مذہب

میرا خاندانی نام بھولا ناتھ ہے، میں بت پرستی سے بیزار تھا…!

بچپن ہی میں میری شادی ہو گئی تھی، لیکن چونکہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی، اس لیے باضابطہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ میرے سسرال والوں نے قبولِ اسلام پر نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ میں نے ان پر یہ بات واضح کر دی کہ اگر لڑکی اسلام قبول کر لیتی ہے، تبھی میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا، ورنہ نہیں۔

عابد حامدی

متعلقہ خبریں
عورت کا حق میراث اور اسلام
مہر کی کم سے کم مقدار
زیمرس ادبی فورم کے زیر اہتمام ”بیٹی اور والدین کے رشتہ کی اہمیت“ کے موضوع پر سمینار
اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا

میرا خاندانی نام بھولا ناتھ ہے۔ میرے والد کا نام کیدار ناتھ تھا۔ میں 1950ء میں پلہری گاؤں ضلع باندہ (یو پی) میں پیدا ہوا اور گریجویشن ببیرو ضلع باندہ سے کی۔ دوران تعلیم جن دنوں میں ہاسٹل میں رہتا تھا، میرا ایک کمرے کا ساتھی تبارک حسین ایک مسلمان طالب علم تھا۔ تبارک حسین سے ملنے ہردولی گاؤں کے جماعت اسلامی کے ایک رکن اشرف حسین صاحب آتے جاتے تھے۔ مجھے بھی انہی کے ذریعے اسلامی عقائد خصوصاً توحید، رسالت و آخرت کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی۔ شرک کو تو میں پہلے ہی سے ناپسند کرتا تھا اور بت پرستی سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس لیے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات سے کافی متاثر ہوا۔

اسی دوران میں علاقے میں ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا، جس سے مجھے اسلام کی طرف پیش قدمی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ علاقے کا بڑھئی برادری کا ایک ہندو نوجوان ممبئی سے ایک مسلمان لڑکی کو اپنے گاؤں لے آیا۔ وہ گاؤں اصلاً ٹھاکروں کا تھا۔ ہر قسم کے دباؤ کے باوجود گاؤں والے لڑکی کو واپس کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ کافی تناؤ والے ماحول میں اشرف حسین صاحب نے کسی طرح لڑکی اور پھر لڑکے سے ربط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے لڑکے کو سمجھایا کہ تمہارے گاؤں کے ٹھاکر تمہیں جان سے مارنے کے بعد تمہاری بیوی کو ہتھیا لیں گے، اس لیے دنیا و آخرت میں مسئلے کا حل یہ ہے کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہ بات اس نوجوان کی سمجھ میں آ گئی۔ بہرحال وہ اس کو اس گاؤں سے نکال کر فتح پور، یو پی لے گئے۔ وہاں لڑکے نے اسلام قبول کیا اور پھر اسے ککرالہ ضلع بدایوں بھیج دیا، جہاں کی اسلامی درس گاہ میں دونوں میاں بیوی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ بعد میں لڑکے نے ممبئی میں اپنی سسرال سے بھی تعلقات بہتر کر لیے اور پھر وہ دونوں ممبئی منتقل ہو گئے۔

فرقہ وارانہ، جذباتی اور بظاہر لاینحل حساس مسئلے کو جس خوب صورتی سے اشرف حسین صاحب نے حل کیا، اس سے میں کافی متاثر ہوا۔ اسی دوران میں نے اسلام کے بارے میں مطالعہ اور تبادلۂ خیال جاری رکھا۔ گریجویشن کا امتحان دینے کے بعد اشرف صاحب نے مجھے لکھنؤ لے جانے کا پروگرام بنایا، چنانچہ 1971ء میں تبارک حسین اور اسلام سے متاثر چند دوسرے ہندو ساتھیوں کے ساتھ میں لکھنؤ جماعت اسلامی کے دفتر پہنچا۔ وہاں امیر حلقہ جناب سید حامد حسین مرحوم، عبدالغفار ندویؒ اور حبیب اللہ ندویؒ سے میری ملاقات ہوئی۔ جماعت کے دفتر میں ہونے والے درسِ قرآن میں ہم لوگ شریک ہوتے رہے۔ میں نے نماز بھی وہیں سیکھی۔ اشرف صاحب کی معیت میں ہم نے مولانا ابو الحسن علی ندویؒ سے ملاقات کی۔ انہوں نے ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور پھر کچھ کتابیں مطالعے کے لیے دیں۔ مئی 1971ء میں اترپردیش حلقہ لکھنؤ کے دفتر میں مولوی حبیب اللہ ندویؒ کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور میرا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔

لکھنؤ چند روز رہنے کے بعد میں وطن آگیا۔ گھر پر سب سے پہلے مسئلہ یہ پیش آیا کہ نماز کیسے ادا کی جائے؟ ایک دو وقت کی نمازیں تو گاؤں سے باہر تالاب کے کنارے پڑھیں، لیکن پھر ذہن میں آیا کہ ہندی میں نماز کی کتاب والدہ کو سنائی جائے۔ کتاب سنانے کے ساتھ میں نے والدہ کا ذہن اس طرح بنایا کہ ایشور (خدا) کی عبادت اس طرح کی جائے تو کیا حرج ہے؟ والدہ نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح گھر پر میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ ایک دن مجھے نماز پڑھتے والد صاحب نے دیکھ لیا۔ چونکہ ان کا اکلوتا چہیتا بیٹا تھا۔ اس لیے گھر کا ماحول مکدر نہ ہوا۔

اسی دوران اشرف صاحب نے مجھے جماعت اسلامی بریلی کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ وہیں میری ملاقات سید حامد علی علیہ الرحمہ سے ہوئی۔ انہوں نے اسی دوران مجھے سید حامد علی کے ہمراہ تعلیم و تربیت کے لیے ان کے وطن میران پور کٹرہ، ضلع شاہجہان پور (یو پی) بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ سید حامد علی کے زیر تربیت رہنے کے علاوہ میں وہاں کی درس گاہ اسلامی میں ہندی، حساب اور انگریزی پڑھانے لگا۔ سید حامد علی کی ہدایت پر میں نے اردو سیکھی۔ الحمدللہ 18دنوں کے اندر اردو پڑھنے کی اتنی استعداد ہو گئی کہ میں نے ماہ نامہ’’نور‘‘ اور ’’الحسنات‘‘ پڑھنا شروع کر دیا۔

کچھ عرصے کے بعد میں وطن گیا، اور والدین کو اپنے قبول اسلام کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ والدین نے مجھے برا بھلا تو نہ کہا، البتہ انہیں میرے قبولیت اسلام سے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ تدریس میں گریجویشن کے بعد مجھے ٹیچر کی سرکاری نوکری ملنے کے وسیع امکانات تھے، لیکن میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں سرکاری نوکری نہیں کروں گا۔ والدین نے کافی کوشش کی کہ میں اپنے دونوں فیصلے بدل دوں۔ لیکن میں نے سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ گھر سے جب رخصت ہونے لگا تو والدہ زار و قطار رو رہی تھیں لیکن الحمدللہ، اللہ نے مجھے استقامت دی، اور میں وطن سے کٹرہ واپس آ گیا۔ کچھ روز بعد والدہ کا خط آیا: ’’ٹیچر کی حیثیت سے تمہارا انتخاب ہو چکا ہے اور تقرر نامہ بھی موصول ہو چکا ہے‘‘۔ میں نے جواب میں پھر اس فیصلے کو دہرایا کہ مجھے سرکاری ملازمت نہیں کرنی۔

بچپن ہی میں میری شادی ہو گئی تھی، لیکن چونکہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی، اس لیے باضابطہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ میرے سسرال والوں نے قبولِ اسلام پر نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ میں نے ان پر یہ بات واضح کر دی کہ اگر لڑکی اسلام قبول کر لیتی ہے، تبھی میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا، ورنہ نہیں۔ سسرال اور بیوی اس معاملے میں آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح میری شادی کا معاملہ ختم ہو گیا۔

میں مولانا سید حامد علی کے گھر رہتا رہا۔ مولانا صاحب، ان کی اہلیہ اوران کے بچے سب مجھے اپنے گھر ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ الحمدللہ، گھر میں مجھے اپنائیت کا ماحول ملا اور غیریت کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ میں نے سید حامد علی سے کہا کہ میں آپ کو ابو اور امی کو امی کہتا ہوں، اس لیے نام بھی اپنے بچوں (خالد حامدی، راشد حامدی) کی طرح رکھ دیجیے، اس طرح اس وقت سے عبدالرحمن سے بدل کر میرا نام عابد حامدی قرار پایا۔

1972ء میں میں نے مولانا سید حامد علی سے اصرار کر کے جامعۃ الفلاح، بلریا گنج ضلع اعظم گڑھ (یو پی) جا کر پڑھنے کے لیے کہا، جہاں انہوں نے اپنے بڑے صاحب زادے خالد حامدی اور اپنے زیر تربیت دوسرے نو مسلم بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے بھیجا ہوا تھا۔ چنانچہ میں جامعۃ الفلاح پہنچا اور تقریباً پانچ سال وہاں رہا۔ صرف عالمیت کا امتحان بعض وجوہ سے نہیں دے پایا۔ 1978ء میں وہاں سے دہلی کے قریب غازی آباد (یو پی) منتقل ہو گیا۔ سید حامد علی بھی دہلی منتقل ہو چکے تھے۔ آٹھ نو مہینے مولوی نسیم غازی صاحب کے یہاں رہا، جو جامعۃ الفلاح سے عالمیت کر کے اپنے وطن غازی آباد (یو پی) آ چکے تھے۔ پھر مراد نگر ضلع غازی آباد میں درس گاہ کھولنے کا پروگرام بنایا، تو وہاں میں نے تدریس کا کام شروع کیا۔ اسی دوران پانجی ضلع باغپت (یو پی) میں درس گاہ شروع ہوئی تو وہاں منتقل ہو کر تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔

میری شادی کی بات چیت متعدد مقامات پر چلی، لیکن مسلمانوں میں ذات پات کے رجحان کی موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی۔ بٹراڑہ ضلع مظفر نگر (یوپی) سے ایک دو شیزہ ریکھا اسلام قبول کر کے فاطمہ ہو چکی تھیں۔ یہ دہلی میں مولانا سید حامد علی کے یہاں بھی کچھ دن رہیں۔ انہی سے میرا نکاح مارچ 1982ء میں ہوا۔ الحمدللہ، میرے ان سے دو لڑکے اور لڑکی ہے۔ یہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بعض مصالح کے تحت ککرالہ ضلع بدایوں (یو پی) منتقل ہو گیا۔ پھر مراد نگر پھر غازی آباد آ گیا، جہاں میں ایک عرصے سے بنارس گلاسز پرائیویٹ لمیٹڈ میں ملازمت کر رہا ہوں۔ والدین سے میرا گہرا ربط رہا اور ان کے پاس آتا جاتا رہا۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل والد صاحب میرے پاس آ گئے تھے اور انہوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام محمد حامد رکھا گیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد والدہ بھی میرے پاس آ گئیں۔ الحمدللہ انتقال سے قبل انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام رضیہ بیگم رکھا گیا تھا۔

اسلام میں وحدانیت کے بعد میرے لیے سب سے متاثر کن نماز میں مساوات اور کھانے پینے میں مسلمانوں کا اجتماعی طور طریقہ ہے، جو مجھے بے حد پسند آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نمازیں سب ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور کھانا بھی سب ایک ساتھ کھاتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ عام مسلمانوں میں اسلام سے کافی دوری پائی جاتی ہے۔ ان کا رویہ، ان کا سلوک اور ان کے معاملات میں غیر اسلامی عناصر کی اچھی خاصی آمیزش ہے، جس کی وجہ سے ایک غیر مسلم کے اسلام کی طرف بڑھتے قدم رک جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات نو مسلم کے مرتد ہو جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے میری مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں تاکہ اسلام کا پیغام تیزی سے عام ہو اور اسلام قبول کرنے والے اسلام کو بے دھڑک قبول کریں۔
٭٭٭