مضامین

یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

امت مسلمہ آج عید الاضحی منا رہی ہے۔ عید قربان کا یہ مبارک دن ابوالا نبیاءحضرت سیدنا ابراہیم ؑ اور آپ کے فرمابردار فرزند حضرت اسمٰعیل کی اس سنت کو یاد دلاتا ہے جب آپ دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لانے میںتسلیم و رضا کا ایسا بے مثال نمونہ پیش کیا کہ خالقِ کائنات کو باپ اور بیٹے کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اُ سے تا قیامت جاری و ساری کر دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا حضرت اسمٰعیلؑ کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کا عزم کوئی حادثہِ اتفاقی نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے خلیل کا ایک آخری اور کٹھن امتحان لے رہا تھا کہ وہ ابراہیم جو ساری زندگی میرے احکام کو بجا لاتے ہوئے اپنے مشن پر گامزن رہا، کیا اب اپنی جان سے عزیز بیٹے کو میری راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔حضرت ابراہیم ؑ نے بغیر کسی حزن و ملال کے اس عمل کو جب پورا کر دیا اور اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرادیا اور اس کے گلے پر چھری چلادی تو اعلان خدا وندی ہوا کہ ” اے ابراہیم ؑ تو نے خواب کو سچ کر دیا ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “( سورہ الصفٰت) عید الاضحی کے موقع پر ساری دنیا کے مسلمان اسی واقعہ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے قربانی کے عمل کو پورا کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت اسمعیلؑ کی جان لینا مقصود نہیں تھا بلکہ وہ آزمار ہے تھے کے زندگی کے اس آخری پڑاو¿ میں بھی حضرت ابراہیمؑ میں ایمان پر استقامت کا وہ جذبہ باقی ہے یا نہیں جس کا ثبوت وہ اپنے عنفوان شباب سے دے رہے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس کھلی آزمائش میں بھی پورے اُترے اور اپنے بیٹے کو رضائے الٰہی کی خاطر قربان کر نے تیار ہو گئے۔ آج امت مسلمہ اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کر تے ہوئے کبھی یہ غور کر تی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیلؑ کے اس جذبہ قربانی میں بصیرت کے کتنے راز پنہاں ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی اور آپ کی دعوت سے متعلق بہت سارے پہلو بڑے حکیمانہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی پوری سرگزشت کا لب لباب یہ ہے کہ انہوں نے توحیدِ خالص کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور شرک سے بغاوت کا اعلان کیا۔ اس مشن کو انجام دیتے ہوئے انہیں بڑی آزمائشوں سے گز رنا پڑا۔ لیکن تاریخ گواہی دیتی ہے کہ باطل طاقتوں کے رعب و دبدبہ سے گھبرائے بغیرحضرت ابراہیمؑ بندگی ِ رب کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے۔ قرآن مجید نے حضرت ابراہیمؑ کو اپنی ذات میں ایک امت قرار دیا۔ کہا گیا کہ ” ابراہیمؑ اپنی ذات سے پوری ایک امت تھے۔ اللہ کے مطیعِ فرمان اور یک سُو اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے “ ( سورہ النحل )حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حق کی بصیرت شروع سے ہی عطا کی تھی۔ آپ کی پیدائش ایک ایسے معاشرے میں ہوئی جہاں ہر طرف شرک و کفر کی دبیز چادر نے پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بت پر ستی، آباءپر ستی اور مظاہر پرستی کی قوم عادی ہو چکی تھی۔ حق و باطل کی تمیز سے انسان محروم ہو گیا تھا۔ فسق و فجور سے سارا سماج آلودہ ہو گیا تھا۔ شرک کے ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں توحید کی شمع جلتی ہوئی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بُتوں کو انہوں نے اپنا خدا بنا لیا تھا۔ حق بات کو سننے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ ایسے مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو ایک عظیم ذ مہ داری سونپ کر مبعوث فرمایا۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب کار نبوت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے خاندان کے لوگ ہی مخالفت پر اُ تر آئے۔ پھر معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ وقت کے نمرود کے دربار میں حضرت ابراہیم ؑ کو پیش کر دیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ہر طرف سے مخالفت کے باوجود جس اخلاص و للہیت اور جس صبر و استقامت کے ساتھ دعوتِ توحید کے فرض کو انجام دیا اس سے دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کو ایک عزم اور حوصلہ ملتا ہے۔ شدید ترین مخالفتوں کا سامنا کر تے ہوئے دین کی دعوت کیسے دی جا سکتی ہے، اس کا بہترین نمونہ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت میں ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعوت کا جوطریقہ اختیارکیا وہ دورِ حاضر میں بھی اپنی غیر معمولی معنویت رکھتا ہے۔ توحید کی ابدی حقیقتوں کو حضرت ابراہیمؑ نے عقلی دلائل کے ذریعہ بھی ثابت کیا۔ انہوں نے قوم کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے قوم سے جو مکالمے کیے اس کی تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے۔ جب انہوں نے اپنے باپ آذر کے سامنے دعوت حق پیش کی تو باپ نے حق کو قبول کرنے کے بجائے دھمکی دی کہ اگر تم اس دعوت سے باز نہ آئے تو تمہیں پتھر مارمار کر قتل کردوں گا۔ باپ سے مایوس ہو کر جب ابراہیمؑ نے قوم کو اس دعوت کی طرف بلایا تو قوم نے آپ کو قتل کرنے یا جلاڈالنے کا فیصلہ کیا۔ نمرود نے آپ کو آگ میں ڈال دیا، لیکن ان ساری مصیبتوں کو جھیلنے کے بعد بھی حضرت ابراہیم ؑ کے قدم نہیں ڈگمگائے اور آپ اپنے مشن کو جاری رکھے۔جن نامساعد حالات میں حضرت ابراہیم ؑ نے جس اعتماد اور بہادری کے ساتھ پیغام ِ حق کو پہنچایا، اس سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ حالات کی ناسازگاری دعوتِ دین کو پیش کرنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ بسا اوقات یہ سننے میں آتا ہے کہ حالات بڑے خراب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے دائرے کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ باطل طاقتیں اپنے آزمودہ حربے پھر ایک بار اسلام کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ معبودان باطل نمرود اور فرعون کی چالیں چل رہے ہیں۔ ان تمام اندیشوں کے باوجود اسلام کی ابدی تعلیمات سے انسانیت کو دور رکھناممکن نہیں ہے۔ اسلام کے آفاقی پیغام سے باطل لزر رہا ہے، لیکن حق کے متلاشی بھی دنیا میں کم نہیں ہوئے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے بعد بھی انسان اپنے خالق و مالک کو پہنچانے میں کا میاب نہیں ہوا ہے۔ تمام تر مادی ترقی کے باوجود انسان سکون اور اطمینان کی زندگی سے محروم ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دراصل عقیدہ کی کمزوری، ایک خدا کے وجود سے انکار، رسولوں کی تعلیمات سے انحراف اور روز آخرت کی جواب دہی کے عدم تصور سے دنیا انسانوں کے لیے جہنم زار بن چکی ہے۔ کفر و شرک کی آندھیوں نے انسانوں کو اندھا کر دیا ہے۔ توہم پر ستی اور دیومالائی قصے دھرم بن گئے ہیں۔ اقتدار کے سرچشموں پر قبضہ کرنے والی قوتوں نے عام انسانوں پر اپنی چودھراہٹ قائم کردی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم بتوں اور کائنات کے مختلف عناصر کی پوجا کرتی تھی اور انہیں اپنا خدا مانتی تھی۔ آج کے دور حاضر میں جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر کتنے ہی حکمران خدا کا روپ دھار لے ہیں۔ ان کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ ان کا کہا ہوا ہی ملک کا قانون مانا جا تا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا نہیں کہتے ، لیکن ان کے طور طریقے بتاتے ہیں کہ وہ کسی انسان کو اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ عصری دنیا کے حکمراں اپنے مکر و فریب کے ذریعہ جہاں کہیں سے حق کی آواز گونجتی ہے، اس کو دبانے اور کچلنے کے سارے سامان کر تے ہیں۔ دنیاکا موجودہ منظر نامہ اس بات کا کھلا ثبوت پیش کرتا ہے کہ آج بھی حق کے علمبرداروں کے لیے ماحول کو بڑا خطرناک بنادیا جا رہا ہے۔ کفر اور شرک کے متوالے یہ نہیں چاہتے کہ صداقت اور دیانت کا پیغام عام ہو۔ ان کو یہ بات گوارا نہیں کہ سارے انسان پوری کائنات کے مالک کی عبادت کریں اور اسی کے احکام پر سرِ تسلیم خم کریں۔ اس صراطِ مستقیم سے روکنے کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے سارے حربے اس وقت ساری دنیا میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ہندوستان کے مسلمان بھی ایک ایسے وقت عید الاضحی منارہے ہیں جب کہ وطن عزیز میں بھی بادِ سموم کے جھونکے چل رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اس بات کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اس ملک کے مسلمان اپنے دین اور شریعت سے دستبردار ہو کر زندگی گزاریں۔ اس ملک کی فسطائی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر اہل ہنود کے طرز معاشرت کو قبول کرلیں۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ مشرکانہ عقائد کو نصاب میںشامل کرکے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کو مشرک اور ملحد بنانے کی سازش بڑے پیمانے پر رچائی جا رہی ہے۔ تعلیم کے نام پر ایسی چیزیں شاملِ نصاب کر دی گئی ہیں کہ اس سے مسلم بچوں کے ذہن شرک کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ امت مسلمہ ہر سال عید اور بقرعید مناتی رہے لیکن ان کے بچے اسلام سے دور ہو تے جائیں تو یہ عیدیں ہمارے لیے خوشی اور مسرت کے بجائے غم اور افسوس کا باعث بنیں گی۔ حالات کے اس تناظر میں مسلمانوں کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اسلام میں عید کا تصور بہت وسیع ہے۔ یہ محض ایک رسم کی ادائیگی نہیں ہے۔ عید الفطر کادن جہاں امت مسلمہ کو تقویٰ اور پرہیزگاری کا درس دیتا ہے۔ عید الاضحی کا یہ مبارک دن ہمیں ایثار و قربانی کاجذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ ہماری قربانی محض عید کے موقع پر جانوروں کو قربان کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ خدا کی راہ میں ہر چیز کو قربان کرنے کا عزم اور ارادہ ہمارے اندر پیدا ہو۔یہی دراصل روح قربانی ہے۔ قربانی کے مقصدکو اپنی نظروں سے اوجھل رکھ کر اس فرض کو ادا کیا جائے تو ایسا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول نہیں ہوگا اور نہ اس سے دنیا میں مسلمان سرخرو ہوسکیں گے۔ آج مسلم معاشرہ میں ریاکاری اور دکھاوا عام ہوچکا ہے۔ ہماری عبادتوں میں بھی یہ عنصر شامل ہو گیا ہے ۔ اس لیے ہر سال لاکھوں افراد حج کے فریضہ کو انجام دینے اور ہزاروں جانوروں کو قربانی کے نام پر قربان کرنے کے باوجود امت مسلمہ ذلت اور نکبت کے دلدل سے نکلنے میں ناکام ہو تی جا رہی ہے۔ مسلمانوں میں ایمان و یقین کی وہ کیفیت باقی نہیں رہی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تھی۔ آج امت وقت کے تقاضوں کی تکمیل میں کیوں پیچھے ہوتی جا رہی ہے، اس کے اسباب و وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے مسلمان کم نہیں ہیں۔ وسائل و ذرائع کے معاملے میں بھی مسلمان تہی دست نہیں ہیں۔ ان سب کے ہو تے ہوئے اس ملک میں مسلمان حکومتوں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں، اس کا بے لاگ انداز میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ آج اس ملک میں مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے ساتھ ان میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھاوا دینے کی جو کوشش ہو رہی ہے ،اس پر ہماری نظر کیوں نہیں جا تی۔ عید کے اس موقع پر بھی گاو¿ کشی پر پابندی کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ ملک کے بہت سارے علاقوں میں فرقہ پرستوں کے خوف سے مسلمان قربانی دینے کے موقف میں نہیں ہیں۔ یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ مسائل کے انبار کے باوجود امت فروعی مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ شریعتِ اسلامی کی بالادستی کے بجائے مسلک کو ترجیح دینا یہ کون سا اسلام ہے۔ دین کی بنیادوں کو چھوڑ کر خرافات کا لبادہ اس امت نے اس انداز میں اوڑھ لیا کہ صحیح دین کی پیروی ناممکن نہیں تو دشوار تو ہوگئی ہے۔بیجا رسوم و رواج نے مسلم معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عید کے اس موقع پر ملت اسلامیہ اپنا احتساب کرے اور اپنی ترجیحات کو طے کرے۔ عید قربان کا یہ دن اولاد ابراہیم ؑکو پیغام دے رہا ہے کہ نمرودی طاقتوں کے عزائم کو کیسے شکست و ریخت سے دوچار کریں تا کہ دنیا میں امن وسلامتی قائم وبرقرار رہ سکے۔ اسی لئے اقبال ؓ نے کہاتھا کہ :
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے !