طنز و مزاحمضامین

قصہ دہی بڑوں کا…

حمید عادل

’’ بڑے‘‘ کے لفظی معنی بزرگ، برتر، لمبا،دراز، دولتمند، زیادہ، بہت، بھاری، فیاض کے علاوہ ماش یا چنے وغیرہ کی پیٹھی کی تلی ہوئی ٹکیا کے ہیں جسے دہی میں ڈال کر کھایا جاتا ہے ۔ ’’بڑے‘‘ سے کئی بڑی بڑی مثالیں اور محاورے بھی جڑے ہوئے ہیں ۔جیسے ’بڑوں کی بڑی بات‘ بڑے چور کا حصہ نہیں ‘ بڑے گھر جانا ( جیل جانا یا مرجانا) بڑے برتن کا کھرچن بھی بہت ہے یا یہ کہ ’بڑے کڑاہی میں تلے جاتے ہیں‘ یعنی بڑے آدمیوں کو زیادہ مصیبت جھیلنا پڑتاہے ۔ویسے دہی بڑے بھی کم مصیبت نہیں جھیلتے‘ پہلے تو انہیں کڑاہی میں اطمینان کے ساتھ دھیمی آگ پر تلا جاتا ہے اور پھر ان کی تیاری میں وہ عمل سب سے انوکھا اور دلچسپ ہوتاہے جس میں گرما گرما بڑوں کو بڑی بے رحمی سے پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے ’ بڑے‘ پانی پی پی کر مزید بڑے ہوجاتے ہیں…چمن بیگ کہتے ہیں کہ ان کے بڑے ہونے کے اسی عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں ’بڑے‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
’’دہی بڑے‘ ‘شہر حیدرآباد کی ایسی ڈش ہے جو برساتی مینڈک کی طرح عین رمضان کے وقت نمودار ہوتی ہے ۔ بچپن میں ہمارے استاد محترم ماہ رمضان کی آمد سے قبل کلاس روم میں داخل ہوتے ہی یہ سوال ضرور کرتے ’’ بچو! رمضان میں کیا بڑے؟‘‘ سارے بچے ایک آواز ہوکر چلا اٹھتے تھے ’’ دہی بڑے!‘‘ہم بچوں کا ہر بار یہ تسلی بخش جواب سن کر ان کے چہرے پر عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ جاتی اور انہیں فوراًایک ایسی زور دار ڈکار آتی کہ لگتا جیسے انہوں نے بچوں کے منہ سے ’دہی بڑے‘ کی آواز نہیں سنی بلکہ وہ دہی بڑوں کو کٹورے سمیت چٹ کر گئے ۔ دراصل ہم بچوں سے انہوں نے ہی یہ کہا تھا کہ وہ جب بھی رمضان میں کون بڑے ؟کہیں ہم بے ساختہ ’دہی بڑے‘ کہہ اٹھیں ! شاید اس کے پیچھے ان کی یہ حکمت عملی پوشیدہ ہوکہ جب بھی دہی بڑوں کی انہیں یاد ستائے وہ ہم بچوں کے جواب کو سن کر اپنا پیٹ بھرلیں…
’ دہی بڑے‘ کیا چھوٹے ،کیا بڑے، کیا بچے کیا بوڑھے سبھی ٹوٹ کر کھاتے ہیں بلکہ بڑے بڑے لوگ اپنی کاروں سے اتر کر سڑک کنارے کھڑے کھڑے دہی بڑے چٹ کر جاتے ہیں ۔ خاص کر مساجد کے اطراف و اکناف کی ہوٹلوں میں ان کی بڑی دھوم ہوتی ہے لیکن دہی بڑے اسی وقت مزہ دیتے ہیں جب دہی اور بڑے دونوں معیاری ہوں لیکن یہ حسن اتفاق شاذو نادر ہی نظر آتا ہے ۔کچھ دہی بڑے جن کی گرماگرم تیل میں تلے جانے کے باوجود اکڑ نہیں جاتی یا جو پانی میں غوطہ کھاکر بھی پانی نہیں پیتے، اندر سے سخت رہ جاتے ہیں ۔دہی بڑوں میں نمک اورمرچ کا مناسب امتزاج بھی ضروری ہوتا ہے لیکن ہر ذی شعور اور باشعور دہی بڑے ساز، دہی بڑوں کو زیرہ او رلال مر چ کے بگھار کا سنگھار کچھ اس سلیقے سے کرتاہے کہ دیکھنے والے ماہی بے آب کی طرح مچل کر دہی بڑوں کا کٹورا اٹھا ہی لیتے ہیں ۔ ہم نے ایک دہی بڑے فروش سے لال مرچ اور زیرہ کے ذریعہ دہی بڑوں کے بناؤ سنگھار کے بارے میںاستفسار کیا تو اس نے کہا :’’ لال مرچ اور زیرہ جو عموماً بگھار کے بعد سیاہ ہوجاتے ہیں، یہ دہی بڑوں کو ذائقہ دار بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں بری نظر سے محفوظ بھی رکھتے ہیں کیوںکہ اپنے زرد رنگ کی بدولت یہ بیچارے بہت جلد بد نظری کا شکارہوجاتے ہیں یعنی بگھار شدہ زیرہ اور سرخ مرچ نظر کے ٹیکوں کا کام کرتے ہیں!‘‘
چمن بیگ کے بھائی گارڈن بیگ بخوبی جانتے ہیں کہ دہی میں پانی نہیں بلکہ پانی میں کتنا دہی ملایا جائے اورچنے کے آٹے میں جوار کا آٹا نہیں بلکہ جوارکے آٹے میں کتنا چنے کا آٹا ملایا جائے ؟ ویسے ماش کی دال کے بڑے، بڑے لذیذ ہوا کرتے ہیں لیکن ہوٹلوں اور ٹھیلہ بنڈیوں پر فروخت ہونے والے دہی بڑے عموماً چنے کے آٹے یعنی بیسن کے ہوتے ہیں کیوںکہ اس میں گیہوں،جوار یا مکئی کا آٹا بڑی آسانی سے ملایا جاسکتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں دہی بڑوں کو خالص بیسن کا روپ دینے کے لیے ملاوٹ شدہ آٹے میں ہلدی کا بڑی نفاست اور ڈھٹائی سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کے رنگ روپ میں نکھار پیدا ہوجائے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے دام الفت میں گرفتار ہوجائیں۔ اس نسخہ ٔکیمیا کا سب سے افادی پہلو یہ ہے کہ ملاوٹ شدہ آٹے کے دہی بڑے عام دہی بڑوں کی بہ نسبت بڑے بناکر ان کے چاہنے والوں کو بڑی آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے‘ جب کہ ماش کی دال کے دہی بڑے کافی مہنگے ثابت ہوتے ہیں اورجس میں کسی قسم کی ملاوٹ کی دہی بڑا فروش جرأت نہیں کرسکتا۔مختصریہ کہ دال ِماش کے دہی بڑے ان کے ذریعہ معاش میں معاون و مددگار ثابت نہیں ہوسکتے…
جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں دہی بڑے ، بڑے پرکشش ہوتے ہیں ، سفید سفید دہی میں تیرتا ہوا کالا زیرہ اور اس میںزرد رنگ کے بڑے جب اپنے سروں پر بگھاری ہوئی لال مرچ کا تاج سجائے نظر آتے ہیں توبڑوں بڑوں کے منہ میں پانی آجاتاہے ‘ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔پہلا روزہ تھا،بعد افطار ہمیں مسجد کے باہر مٹی کے چھوٹے چھوٹے کٹوروں میں بڑے بڑے دہی بڑے سجے سجائے نظر آئے تولاکھ کوشش کے باوجود ہم خود کو روک نہ سکے اور انہیں چٹ کرگئے۔گھر آئے تو ہم پرایسی زور دار چھینکوں کا حملہ ہوا کہ بدن کے سارے جوڑ ہل گئے ، بچے ہر چھینک پر ہمیںاچھلتا دیکھ کر حیرت زدہ تھے توپھول بانو پریشان تھیں کہ اچانک ہمیں یہ کیا ہوگیا … مسلسل چھینکوں کے دوران کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا کہ اب چھینکیں رک جائیں گی لیکن پھر ناک میں گدگدی سی ہوتی اور ہم پھر سے بے ساختہ چھینک پڑتے…اس طرح کم از کم ہم نے تیرہ چھینکیں چھینک مارلیں اور مسہری پر بیٹھے ہانپنے لگے تو پھول بانو ہمارے قریب آئیں اور بڑے پیار سے کہنے لگیں: ’’13کا ہندسہ بڑا منحوس ہوتا ہے،آپ نے جہاںتیرہ چھینکیں مار لی ہیں وہیں ایک اور چھینک مارلیں!‘‘ہم نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’بیگم! اب کچھ نہیں ہوسکتا … 14ویں چھینک ہماری زندگی کی آخری چھینک ثابت ہوسکتی ہے، جائیے ہمیں تنگ نہ کریں۔‘‘
اب کیا بتائیں کہ ہم نے وہ رات کیسے گزاری ؟ساری رات ہماری نہ صرف ناک سے بلکہ آنکھ سے بھی پانی بہتا رہا، جسم درد میں ڈوب گیا توسر بھاری ہوگیا،گلے میں خراش کے ساتھ کھانسی بھی شروع ہوگئی ‘ جسم میں کپکپی سی ہونے لگی اور ہم لحاف کے اندر آنکھیں بند کیے سوچنے لگے کہ دہی بڑے بھی کتنے فسادی ہوتے ہیں،اچھے بھلے آدمی کی حالت پتلی کردیتے ہیں …
جہاں کل تک ہمیں دہی بڑوں سے الفت تھی، آج نفر ت سی ہوچلی تھی… ہم خود کو کوسنے لگے کہ نہ ہم دہی بڑے کھاتے، نہ اس طرح ہماری طبیعت خراب ہوتی …اس کے بعد تو جناب عجیب و غریب خیالات کی گویاہم پر یلغار سی ہوگئی …ہم سوچنے لگے کیوں نہ ہم’’ غریبی ہٹاؤ‘‘ طرز پر ’’ دہی بڑے ہٹاؤ‘‘ مہم شروع کریں۔ دہی بڑوں کے خلاف کارنر میٹنگ کروائیں، لوگوں کو دہی بڑوں کے کھانے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہ کریں، جلسے اور جلوس نکالیں اور جہاں کہیں بھی دہی بڑے کے کٹورے نظر آئیں انہیں تہس نہس کردیں… بھلے ہی اس کے لیے ہمیں ہوٹل مالکین کے گھونسے اور مکے کھانے پڑیں یا پولیس کے ڈنڈے… لیکن بازار سے دہی بڑوں کا صفایہ کرکے رہیں۔دہی بڑے مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائیں،چیخیں چلائیں اور لوگوں کے دلوں میں دہی بڑوں کے تعلق سے اتنی نفرت بھر دیں کہ لوگ ان کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کریں۔ ہم نے دہی بڑوں کو صفحہ ٔہستی سے مٹانے کے تعلق سے یہاں تک سوچ لیا کہ ہم رہیں نہ رہیں لیکن دہی بڑوں کا بازار سے نام و نشان مٹا کر رہیں گے …قصہ مختصر یہ کہ ہم کافی دیر تک دہی بڑوں پر لعنت ملامت کرتے رہے….
سحر کو اٹھے اور پھول بانو سے ہم نے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ مانگنا چاہا تو ہمارے گلے سے ایسی آواز آئی جسے سن کرہم خود چونک گئے، ہمارا گلا بری طرح سے متاثر ہوچکا تھا۔پھول بانو نے ہمیں ٹوکا ’’ یہ آپ کی آواز کو کیا ہوگیا ہے ؟‘‘ہم انہیں کوئی معقول جواب دینا چاہتے تھے لیکن ہمارے منہ سے آواز کچھ ایسی نکل رہی تھی کہ الفاظ کم اوولٹیج پر بجنے والے ٹیپ ریکارڈر سے معلوم ہورہے تھے ‘چنانچہ ہم نے خامو ش رہنے میں ہی عافیت سمجھی ۔
دوستو!دہی بڑوں کی شرارت کا شکار ہوکر ہم تقریباً ایک ہفتہ زکام میں مبتلا رہے… پھر ایک دن ہمیں مشکوک حیدرآبادی کا فون آیا کہ ان کے ہاں افطار پارٹی کا اہتمام ہے جس میں شہر کے بڑے بڑے لوگ آرہے ہیں آپ بھی آئیں ! آپ کو اس افطار پارٹی میں بڑے ہی بڑے ملیں گے…ہم ان کے اشارے کو سمجھ نہ سکے اور افطار پارٹی میں پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کرہم نے دیکھا کہ شہر کے بڑے بڑے لوگوں کے علاوہ افطار پارٹی کے نام پر ہمہ اقسام کے دہی بڑے بھی موجودہیں ۔ مونگ کے دہی بڑے،ماش کے دہی بڑے، چنا دال کے دہی بڑے،چھوٹے دہی بڑے، بڑے دہی بڑے غرض ہر رنگ و نسل کے دہی بڑے خوشنما کٹوروں میں سجے ہوئے ہیں،دہی بڑوں کے علاوہ البتہ کھجوربھی تھے ۔ ہم نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ ہم کھجور سے افطار کرلیں گے اور بنا دہی بڑوں کو ہاتھ لگائے چپ چاپ کھسک جائیں گے۔ چنانچہ ہم کھجور سے افطارکرنے کے بعد ایک جانب کو کھسک ہی رہے تھے کہ مشکوک نے ہمیں دبوچ لیا اور دہی بڑے کھانے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ ہم نے اپنی مجبوریوں کا اظہار کیا،حالیہ دنوںمیں دہی بڑوں کی بدولت ہمارے ہوئے حشر کا تذکرہ کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ماش کے دہی بڑوںکا کٹورا ہمارے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا ’’ کھاکر دیکھو! بڑے ذائقہ دار ہیں!‘‘ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم انہیں کھائیں یا نہ کھائیں۔ تبھی کلیم کلبلا نے ہم پر فقرہ کسا ’’تم تو بڑے نازک مزاج ہو!‘‘یہ چبھتا ہوا ریمارک سن کر ہم بے قابو ہوگئے اور طیش میں آکر فوری دہی بڑے چٹ کر گئے … پھر تو جناب دہی بڑے کھانے کا ہم پر ایسا جنون سوار ہوا کہ ہم یہ بات یکلخت بھول گئے کہ کبھی ان ہی کی وجہ سے ہم زکام جیسے اذیت ناک مرض میں ایک مدت تک مبتلا رہ چکے ہیں۔
گھر آئے تو پھر سے گلے میں گدگداہٹ‘ ناک میں سڑسڑاہٹ اور آنکھوں میں سرسراہٹ شروع ہوگئی اور ہم شدیدجھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئے…جی ہاں!ہم پھر سے دہی بڑوں کی شرارت کا شکار ہوچکے تھے،ایک طرف ہم اپنے آپ کو،کوسے جا رہے تھے تو دوسری طرف ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے دہی بڑے کے بڑے بڑے کٹورے ہماری نگاہوں کے آگے گھوم رہے ہیں جو ہماری حالت پرزور زور سے ہنس رہے ہیں، ہمارا مذاق اڑا رہے ہیںاور ہم میں اتنی ہمت تک نہیں کہ ہم ان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ بھی سکیں…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰