ڈالی گڑھیا
ملک میں 5G کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سے جہاں انٹرنیٹ کی رفتار کو پنکھ ملے گا، وہیں کنیکٹیویٹی بہتر ہو جائے گی۔اس کے آنے کے بعدکچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنا چٹکی والا کام ہو گا۔ اسے ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں ایک انقلاب قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ملک ایک نئے دور میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہیں اس ملک میں بہت سے ایسے دور دراز علاقے ہیں جہاں نیٹ ورک کی سہولتیں نہیں کے برابر ہے۔ اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقے کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک کا پوتھنگ گاؤں اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں نیٹ ورک کے حالات مذکورہ بالا تمام دعووں سے بہت دور ہیں۔ اس گاؤں کے لوگ اب بھی اپنے علاقے میں 5G کے بارے میں بات کرنے سے بہت دور،ایک معمولی نیٹ ورک کے لیے ترس رہے ہیں۔ ضلع ہیڈکوارٹر باگیشور سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس گاؤں کی آبادی تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔ بنیادی سہولیات کی کمی سے نبردآزما اس گاؤں کے لوگوں کے لیے نیٹ ورک کی کمی سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں لوگ نہ تو اپنوں سے بات کر پاتے ہیں اور نہ ہی ایمرجنسی کی صورت میں مدد حاصل کر پاتے ہیں۔ خواتین کو حمل کے دوران موبائل نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، جب انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال جانے کے لیے ڈاکٹر سے بات کرنی پڑتی ہے یا ایمبولینس کو فون کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اس کے خاندان کے افراد کو گاؤں سے دور جا کر ٹاور کی حدود میں بات کرنی پڑتی ہے۔ حکومت نے حاملہ خواتین کو علاج کے لیے ایک کال پر ایمبولینس کی سہولت فراہم کی ہے لیکن جب یہاں موبائل نیٹ ورک ہی نہیں ہے تو وہ اس سہولت سے کیسے فائدہ اٹھا سکیں گی؟ کورونا کی وبا کے دوران جب پورا تعلیمی نظام آن لائن میڈیم سے چلایا جا رہا تھا تو پوتھنگ گاؤں کے بچے نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے شعلے سے محروم تھے۔ نویں جماعت میں پڑھنے والی طالبہ نیہا کا کہنا ہے کہ آج بھی اسکول سے متعلق ضروری معلومات جاننے کے لیے مجھے گاؤں سے دو تین کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے تاکہ فون میں نیٹ ورک آجائے اور مجھے اسکول سے متعلق ضروری معلومات فراہم ہو جائے۔۔ وہ کہتی ہیں کہ نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے ہماری پڑھائی کے بہت سے مضامین ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔ جن دیہاتوں میں نیٹ ورک ہے وہاں کے بچے انٹرنیٹ کے ذریعے موضوع سے متعلق اپ ڈیٹ حاصل کرلیتے ہیں اور ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ گاؤں کی ایک اور طالبہ لیلا کو بھی اسی طرح کی پریشانی کا سامنا ہے۔دسویں جماعت کی اس طالبہ کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے وہ بورڈ کے امتحانات سے متعلق تازہ ترین معلومات حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔ ایسے میں جہاں اسے اسکول میں ڈانٹ سننی پڑتی ہے وہیں نیٹ ورک کے لیے گاؤں سے باہر جانے پر گھر والوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا اس کی پڑھائی پر منفی اثر پڑتا ہے۔گاؤں میں نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے جہاں اسکولی بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں گاؤں والوں کو بھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گاؤں کی پردھان پشپا دیوی بھی نیٹ ورک کی پریشانی سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے کام سے متعلق فائل کو واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعے حکام کو بھیجنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔ اس کے لیے میں پہاڑ پر جاتی ہوں اور جب وہاں نیٹ ورک آتا ہے تو میں اپنا کام کرپاتی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی بار عہدیداروں اور مقامی ایم ایل اے کے ساتھ میٹنگ میں اس مسئلہ کو اٹھا چکی ہیں لیکن آج تک کسی نے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ دوسری جانب سماجی کارکن نیلم گرینڈی کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک کی کمی پوتھنگ گاؤں کی ترقی میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں میں کوئی بیمار ہو جائے تو اس ہنگامی حالت میں بھی وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے۔ ہمیں نہ تو وقت پر ڈاکٹر سے مشورہ ملتا ہے اور نہ ہی ہم ایمبولینس بلانے کے قابل ہوتے ہیں۔ گاؤں کے نوجوان وقت پر نوکریوں کے لیے اپلائی نہیں کر پاتے ہیں اور نہ ہی انہیں مسابقتی امتحانات سے متعلق معلومات مل پاتی ہے۔ نہ صرف پوتھنگ گاؤں بلکہ اس کے آس پاس کے گاؤں جیسے اچھٹ، ٹلہ گھردی، منٹولی اور جلجیلا بھی اس نیٹ ورک کے مسئلے سے متاثر ہیں۔ جہاں گاؤں والوں کو دوہرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف جہاں گاؤں میں کئی طرح کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف نیٹ ورک کی کمی اس پریشانی کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔ 5G کے دور میں پوتھنگ گاؤں کے لوگوں کے پاس 2G جیسی سہولت بھی نہیں ہے۔ دراصل، حکومت گاؤں کی ترقی کے لیے بہت سی اسکیمیں چلاتی ہے، لیکن کئی باروہ زمین پر نظر نہیں آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی نظر میں ترقی اور نیٹ ورک دونوں اس گاؤں کی پہنچ سے باہر ہے۔