مضامین

’طوفان الاقصی آپریشن‘ اور عالم اسلام

سمیا نصر

حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ ایک بار پھر عدم استحکام اور تقسیم کا شکار ہے جبکہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا معاملہ پس پشت جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایک جانب ایران اور شام حماس کی حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں، وہیں سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ساتھ مصر اور اردن کے ساتھ بات کی ہے۔ محمد بن سلمان نے منگل کے دن فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بات چیت میں کہا کہ ’سعودی عرب فلسطینیوں کے حقوق، ان کی امیدوں، عزائم اور امن کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
بدھ کو عرب لیگ کا اجلاس بلایا گیا ہے جبکہ ایران اور عراق نے فلسطین کی تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس بلایا ہے۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والا حالیہ حملہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کا چرچہ ہو رہا تھا۔
سعودی عرب کی جانب سے ہمیشہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا یہ عمل اقوام متحدہ کے دو ریاستی حل، یعنی فلسطین اور اسرائیل کے قیام، کے ساتھ ساتھ بے دخل ہونے والے فلسطینیوں کے معاملے کے منصفانہ حل سے بھی جڑا ہوا ہے۔
تاہم مذاکرات کے اس عمل میں حالیہ عرصے میں تیزی اور سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے اور اپنے جوہری پروگرام کی حمایت کی خواہش نے فلسطینیوں، بالخصوص حماس میں اس خوف کو جنم دیا تھا کہ خطے میں متوقع نئے اتحاد اور سکیورٹی مفادات کے بیچ ان کا تنازع بْھلا دیا جائے گا۔
مشرق وسطی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار حالیہ پیش رفت، خصوصاً حماس کے حملے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اب سعودی عرب اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی کی کوششیں دم توڑ جائیں گی یا پھر وقتی تعطل آئے گا؟
یہ سوال اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر کی جانے والی بمباری کی وجہ سے اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔
’بحالی اس تنازع کو حل نہیں کر سکتی:‘
سنہ 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن مذاکرات میں کئی برسوں سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہونے کے باوجود، اسی دوران، اسرائیل نے مراکش اور سوڈان سے بھی تعلقات مضبوط کیے۔
حالیہ مہینوں میں امریکی کوششوں کے سبب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بھی تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات ہوئے ہیں۔
اگر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سعودی عرب سے یہ ’تاریخی امن معاہدہ‘ حاصل کر لیتے ہیں تو ایسی صورت میں انھیں سیاسی اور معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ عرب اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی اہمیت کی وجہ سے علامتی طور پر کافی اہم کامیابی حاصل ہو گی۔ دوسری جانب یہ معاہدہ امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے دوسری صدارتی مدت کے انتخاب سے قبل ایک بڑی سفارتی کامیابی ہو گی۔
ستمبر میں امریکی نشریاتی ادارے ’فوکس نیوز‘ کے چیف پولیٹیکل اینکر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر بریٹ بائیر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ’ہر روز ہم سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معمول پر آنے کے معاہدے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین اب بھی بات چیت کا ایک ’انتہائی اہم‘ حصہ ہے۔
محمد بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم ایسے کسی معاہدے تک پہنچنے میں کوئی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملیں اور خطے کو پرامن بنایا جائے، تو ہم کسی کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ فلسطین ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہمیں اس مسئلے کو بھی سلجھانا ہے اور اب تک ہماری مذاکرات کی حکمت عملی اچھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم کسی ایسے نتیجہ پر پہنچیں جو فلسطینیوں کی زندگی کو آسان بنائے اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک اہم ملک بن کر سامنے آئے۔‘
تاہم حماس مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے اس عمل کی مخالفت کر رہی ہے۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد کہا تھا کہ ’ہم تمام ممالک، بشمول عرب بھائیوں، سے کہتے ہیں کہ اسرائیل آپ کو سکیورٹی یا تحفظ نہیں دے سکتا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے یہ تنازع ختم نہیں ہو گا۔‘
لبنان میں موجود حزب اللہ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں اور حماس کے حملے کے بعد یاددہانی کروائی ہے کہ ’فلسطین کا معاملہ ایک جیتا جاگتا مسئلہ ہے جو فتح اور آزادی حاصل کرنے تک ختم نہیں ہو گا۔‘
تجزیہ کاروں نے حماس اور حزب اللہ کے بیانات کو سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا ہے کہ اگر فلسطین کو ان مذاکرات سے دور رکھا گیا تو خطے میں امن اور استحکام ممکن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر احمد ابو دواہ چیٹم ہاؤس نامی برطانوی ادارے میں ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ حماس کے حملے کا ایک اہم مقصد اسرائیلی حکومت کی جانب سے خطے میں امن کے لیے الگ سے معاہدے کرنے کی کوشش کو روکنا اور فلسطینی مسئلے کا حل نکالنا ہے۔
’حماس نے مذاکرات کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا ہے‘
’الاقصی طوفان‘ کے بعد سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں دونوں اطراف سے کارروائیاں روکنے اور عام شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے اور طویل عرصے سے ان کے علاقوں پر قبضہ جاری رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہونے کے بارے میں بار بار خبردار کیا جاتا رہا۔‘
ڈاکٹر احمد ابو نے عندیہ دیا کہ سعودی عرب کے بیانات ان شکوک کی نفی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کو فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ پر ترجیح دے گا۔
سعودی میڈیا نے ایک امریکی اہلکار کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق حالیہ پیش رفت سے مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ ان مذاکرات کا حتمی نتیجہ سامنے آنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ تصور مشکل ہے کہ مذاکرات جاری رہ سکیں گے بھی یا نہیں۔
ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ ’حماس اور اسرائیل کی جنگ کے مذاکرات پر گہرے اثرات ہوں گے۔ حماس نے فیصلہ کیا کہ مذاکرات کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوں گے یا پھر مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر نتن یاہو کے دعوؤں کے مطابق سعودی عرب نے فلسطینیوں کو رعایتیں دینے کا مطالبہ مذاکرات کے دوران سامنے رکھا تھا تو اب یہ مطالبہ مستقبل کے مذاکرات کا مرکزی نکتہ بن جائے گا چاہے دونوں اطراف کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔‘
تعلقات کی بحالی کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
یہ بات درست ہے کہ امریکی ثالثی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات میں حالیہ وقتوں میں تیزی آئی لیکن یہ مذاکرات پیچیدہ نوعیت کے ہیں جن میں تین پارٹیوں کو مشکل فیصلے کرنا ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے فلسطینیوں کی زندگی آسان کرنے کی اعلان کردہ خواہش کے علاوہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکہ جوہری پروگرام میں بھی مدد کرے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب امریکہ سے دفاعی معاہدہ کرنے کا بھی خواہش مند ہے جس کے تحت امریکہ سعودی عرب کو کسی بھی حملے کی صورت میں تحفظ فراہم کرے گا۔ ان دو مطالبات پر امریکہ اور اسرائیل میں تحفظات موجود ہیں۔ تاہم حالیہ پیش رفت کے بعد ان مذاکرات کی پیچیدگی میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی انتظامیہ حماس کے حملوں کے بعد اپنے اتحادی اسرائیل کا ساتھ دے گی۔ ڈاکٹر احمد کا ماننا ہے کہ ’مذاکرات کی بحالی کا دارومدار اب اس بات پر ہو گا کہ اسرائلی ردعمل کتنا زیادہ ہوتا ہے اور کیا لڑائی غرب اردن تک پھیل کر مہینوں جاری تو نہیں رہتی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسی صورتحال میں سعودی عرب کو مذاکرات بحال کرنے کے لیے صدر بائیڈن کی دوسری صدارتی مدت یا پھر نئے امریکی صدر تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘
سنیچر کے حملوں سے قبل جہاں ایک نئے مشرق وسطی کے بارے میں بات ہو رہی تھی اب صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ ’حالیہ لڑائی سے یہ سبق ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امن ایسے ممالک سے تعلقات بحال کرنے سے نہیں آئے گا جن سے اسرائیل نے کبھی جنگ کی ہی نہیں۔
’اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ ملک کتنے اہم ہیں۔ جب تک فلسطین کے مسئلے کی جڑ کو براہ راست حل نہیں کیا جاتا، منصفانہ اور دیرپا امن نہیں ہو سکتا۔‘

a3w
a3w