روس ۔ یوکرین جنگ‘ امریکی ورلڈ آرڈر خطرے میں پڑگیا
چین کے علاوہ آج باقی دنیا کا تمام مواصلاتی نظام پانچ امریکی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔ آج یوکرین کی جنگ واقعی کون لڑرہا ہے؟ ایلون مسک کا اسٹار لنک سیٹلائٹ یوکرین جنگ میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ امریکیوں کی تکنیکی ترقی ہے جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے پرائیوٹ سیکٹر کے ذریعہ جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ اتنی ہی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی ہیں۔ اصل ترتیب جو اب ابھررہی ہے وہ یوریشین ورلڈ آرڈر ہے اگر آپ اس میں روس اور چین کے زمینی علاقوں کو شامل کریں جو اس صدی کے وقت سب سے اہم شراکت دار بن رہے ہیں‘ تو یہ زمینی علاقہ پولینڈ کی سرحد سے ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے ‘ یہ نیا ورلڈ آرڈر ہے اس ورلڈ آرڈر میں آپ مشرق وسطیٰ کے اتحادی ممالک کے ساتھ ایران اور شام کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔
منصور عادل
روس یوکرین جنگ کے دوران متعدد بار عالمی اسٹڈی مراکز اپنی رپورٹوں میں یہ اشارے دے چکے ہیں کہ روس موجودہ عالمی نظام کو ہدف بنارہاہے۔ امریکی اداروں نے بھی متعد مرتبہ اشاروں میں ظاہر کیا ہے کہ روس ایک نئے عالمی نظام کی جانب بڑھنے کے لئے سرگرم ہے‘ جس نظام میں امریکا کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔ عالمی معیشت پر امریکی کنٹرول‘ دنیا کے مختلف ممالک کی کرنسی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور سیاسی حوالے سے دنیا کے تنازعات کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق حل کرنے جیسے امور روس کا ہدف ہیں۔ میڈیا میں متعدد مرتبہ اس نوعیت کی تفصیلی رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں تاہم ابھی برطانوی نشریاتی ا دارے نے بھی اپنی رپورٹ میں انہیں پیش گوئیوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہوگیا ہے‘ ایسا لگتا ہیکہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔
مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے ‘ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں‘ ترقی یافتہ ممالک(امریکا اور یوروپی ممالک) انڈیا‘ چین‘ جنوری افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لئے ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یوروپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قراردے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں ‘ یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔
لیکن ہندوستان اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے دردسر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یوروپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے مالرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور چین کا روسی صدر پیوٹن کو جنگ کے لئے جوابدہ ٹھہرانے سے انکار موجودہ قوانین پر مبنی عالمی نظام کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انتہائی سوچ سمجھ کر غیر جانبداری کا راستہ چنا ہے‘ جو بین الاقوامی قوانین اور استحکام کے بجائے ان کے اپ نے مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور غیر مغربی ممالک کا یہ رویہ بالآخر روس کے لیے فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔
شام میں فرانس کے سابق سفیر اور پیرس میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ مونٹیگن کے خصوصی مشیر مشیل ڈوکلو کا کہنا ہے کہ ’ معاشی محاذ پر روس کو انڈیا اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے چلائی جارہی سیاست سے فائدہ ہورہا ہے‘ امریکی اسکالر جان ایکن بیری کا ودعویٰ ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت موجودہ عالمی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے‘ ایکن بیری کہتے ہیں کہ ’ موجودہ ورلڈ آرڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں امریکہ نے بنایا تھا۔ پچھلے 70 سال سے یہ ورلڈ آرڈر مغرب کے مرکز میں لبرل انٹرنیشنل آرڈر کی رہنمائی کررہا ہے‘ یہ قواعد و ضوابط اور کثیر الجہتی تعاون کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
مشرق وسطیٰ ‘ مشرقی ایشیاء اور یہاں تک کہ مغربی یوروپ میں دیرینہ علاقائی نظام یا تو تبدیلی سے گزررہے ہیں‘ یا وہ نوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں‘ یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے موجودہ عالمی نظام کو چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں چیلنج کررہی تھیں اور انڈیا جیسے ممالک یہ سوال اٹھارہے تھے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں میں نمائندگی کیوں نہیں دی جانی چاہیے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی نظام کا یہ بحران ابھرتے ہوئے ممالک کے لئے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ خاص طور پر چین‘ ہندوستان اور دیگر غیر مغربی ترقی پذیر ممالک عالمی نظام کو نئی شکل دینے کے قابل ہوجائیں گے ان مالک میں نئے ورلڈر آرڈر کا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہوتی جارہی ہیں۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ دنیا تیزی سے ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا ابھرتے ہوئے ممالک ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قوانین اور اداروں کی اصطلاح اور تنظیم نو کی کوشش کررہے ہیں؟ یا وہ موجودہ ورلڈ آرڈر کی طاقت میں حصہ لینے کی کوشش کررہے ہیں؟ اس بابت بعض عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں تو کوئی ایک ورلڈ آرڈر کامل ورلڈ آرڈر نہیں ہے‘ ہر ورلڈ آرڈر ایک جزوی ورلڈ آرڈر ہے۔ دنیا کے موجودہ اصول و ضوابط کا فیصلہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے کیا تھا ‘ مغرب بھی اپنے اندر کبھی متحد نہیں رہا‘ آخر روس بھی مغرب کا حصہ ہے‘ پورا یوروپ موجودہ ورلڈ آرڈر میں کبھی شامل نہیں تھا۔ یہ ایک جزوی ورلڈ آرڈر تھا اور جوں کا توں رہے گا۔ آپ اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں(روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے جسے میں تیسری عالمی جنگ کا نام دینا چاہوں گا۔ سردجنگ دراصل تیسری عالمی جنگ تھی ‘اسے تیسری جنگ کا نام دیای گیا کیوں کہ یوروپ نے اس میں کبھی جنگ نہیں لڑی لیکن یہ جنگ ویتنام میں بہت لڑی گئی۔
ماہرین کے مطابق افریقہ اور لاطینی امریکا بھی میدان جنگ بن گئے اور اب جنگ یورپ میں واپسی آگئی ہے‘ ہانگ کانگ اور کوالا لمپور میں مقیم ایک آزاد ایشیائی تھنک ٹینک گلوبل انسٹی ٹیوٹ فار ٹوماروکے بانی اور سی ای او چندرن نائر کہتے ہیں’ یہ ایک اہم موڑ نہیں ہے‘ یہ ایک غیر ضروری جنگ ہے‘ لیکن جب آپ اس کا موازنہ عراق یا افغانستان پر مسلط کی گئی جنگوں سے کریں تو یہ بہت چھوٹی جنگ ہے‘ اس بات کو آپ ان جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد سے سمجھ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایسے ہیں جن کا ماننا ہے کہ موجودہ نظام نہ تو بین الاقوامی ہے اور نہ ہی منظم ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے لئے بنایا گیا امریکا پر مبنی نظام تھا۔
چین کے علاوہ آج باقی دنیا کا تمام مواصلاتی نظام پانچ امریکی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔ آج یوکرین کی جنگ واقعی کون لڑرہا ہے؟ ایلون مسک کا اسٹار لنک سیٹلائٹ یوکرین جنگ میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ امریکیوں کی تکنیکی ترقی ہے جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے پرائیوٹ سیکٹر کے ذریعہ جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ اتنی ہی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی ہیں۔ اصل ترتیب جو اب ابھررہی ہے وہ یوریشین ورلڈ آرڈر ہے اگر آپ اس میں روس اور چین کے زمینی علاقوں کو شامل کریں جو اس صدی کے وقت سب سے اہم شراکت دار بن رہے ہیں‘ تو یہ زمینی علاقہ پولینڈ کی سرحد سے ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے ‘ یہ نیا ورلڈ آرڈر ہے اس ورلڈ آرڈر میں آپ مشرق وسطیٰ کے اتحادی ممالک کے ساتھ ایران اور شام کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰