طنز و مزاحمضامین

قربانی کے کوفتے اورکباب

محمد نعیم الدین خطیب

کوفت اورکوفتے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کوفتے سے خون بڑھتا ہے۔ دل میں مزید کھانے کی امنگ پیدا ہوتی ہے، چہرے پر رونق آجاتی ہے۔ بوڑھا بھی جوان ہوجاتا ہے۔ من ہی من میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں۔ کوفت سے خون جلتا ہے۔ لذت دہن مرجاتی ہے۔ چہرے پر بڑھاپا چھا جاتا ہے۔ املا کے لحاظ سے کوفت اورکوفتہ میں صرف ’ہ‘ کا فرق ہے لیکن اسی ’ہ‘ سے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ اسی کو اردو کی نزاکت، لطافت، نفاست اور ظرافت کہتے ہیں۔ کوفت کی بجائے کوفتہ کوفروغ دیجئے اور زندگی خوشگوار بنائیے۔
کوفتے بنانا ایک محنت طلب کام ہے۔ پہلے جانور کے گوشت کی نرم نرم بوٹیاں چن لی جاتی ہیں۔ ان بوٹیوں کوکوٹ کوٹ کر اس کا قیمہ بنایا جاتا ہے، اس قیمے کو پیس پیس کر قیمہ کا باریک قیمہ بنایا جاتا ہے۔ اس قیمہ کو پکا کر اس کا قیمہ بنایا جاتا ہے، اس قیمہ سے گول گول بوٹیاں بنائی جاتی ہے۔ ان ہی بوٹیوں کوپھوڑکراس میں سے قیمہ نکال کر مزے لے لے کر مزے سے کھایا جاتا ہے اسی کو ہمارے ہاں کوفتہ کہا جاتا ہے ہمارے پڑوسی ملک کے پنجاب میں پنجابی زبان کے ایک مشہورشاعر انورمسعود ہیں ان کی پنجابی نظم ”کوفتے“ میں کوفتے کے آغازوانجام کو بڑے ہی دلچسپ اورمزاحیہ انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ آپ اپنے یوٹیوب پر سن سکتے ہیں، آپ کوسننے میں کوفتے کھانے سے زیادہ مزہ آئے گا۔ مسالے کی مقدار پانی کی دھار سالن کی شکل وصورت، علاقائی حدود کے لحاظ سے کوفتے کی کئی قسمیں ہیں۔ان سب کوفتوں میں نرگسی کوفتے بڑے ہی اعلیٰ نسل کے سمجھے جاتے ہیں۔
کوفتے کھانے کا اصل مزہ توبقرعید میں ہوتا ہے۔گھر میں بھرپور مقدار میں گوشت ہوتا ہے۔ جتنا چاہے لے لو۔ اس دن بیوی کی ساری دلچسپی کباب میں ہوتی ہے۔ تاکہ سال بھر کا نظم کیا جاسکے۔ بچے بھیجہ‘ لیجی‘ گردے تلنے اور کھانے میں مشغول ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ ”مشن کوفتہ“ میں لگ جاتے ہیں۔چن چن کر نرم نرم گوشت نکال لیاجاتا ہے۔ بڑی محنت سے اس کی باریک باریک بوٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ انھیں مکسرمیں پیسا جاتا ہے۔ بڑے بڑے گول گول مردانی کوفتے وافرمقدار میں بنالیے جاتے ہیں تاکہ کئی دنوں تک کھاسکے۔ ادرک، لہسن،مرچ مسالہ کے لیے قدم قدم پر بیوی کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ بڑی منت وسماجت کے بعدکوفتے کا سالن بنتا ہے۔ روحانی ترہونے تک کوفتے کھائے جاتے ہیں، اس دن ہرمسلمان کے گھرمردانی کوفتوں کی بہارہوتی ہے۔
ہرسال حج کے موقع پر حاجی لاکھوں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں، ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھاکہ اتنے گوشت کا سعودی کیاکرتے ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے سارے گوشت کونفاست اورسلیقے سے پیک کرکے غریب مسلم ممالک، زلزلہ سے متاثرہ، قحط زدہ، جنگ زدہ یاضرروت مند ملک کو بھیج دیاجاتا ہے۔ اس طرح حاجیوں کے قر بانی کے ثمرات ساری دنیا کے غریب لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں توعیدالاضحی کے گوشت مانگنے والوں کے جلوس نکلتے ہیں، جس کا ہر فرد ہر دروازے پرپانچ پانچ مرتبہ دستک دے کر ناک میں دم کردیتا ہے۔ بوگس ووٹروں کی طرح بوگس فقیروں کی دھوم ہوتی ہے۔ کچھ باشعور افراد اس غول بیابانی سے کچھ گوشت بچا کر ایک جگہ جمع کردیتے ہیں۔ اس گوشت کو ایسے سفید پوش حضرات میں تقسیم کیاجاتا ہے جواپنی غریبی اورضرورت کے باوجود مانگنے کے لیے نہیں نکلتے۔ اللہ ان نیک بندوں کواجرعظیم عطا کرے اورہمیں اس کا ر خیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسنون تویہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ عید کے دن توہرمسلمان کا گھر کبابوں کی مہک سے مہکتا ہے۔ نئی نئی رسیوں پر لمبے لمبے کباب اہتمام سے سجائے جاتے ہیں۔ شامی کباب اور سیخ کباب کی مہک سے دل مہک اٹھتا ہے۔ کھچڑے اور ہریس کی دیگیں چڑھی ہوتی ہیں۔کم چاول اور زیادہ گوشت والی بریانی کو دم دیا جاتا ہے۔بھنے ہوئے اورتلے ہوئے گوشت کے کٹورے دسترکی رونق بڑھاتے ہیں۔کلیجی پہلے ہی ابال لی جاتی ہے۔ بھیجہ تل لیا جاتا ہے، نلیوں کوالگ سے ابالا جاتا ہے۔ گوشت کے اچارسے برنیاں بھری جاتی ہیں۔ فریج خالی کرکے اسے گوشت سے لبالب بھرلیا جاتا ہے۔ گوشت کاٹنے اورپیسنے میں بھی مردحضرات جوش وخروش سے حصہ لیتے ہیں۔ ان سب کے بعدجوگوشت اورہڈیاں بچ جاتا ہے، وہ غریبوں اوررشتہ داروں میں دے دیا جاتا ہے۔ جانور میں موجود بیس قسم کے گوشت کے ذائقوں کا پوری طرح مزہ لیاجاتا ہے۔ ان سب کھانوں سے پیٹ بھرنے کے بعد ہاضمہ کی گولیاں اور چورن کی جگالی کی جاتی ہے۔ ان دنوں کتے بھی خوب کھاپی کر آرام سے بے ہوشی کی نیند سوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے لڑنے اوربھونکنے کی آوازبھی سنائی نہیں دیتی۔ بہرحال کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمیں کوفتوں اورکبابوں سے زیادہ فلسفہ قربانی یادرہے تاکہ ہم پورے جوش اور ولولے سے کہہ سکیں:
میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اورموت سب کچھ ا للہ کے لیے ہے۔ ہم اللہ کی راہ میں شہادت سے جان چرانے کی بجائے جان ومال کی قربانی کے لیے ہروقت تیار رہیں۔
٭٭٭

a3w
a3w