ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
کسی ملک میں دستور تو ہو لیکن اس پر عمل آوری نہ ہو تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ باغ میں پھول تو ہیں لیکن اس میں خوشبو نہیں۔ آج زندگی کے ہر شعبے پر اگر سرسر ی نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہم ہر معاملے میں زوال کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ ملک کے دستور کی بے چارگی کا تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ اس کی صراحت اور وضاحت ہر شخص اپنے اپنے ڈھنگ سے کررہا ہے جیسے یہ دستور نہیں ہے بلکہ کسی شاعر کا شعر ہے جس کی اپنی اپنی پسند کے مطابق تشریح کی جارہی ہے۔ مندرجہ بالاسطور حقیقت کی مذمت کے لئے عام الفاظ میں لکھے گئے ہیں لیکن صورتحال اتنی گھناؤنی اور گندی ہوچکی ہے کہ جسے اگر ’’سیاسی قحبہ گری ‘‘ یعنی Political Prostitution کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا ۔ جمہوریت کا پہلا قتل دلی میں، دوسرا قتل بہار میں، تیسری ہتھیا چندی گڑھ میں اور چوتھا قتل جھارکھنڈ میں ہوا ہے۔ دلی کی کیجریوال حکومت کو ہر طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ بہار کے پلٹو رام نتیش کمار کو پھر سے بی جے پی کے پالے میں لالیا گیا ہے۔ چندی گڑھ میں میئر کے انتخاب کے سلسلے میں جو بھدّا مذاق کیا گیا ہے اسے کیا نام دیا جائے اس کی ڈکشنریوں میں تلاش کرنی ہوگی۔ میئر کے چناؤ کے لئے جملہ 36 ووٹ تھے ، انڈیا بلاک کے پاس 20 اور این ڈی اے کے پاس 16 ووٹ تھے۔ ریٹرننگ آفیسر نے انڈیا بلاک کے 8 ووٹوں کو اپنے قلم سے ٹک لگا کر In-Valid کردیا۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن عدلیہ نے اس سلگتے مسئلے پر فی الفور فیصلہ نہیں دیا ۔ جس سے عوام میں یہ خوف بڑھتا جارہا ہے کہ اگر عدالتیں عوامی مسائل کی سنوائی نہیں کریں گے تو کیا ہوگا؟ جھارکھنڈ کی منتخب سرکار کو گرانا اور انتہائی مقبول قبائلی لیڈر ہیمنت سورین کو گرفتار کرلینا ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی بدنما داغ ہے۔ یہ سارے حقائق اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی زوال پذیر ہے۔ رام مندر کی تعمیر سے جو آس مودی نے لگائی تھی وہ لگتا ہے کہ ناکام ہوچکی ہے۔ انہیں ہار کا ڈر اس قدر ستا رہا ہے کہ وہ چناؤ جیتنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ بھلے ہی انہیں اخلاقی طورپر چاہے کتنا ہی نیچے گر جانا پڑے۔ ایسے میں جمہوریت کے ساتھ عدالتوں کی بے نیازی بھی مبینہ طورپر ملک کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ سلگتے مسئلوں پر فی الفور فیصلے دینے کے بجائے عدالتیں ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر وقت ضائع کررہی ہے۔ دفتر شاہی پوری طرح مودی سرکار کی جیسے غلام ہی بن گئی ہے۔ سچ کے معاملوں میں نہ تو ان کے قلم چل رہے ہیں اور نہ ہی زبان چل رہی ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک بھی مودی ہیں اور دستور بھی مودی۔ اس ہفتے مودی سرکار کی بوکھلاہٹ کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ بھارت جوڑو نیائے یاترا پر 7200 کلو میٹر کا دورہ کرنے والے جیالے قائد راہول گاندھی کے سفر میں آسام کے چیف منسٹر کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی بی جے پی کی گھبراہٹ کا ثبوت ہے۔ راہول گاندھی کو ایک مندر کے درشن سے روک دیا گیا اسے کیسے حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے؟ راہول گاندھی کی اس یاترا کے سبب بھی بی جے پی کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ سیاسی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی 220 سیٹوں کے آس پاس ہی سمٹ کر رہ جائے گی۔ گو دی میڈیا بار بار یہ پروپگنڈہ کررہا ہے کہ انڈیا بلاک میں پھوٹ پڑ گئی ہے جو انتہائی غلط ہے۔ اپوزیشن کا متحدہ محاذ مضبوط ہے اور ان کے بیچ سیٹوں کا بٹوارہ قطعیت پاچکا ہے۔ سیاسی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ بہار کے عوام نتیش کمار کے این ڈی اے میں شامل ہوجانے پر بھڑکے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ پارلیمنٹ کے چناؤ کے دوران سامنے آجائے گا۔ تیجسوی یادو کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ساڑھے چار لاکھ نوکریوں کی فراہمی بہار کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو کا کارنامہ ہے۔ اس کامیابی کا سہرا بھی ان ہی سر باندھا گیا ہے جبکہ نتیش کمار نے خود یہ کہا ہے کہ کام تو ہم نے کیا لیکن Credit تیجسوی یادو لے کر آگے بڑھ گئے ہیں حالانکہ یہی سچائی ہے۔ جب اتنی تعداد میں ملازمتوں کی بات یادو نے کی تھی تو نتیش کمار نے ان کے اس دعوی کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہاتھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ ادھر اترپردیش سے بھی یہ خوشخبری ملی ہے کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان سیٹوں کے بٹوارے کی بات چیت کامیابی کے ساتھ ختم ہوگئی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے تنہا چناؤ میں جانے کی بات تو ضرور کہی لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ انڈیا بلاک کے باہر ہورہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے ان کے اس قدم کو Pressure Tactics یعنی دباؤکی حکمت عملی قرار دیا۔ راہول گاندھی انتہائی Mature سیاستداں بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ سبھی کو اپنا ہمنوا بناکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے بارہا یہ کہا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ وہیں ممتا بنرجی نے بھی اسی مقصد کے حصول پر زور دیا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جارہا ہے کہ بہار میں نتیش کے الگ ہوجانے سے مہا گٹھ بندھن کو نقصان ہوگا یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اب نتیش کو قائد ماننے کے لئے تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں ان کی پلٹیوں کو زبردست مذاق کا موضوع بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران ان پر اتنے کارٹون بنائے گئے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ایک جملے میں ان کی شخصیت کی منظر کشی کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ National Cartoon بن گئے ہیں۔ ملک کے تمام لسانی اخباروں نے ان پر جو طنز کسے ہیں وہ اپنے آپ میں غیر معمولی مثال ہے۔ سیاسی اکابرین کا یہ کہنا ہے کہ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو تلنگانہ، کرناٹک، مہاراشٹرا اور بہار میں زبردست نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اتر پردیش میں بھی اس کا کمزور مظاہرہ ہوگا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس بار پارلیمنٹ کے چناؤ میں ووٹوں کا تناسب بڑھے گا اور یہی اضافہ بی جے پی کے خلاف ایک Turning Point ثابت ہوگا۔ آسام ، کیرالا اور ٹاملناڈو میں انڈیا بلاک کا شاندار مظاہرہ ہوگا۔ بہرحال مودی ، آر ایس ایس یا بحیثیت مجموعی سنگھ پریوار اقتدار کی ہوس میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتے جارہے ہیں اب ان کے بارے میں تو یہی کہنا پڑے گا ۔
عروج پر نصیب تھا تو چھو رہا تھا آسماں
بگڑ گیا نصیب توزمیں سے بھی پھسل گیا