طنز و مزاحمضامین

چُرکا، چرخہ اور سرقہ

زکریا سلطان۔ ریاض

چُرکا ۔ چرکا کئی قسم کا ہوتا ہے اور چرکے کی ہر قسم کا ایک الگ مزہ ہوتا ہے ۔ سب سے خطرناک چرکا استری اور کیتلی کاہوتا ہے
چرخہ ۔ کچھ لوگ چرخہ چلانے والوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ تیر و ترشول چلانے اور گولی مارنے والوں کو وہ پسند کرتے ہیں
سرقہ ۔ سرقہ یعنی چوری بھی کئی قسم اور کئی چیزوں کی ہوتی ہے ۔ای وی ایم کے بعد سب سے خطرناک چوری دل کی ہوتی ہے جس سے دنیا لٹ جاتی ہے
یہ بی بی سی لندن نہیں! اے بی سی حیدرآباد (آزاد براڈکاسٹنگ کارپوریشن) ہے۔ابھی آپ سرخیاں دیکھ رہے تھے، آئیے اب مضمون پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چُرکے کئی قسم اور کئی چیزوںکے ہوتے ہیں مثلاً سگریٹ کا چرکا، بجلی کے تار کا چرکا، گرم برتن کا چرکا، زبان کا چرکا۔ زبان کو لگنے والا چرکا الگ چیزہے اور زبان سے دوسروں کو دیا جانے والا چرکا الگ ہے ، زبان کے چرکے کا گھاﺅ بہت گہرا ہوتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ تلوار کا زخم مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان سے دیے گئے زخم اور چرکے کا مندمل ہونا بہت مشکل ہے، اس لیے اسلام میں زبان کی حفاظت کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ کرے کہ دنیا کے سارے انسان اپنی زبانوں کی حفاظت کرکے خود بھی مامون رہیں اور دوسروں کو بھی امن چین سے رہنے دیں، ایک انسان کی غیر ذمہ داری اور بدزبانی سے لاکھوں انسان متاثر ہوجاتے ہیں اور چند نازیبا کلمات سے دنیا کا امن و امان اور معیشت تباہ ہو جاتے ہیں۔ چرکوں میں استری کا چرکا بہت خطرناک ہوتا ہے چاہے وہ کپڑوں کی سلوٹیں دور کرنے والی گرم گرم استری ہویا استری بہ معنی عورت ، کیوں کہ اپنی بے حسی، بدعقلی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے استری( عورت) کا چرکا کھانے والادنیا کے سفرپراکیلا ہی نکل پڑتا ہے ، ایسے احمق کے بارے میں لوگ کہتے ہیں ”دیکھو اس کو سارے ملک کی استریوں کی فکر رہتی ہے مگر خود اپنی استری کو یہ ٹھیک سے چلا نہ سکا “ ایک اور خطرناک چرکا چائے اور کیتلی کا ہوتا ہے جس سے ہونٹ منہ زبان دل سب کچھ جل جاتے ہیں،بدقسمتی سے پورے ملک کے عوام کو کیتلی کا چرکا لگا ہے جس سے وہ بری طرح جھلس گئے ہیں۔
بابائے قوم گاندھی جی اعلیٰ تعلیمافتہ امن پسندتحریک کے علمبردار اور کفایت شعارتھے، چرخہ چلاتے تھے اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ جسم پران کے مختصر لباس ہوتا تھا، وہ دس لاکھ کا قیمتی سوٹ نہیں پہنتے تھے۔ انہوں نے ساری دنیا کو امن و آشتی کی تعلیم دی اور آزادی کی جنگ لڑی ،زندگی اخوت و بھائی چارگی کی تدریس و تلقین میں گزاردی جو انگریزوں کے تلوے چاٹنے اور ان سے وظیفہ حاصل کرنے والے غلاموں کو پسند نہ آیا اور ان ہی امن کے دشمنوں میں سے ایک بدبخت نے گاندھی جی کو گولی ماردی۔ زعفرانی آئیڈیالوجی کو امن و امان پسند نہیں ، وہ فساد فی الارض چاہتا ہے، آج بھی ملک بھر میں زعفرانی تنظیمیں تیر و ترشول اور گولہ باری کی بات کررہی ہیں تاکہ انسانی جانوں کو تلف کرکے خون کی ندیاں بہائی جائیں، شیطان کے چیلوں کو اس سے تسکین حاصل ہوتی ہے،جب گولیاں چلتی اور بم پھٹتے ہیں تو ان کے دل میں لڈو پھوٹتے ہیں ۔ تُف ہے اس سوچ پر، اُس خاتون پر اور اس کی پیٹھ تھپتھپانے والوں پر جس نے بابائے قوم گاندھی جی کا علامتی پتلا بنا کر اس پر گولیاں چلائی، اس پر غداری کا مقدمہ چلا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا چاہیے تھا، مگر کیا کیجئے ملک میں سنگدل سنگتروں کا ننگا ناچ اور ان ہی کا راج ہے !!!
سرقہ یعنی چوری بھی کئی قسم کی اور کئی چیزوں کی ہوتی ہے مثلاًنوٹوں کی چوری، ووٹوں کی چوری ، ای وی ایم کی چوری ،بینک سے رقم کی چوری ،دوسرے بڑے چوروںکی مدد سے کروڑوں روپیوں کا لون لے کر ملک سے نو دو گیارہ ہوجانا سرقہ کی معراج ہے۔ کہتے ہیں چور کا چلانا سب سے زیادہ ہوتا ہے، چور مچائے شور کی کہاوت بھی مشہور ہے، آج کل چور چوروں کو پکڑنے لگے ہیں مگر اُن چوروں کو نہیں پکڑتے جو اپنی پارٹی کے ہوتے ہیں یا دوسری پارٹی سے اپنی پارٹی میںشا مل ہوجاتے ہیں، صرف اُن چوروں کو ہی پکڑتے ہیں جو آنکھ میں آنکھ ڈال کرچوری میں برابر کا حصہ مانگتے ہیں اور بڑے آقاﺅں کے اشارہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چور کبھی خود کوچور کہلانا پسند نہیں کرتااور نہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے گھر میں کوئی دوسرا چور آکر چوری کرے۔ سنتے ہیں کہ شاعر حضرات بھی دوسروں کے اچھے شعر کٹ کرکے اپنے نام سے پیسٹ کرلیتے ہیں،پھرمحفلوں میں سناکرخوب داد بٹوری جاتی ہے۔ادبی سرقہ کا ہم بھی شکار ہوئے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمارے کالم ”جن کا بچہ“ کا سرقہ کرکے ہلکی سی تبدیلی کے ساتھ چھپوالیا ۔ ایک مرتبہ ہمارے مضمون کو دہلی کے روزنامہ نے اداریہ کے طور پر چھاپ لیا،جب ہم نے ایڈیٹر صاحب کی خبر لی تو کہنے لگے ”دراصل آپ کا مضمون بہت اچھا تھا، اس لیے ہم نے اسے اداریہ میں جگہ دی ہے اور اداریہ میں لکھنے والے کا نام نہیں ہوتا“ واہ صاحب! کیا ہاتھ کی صفائی ہے!!! حال ہی میں ایک ہفت روزہ نے ہمارے مراسلہ ”گجرات پل کا انہدام۔ ایکٹ آف گاڈ یا ایکٹ آف فراڈ“کو ایک گجراتی بھائی کے نام سے چھاپ دیا ! گجراتی حضرات کے مکر و فریب کے ملک بھر میں چرچے ہیں، سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہوگئی ۔ شاید گجراتی متر نے کسی اور اخبار سے سرقہ کرکے اپنے نام سے چھپوالیا۔ہم نے دوستوں سے شکایت کی تو ایک کرم فرما نے کہا ”مراسلہ کا سرقہ“ کے عنوان سے ایک کالم زیر و زبر ٹھوک دو!!!

a3w
a3w