملوں کے مشتبہ ماسٹر مائنڈز میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ 2011 میں پاکستان میں امریکی کارروائی کے دوران القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی شہادت کے بعد 73 سالہ ایمن الظواہری نے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ ایمن الظواہری کا قتل اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد القاعدہ کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ اب تک ان کا کوئی جانشین سامنے نہیں آیا لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ الظواہری نے اپنے جانشین کے انتخاب سے اپنے ساتھیوں کا آگاہ کر دیا ہوگا۔ امریکا نے ایمن الظواہری کے قتل کے بعد اپنے شہریوں کو ممکنہ خطرے سے خبردار کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے اس حملے میں پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہیں ہوئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حملے کہاں سے ہوئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایمن الظواہری کے قتل کے بعد امریکی املاک اور اس کے شہریوں پر حملے ہوسکتے ہیں۔
امریکا نے افغانستان میں موجود القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کا کھوج کیسے لگایا؟ اس سوال کا جواب خطے کے ممالک ہی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی خدشہ ہے کہ قطر میں قائم سیٹلائٹ جاسوسی کے اڈے نے اپنا کام کیا ہے۔ یہاں سے نومبر 2001ء کو قطر میں قائم سیٹلائٹ ٹی وی اسٹیشن الجزیرہ سے نشر ہونے والی اس ویڈیو فوٹیج سے لی گئی القاعدہ کے سربراہ اور اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ایمن الظواہری کو امریکا نے کابل میں ایک گھر میں ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق وہ دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں جن میں صومالیہ میں 1993 میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت، 1998 میں مشرقی افریقا میں امریکی سفارت خانوں پر حملے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ شامل ہے۔ ایف بی آئی نے یہ بات درست کہی ہے کہ صومالیہ میں 1993 میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کو امریکی کبھی نہیں بھولتے اس کی وجہ سے وہ آج بھی صومالیہ میں اپنی فو ج کو اطمینان سے مالا مال نہیں کر سکے جہاں ان کی افواج کے ارکان عوام نے سڑکوں پر گھسیٹا تھا۔
یہ ٹھیک ہے کہ وہ جہادی تھے جس سے آج کافر ہی نہیں اسلامی ممالک کے حکمران بھی خوف سے کانپتے ہیں اور امریکا ان کو جہادیوں کا خوف دکھا کر بلیک میل کرتا ہے۔ ایمن الظواہری نے 1973میں نوجوانوں کی ایک تنظیم ’الغماعہ ال اسلامیہ (اسلامک گروپ) کی بنیاد رکھی۔ نیویارکر کے مطابق ’یہ تنظیم اتنی مشہور ہوگئی کہ بعد میں طلبہ نے فیشن کے طور پر ڈاڑھی رکھنا اور لڑکیوں نے نقاب پہننا شروع کردیا۔ 10 ستمبر 2003 کو الجزیرہ ٹی وی پر چلنے والی ایک فوٹیج کے اسکرین گریب میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نامعلوم مقام پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ایمن الظواہری افغان جہاد کے لیے عرب ممالک سے آئے ہوئے نوجوانوں کو پشاور میں تربیت دیتے تھے اور انہیں افغانستان میں موجود جہادی تنظیموں کے ساتھ ملواتے تھے۔ پشاور عرب ممالک سے جہادی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ایک مختصر قیام کی جگہ تھی۔ یہ سب کچھ بھی امریکا کی مرضی سے ہو رہا تھا۔ پشاور میں موجود عرب ممالک کے جہادی پاکستان سمیت ساری دنیا کے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اچھے لگتے تھے سب ہی ان کو ہیرو امریکا کی مرضی سے کہہ رہے تھے۔ وہ افغانستان اور سوڈان میں رہے۔ ماضی میں کئی مرتبہ ان کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہیں، القاعدہ کی جانب سے ان خبروں کی تردید ہوتی رہی اور کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ القاعدہ نے بھی تردید نہیں کی ہے اور ایسا لگتا ہے اس مرتبہ امریکا کو موصول ہونے والی اطلاع درست تھی اور قریبی غدار اس مرتبہ امریکی انعام کا مکمل حقداربن چکا ہو گا۔