محمد انیس الدین
مکیش امبیانی بھارت کے امیر ترین تاجر ہیں اور نیوز18انڈیا چینل کے مالک ہیں۔ ساری عوام اس بات سے واقف ہیکہ بھارت میں صحافت تجارت میں تبدیل ہوکر کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھ میں آگئی اور تمام کارپوریٹ گھرانوں پر زعفرانی رنگ غالب ہے اور بھارت کی صحافت آمروں کے ہاتھ کھلونا بن گئی اور ان ہی کے اشاروں پر عمل کرتے ہوئے ملک میں ہٹلر شاہی کو مضبوط کرنے رات دن مصروف ہے۔ ایسے ماحول میں عوام تک حقائق کی رسائی نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ اس گھٹن کے ماحول میں بعض گوشوں سے آزاد و حقیقی صحافت‘ کو زندہ رکھ کر عوام تک حقائق رسانی کا کام کیا جارہا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ملک کا میڈیا آغوش حکمرانی میں ہے۔ حکمران لب کشائی سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنے دل کی بات گودی میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچادیتے ہیں۔ جو پیامات اس بکاؤاور بے غیرت میڈیا سے عوام تک آرہے ہیں‘ عوام اس کو حکمرانوں کی زبان سمجھیں کیوں کہ حکمران بے زبان ہوکر گودی میڈیا کو اپنی قوت گویائی عطا کرچکے ہیں جس کی وجہ سے گودی میڈیا کی زبان دراز اور بے لگام ہوگئی۔ وہ نفرت کو فروغ دینے کے عادی ہوگئے اس زبان درازی کی حالیہ مثال نیوز18 ا انڈیا کے بے لگام اینکر امن چوپڑا ہیں جنہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف Final Solution (حتمی حل) جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے یہودیوں کی نسل کشی کا خفیہ منصوبہ بنایا ‘ اس جیسے منصوبہ کیلئے علی الاعلان عوام کو اکسا کر ملک میں بدامنی اور انتشار اور لاقانونیت کا ایک لامتناہی سلسلہ چلانے کیلئے دعوت دے رہاہے۔ امن چوپڑا جو دن رات اسی مہم میں اپنی توانائیاں حکومت اور امبانی کی سرپرستی میں جاری رکھا ہوا ہے مزید کہتا ہے کہ نازی کے حتمی حل سے اس کی مراد مسلمانوں کا مستقل علاج ہے۔ امن چوپڑا مستقل علاج کا مطلب یہ بھی واضح کررہا ہے کہ بھارت سے مسلمانوں کا قلع قمع کردیا جائے۔ کیا اس قسم کے رکیک اشارہ عدالت عظمیٰ کی نظروں سے اوجھل ہیں اور ملک کے انسانیت دست اور جماعتیں اپنی سماعت سے محروم ہیں۔ کیا عالم اسلام کے امت کے ٹھیکہ داروں کے کانوں تک یہ آواز نہیں جارہی ہے۔ ملک کی قدیم جماعت کانگریس اس بیان بازی پر اپنا موقف کیوں ظاہر نہیں کرتی جبکہ وہ 75برس سے سیکولرازم کا دم بھرتی رہی اور اپنے حق میں ووٹ حاصل کرتی رہی ۔ اگر کانگریس وقت پر صحیح فیصلہ اور موزوں قانون سازی کرتی تو ملک کو ایسی صورتحال سے بچایاجاسکتا تھا۔ ملک میں متوازی نیم فوجی تنظیم کی ضرورت پر اس وقت سوال اٹھائے گئے تو گاندھی جی نے یہ کہا تھا کہ یہ تنظیم ہندو اپنی حفاظت خوداختیاری اور دھرم کو بچانے کیلئے قائم کئے ہیں۔ اب یہی دھرم کے بچانے والے گاندھی کا قتل کرکے ہٹلر کی گود میں سوار ہوکر ملک میں دھرم دہشت کا ننگا ناچ کررہے ہیں بلکہ ملک کی وفادار مسلم اقلیت کا قلع قمع کرنے کی تشہیر کررہے ہیں۔ ایک اور مثال 1963ء کے یوم جمہوریہ کی ہے جس میں نہروجی نے ہٹلر کے جیالوں کو یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شریک ہونے کی اجازت دی اور ان سے سلامی بھی حاصل کی۔ کیا ان تاریخی سچائیوں سے انکار کی گنجائش باقی ہے ۔ ملک میں 20 کروڑ سے زائد محب وطن اور وفادار مسلم اقلیت ہے جس نے تقسیم کے بعد اپنے وطن سے محبت میں ہجرت سے گریز کیا۔ گاندھی جی نے میوات کے مقام پرجاکر گڑگڑا کر مسلمانوں کو ہجرت سے روکا۔ آج اس مقام پر ہٹلر کے چیلے مسلم اقلیت پر ظلم اور تشدد کرتے ہوئے ان کے محنت اور مشقت سے بنائے ہوئے آشیانوں کو بلڈوزر سے مسمار کرکے ہٹلر کی روح کو تسکین کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ امن چوپڑا مسلمانوں کا مستقل علاج چاہتے ہیں لیکن وہ اس بات پر غور کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر 20کروڑ مسلم اقلیت کا قلع قمع کرنے کی بات پر سارے عالم میں جگ ہنسائی ہورہی ہے اور ساری دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ سنگھ پریوار کے دماغوں میں کیا کچھ خلل آگیا ہے‘ اور دائمی علاج تو ان نفرت کے بیماروں کا ہونا ہے نا کہ ملک کی مسلم اقلیت کا۔ حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں سنگھ پریوار کی اس جنونی کیفیت سے فکر مند ہیں اور بعض تو امن چوپڑا کی دیوانگی پر اس کی مہم کے خلاف دستخطی مہم کا آغاز کرچکے ہیں لیکن ملک عزیز کے انسانیت نواز افراد اور جماعتوں کی جانب سے نہ تو کوئی سخت مذمتی بیان آیا ہے اور نہ ہی کسی نے امن چوپڑا کی سرزنش کی اور نہ ہی ملک کی عدالت عظمیٰ نے ان جاہلانہ بیانات کا از خود نوٹ لیتے ہوئے کسی قانونی کارروائی کا اعلان کیا۔ نازیوں کے حتمی حل کے خفیہ منصوبوں کی تفصیل تاریخ کے آئینہ میں : ہٹلر ایک مطلق العنان ‘ ظالم‘ آمر‘ جابر حکمران تھا۔ اس کی شخصیت میں نسل پرستی ایک نمایاں عنصر تھا۔ اس نے نسل پرستی کو اپنی فکر کا محور بنالیاتھا۔ وہ اس تصور کا حامل تھا کہ آریائی نسل سب سے اعلیٰ اور بہترین ہے اس لئے اس نسل کو سارے عالم پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ اسی نسلی سلسلہ مراتب میں اس نے آرین کو سب سے ا علیٰ اوریہودیوں کو سب سے ادنیٰ قراردیا۔ اس کا یہ بھی فلسفہ تھا کہ تمام آریاؤں کو آریاؤں سے علم و فنون سیکھ کر بہتر زندگی گزارنی چاہیے۔ ہٹلر نے یہودیوں پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہودی آرین اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہٹلر کی جانب سے یہ بھی الزام یہودیوں پر تھا کہ وہ آریائی نسل کو آلودہ کررہے ہیں اور دوسری جانب وہ نسلی مساوات کا درس دے کر ادنیٰ نسلوں کو بلند ہونے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہٹلر اس قدر متشدد تھا کہ جو بچے عیب کے حامل پیدا ہوتے تھے ان کو نسل کی خرابی کے خوف سے ہلاک کردیتا تھا۔ ہٹلر1980 ء تک دنیا پر قابض ہوکر ایک ہزار سال تک حکمرانی کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن 12سال میں ہی اپنے آپ کو ہلاک کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کو یہودیوں سے اس قدر نفرت تھی کہ وہ وہ ان کے ملک سے صفائے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا اور اس کا حتمی حل کا خفیہ منصوبہ بھی اسی سلسلہ کا ایک آخری حصہ ہے۔ ہٹلر تو سارے عالم میں ظلم ‘ دہشت اور بربریت اور نفرت کی ایک مثال چھوڑ کر چلاگیا لیکن اس کے اوصاف اور نفرت کے حربے عدم تشدد کے بھارت میں ایک جماعت نے بہت ہی فخر کے ساتھ اپناکر سارے بھارت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے میں مصروف ہے بلکہ اپنے گودی میڈیا کے بل بوتے پر ‘ ہٹلر کے اصولوں کو دل و جان سے پیروی کرتے ہوئے بھارت کی جمہوریت اور دستور پر یلغار کررہے ہیں۔ موجودہ دور سوشیل میڈیا کا ہے اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں ایک نیا میڈیا وجود میں آیا جس کا نام گودی میڈیا ہے اس کی سرپرستی ملک کے کارپوریٹ گھرانے کررہے ہیں۔ یہ گھرانے حکومت کے اشاروں پر اپنا ٹیپ چلاتے ہیں۔ اس میڈیا میں صحافت نام کی کوئی چیز نہیں۔ حکومت کی فرمائش پر ان کی پسند کے پروگرام اور گیت اور خصوصیت کے ساتھ فروغ نفرت کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اب رہا سوشیل میڈیا‘ اس کو تو بے لگام میڈیا کا نام بھی دیاجاسکتا ہے کیوں کہ اس میں تبصروں‘ تجزیوں اور سچ اور غلط ہر قسم کی خبروں کا بازار گرم رہتاہے۔ عوام کو سچ کی تلاش میں خوردبین کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک کان میں ایک خبر جاری رہتی ہے اور اسی دوران دوسرے کان سے کوئی اور خبر آجاتی ہے۔ سماج میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جہاں انسان صرف سنتا ہے ‘ دیکھتا ہے اور ایک ذہن تیار ہوجاتا ہے اور اس کے رجحانات تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر عوام کو کسی بھی خبر کی تحقیق یا تصدیق کا موقع میسرنہیں ہوتا۔ یہ کیفیت صرف بھیڑ اور بکریوں والی ہے اور سب اسی چال کو اپنائے ہوئے ہیں۔ سوسیل میڈیا کے اس ماحول میں سچ وہی ہے جسے سوشیل میڈیا سچ کہہ دے اور جھوٹ وہی ہے جسے کوئی ٹرینڈ ‘ رجحان جھوٹ کہہ دے اور صحیح وہی ہے جسے زیادہ لوگ صحیح کہہ دیں اور غلط وہی ہے جسے زیادہ لوگ غلط کہہ دیں۔ اس کیفیت میں سماج میں ایک ہیجان اور سراسیمگی کی کیفیت تو پیدا ہوسکتی ہے لیکن صبر و تحمل اور تحقیق اور تصدیق کا فقدان صاف دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں عوام بات کی تحقیق تک جاتے تھے اور حقائق سے آگاہی کے بعد اپنی کوئی رائے قائم کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں جب بھی کوئی بات یا خبر سامنے آتی ہے تو اس پر عوام میں بحث‘ مباحث کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور ٹرینڈ تشکیل پاتے ہیں لیکن بعد میں جب حقائق کا ظہور ہوتا ہے اس وقت تک جھوٹ اپنے کرتب دکھا کر ساری قوم کو بربادی کے دہانے تک پہنچادیتا ہے۔ گودی میڈیا نے ملک میں ایک ہیجان اور افراتفری و نفرت کا ماحول پیدا کیا۔ ملک کے موجودہ لاقانونیت کے ماحول میں ہم سب کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘ ہم کو جذباتیت کی نہیں بلکہ قوم کی اخلاقی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ ہم کو قوم میں افراتفری اور ہیجان کے بجائے قوم کے اطمینان اور سکون کی طرف راغب کرنا ہے۔ قانون بزور قوت بھی اپنا وجود منواسکتا ہے لیکن قانون اور ہتھیار غیر ذمہ داروں کے حوالے ہوں اور قانون کے رکھوالے خود قانون شکن ہوجائیں تو اس ملک میں بربادی لازمی ہوجاتی ہے۔ معصوم عوام جن کو آر ایس ایس اور بی جے پی اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے آلۂ کار بنارہے ہیں ان افراد کو قانون شکنی کے بجائے ان میں قانون پہ عمل داری کا جذبہ اور شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ہٹلر کے نظریات اور اس کی جابرانہ اور آمرانہ پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک کی دستور اور جمہوریت مخالف طاقتیں آنے والے انتخابات جیتنے کیلئے ملک کی مسلم اقلیت ‘عیسائی اور کمزور طبقات کو نشانہ بنانے کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہودیوں سے انتہائی نفرت دوسری جنگ عظیم کا سبب بنی اور مسلمانوں سے نفرت تیسری عالمی بربادی کا شاخسانہ ہوسکتی ہے اس لئے ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے۔ ۰۰۰٭٭٭۰۰۰