سیاستمضامین

کشمیرمیں انتخابی گہماگہمی روشن مستقبل کی خوش خبری!

ش۔م۔احمد (کشمیر)
7006883587

۵ ؍ اگست۲۰۱۹ کو ۳۷۰کوآئین ِہند سےحذف ہونے کے مابعد یہ پہلا موقع ہے جب جموں وکشمیر کے عوام لوک سبھا الیکشن میں حق رائے دہی کااستعمال کر رہے ہیں ۔ ان معنوں میں جموں وکشمیر میں ہونے والےپارلیمانی الیکشن کا انعقاد غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سچ پوچھئے تو پانچ سال پہلے بھاجپا سرکار کی جانب سے آئین ِ ہند کی دفعہ ۳۷۰ کولوک سبھا میں اکثر یتِ رائے سے ختم کر نے اور پھر رواں سال سپریم کورٹ سے اس فیصلے کی آئینی حیثیت پر مہر تصدیق ثبت ہونے کے بعداب پارلیمانی انتخابات کی عمل آوری یہاں کے سیاسی مطلع پر نمودار ہونے والی تیسری اہم پیش رفت ہے۔
ا ب کے ریاستی عوام کی الیکشن پروسس میں بغیر کسی خارجی دباؤ یا حالات کی نا مساعدت کے شرکت بدلتے ہوئے سیاسی موسم کا غماز ہے ۔
پانچ سالہ طویل سیاسی تعطل کے بعدیہ پہلا موقع ہے جب جموں، کشمیر اور لداخ میں انتخابی صف آرائیاں زور وشور سے جاری ہیں ۔ آج کی تاریخ میں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی،پیپلز کانفرنس اور کانگریس کے شانہ بہ شانہ سابق ریاستی وزیرسید الطاف بخاری کی سربراہی میں قائم شدہ نئی علاقائی سیاسی جماعت’’ اپنی پارٹی‘‘ اور سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی’’آزاد جمہوری پروگریسیو پارٹی‘‘ انتخابی محاذ پر لنگر لنگوٹے کسے ہوئے ہیں ۔ تمام پارٹیوں کی سیاسی سرگرمیوں اور تقاریرو بیانات سےیوٹی میںانتخابی بخار کا پارہ بتدریج بڑھ رہاہے۔
یہ کوئی نیک فال نہیں کہ وادی ٔکشمیر میں انتخابی دنگل شروع ہونے سے قبل ہی گپکار الائنس کی دواہم اکائیاں این سی اور پی ڈی پی ( یہ دونوں جماعتیں انڈیا گٹھ بندھن سے تعلق رکھتی ہیں) پہلے پہل آپسی گلے شکوے ‘ پھر طعنہ بازیوں‘ الزامات اور جوابی الزامات میں مصروف ہوئیں ‘ پھر اپنی راہیں جدا کیں۔ ا س سے جگ ظاہر ہے کہ الائنس میں انتخابی گٹھ جوڑ تو دور کی بات ‘ ان کی دو طرفہ حریفانہ گفتگوؤں سے سیاسی اتحاد کا وجود عملاً تاش کے پتوں کی مانند بکھر کر رہ گیا اور اس کی مثال ماضی کے مسلم متحدہ محاذ جیسی ہوگئی۔ا س وقت یہ دونوں پارٹیاںالیکشن کے میدان میں ایک دوسرے کے حریفوں کی صورت میں برسر پیکار ہیں۔ بایں ہمہ بانہال کے اِس پار اور اُس پار عام لوگ سیاسی گھٹن اور مسائل کے انبار سےگلوخلاصی حاصل کر نے کے مصمم ارادے سے اپنے ووٹ کے آئینی وجمہوری حق کااستعمال کر کے اپنی سیاسی قوت منوا نے کا بے تابانہ انتظارکررہے ہیں۔ سات مرحلوں پر محیط پارلیمانی انتخابات کے پہلے دور میںادھم پور۔ ڈوڈہ کی نشست پر ۹ ۱؍اپریل کو انتخابی عمل پُرامن طور سر انجام پایا ۔اس حلقہ ٔ انتخاب میں اصل مقابلہ بی جے پی کے اُمیدوار ڈاکٹر جیتندرا سنگھ اور کانگریس کے چودھری لا ل سنگھ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ کانگریسی اُمیدوار کی انتخابی مہم میں عمر عبداللہ نے انڈیا الائنس کا اتحادی ہونے کے ناطے چودھری لال سنگھ کے حق میں تقریریں کیں ۔اس موقع پر انہوں نے غلام آزاد پر جم کر تنقید کی کہ وہ بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں ‘ حالانکہ وہ خود بھاجپا میں وزیرخارجہ رہ چکے ہیں ۔ جواباً آزاد صاحب نےبھی عمر صاحب پر زبانی کلامی تنقیدوں کی بوچھاڑ کی۔ اس سیٹ پر آزاد پارٹی بھی لڑ رہی ہے۔یہ نشست کس کے پالے میں جائے گی، جون کے پہلے ہفتے میں الیکشن نتائج سامنے آنے پر رازکھلے گا کہ جیت کا قرعہ ٔ فال کس پارٹی کےسر گیا۔
جموں کشمیر میںپارلیمانی الیکشن کا قابل ِذکر پہلو یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے عمومی توقعات کے عین برعکس انتخابی میدان میں کودنےسے کافی سوچ سمجھ کر گریز کیا ۔ یہ بھاجپا کا کوئی خالی از معنی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ پارٹی ہائی کمان نے لازماً کشمیر میں انتخابی معرکے میں اُترنے کے حوالے سے اپنے سُود وزیاں کا موزانہ کرکے ہی یہ نپی تُلی پالیسی اپنالی ہوگی ۔ مبصرین کی رائے میں کشمیر کی پارلیمانی نشستوں پربراہ راست لڑ نے سے گریز پائی بلا شبہ بھاجپا قیادت کی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا ثبوت ہے ۔ وادی کےزمینی حالات سے مربوط یہ فیصلہ بی جے پی کے لئے کسی بھی لحاظ سے گھاٹے کا سودا ثابت نہ ہوگا ۔ ویسے بھی تاریخ شاہد عادل ہے کہ بھاجپا کا یہ مزاج ہی نہیں کہ سوکھے دریا میں تیرنے میں اپناوقت اور اپنی قوت ضائع کرے ۔ بجائے اس کے یہ اپنے لئےاپنی شرائط پر ایسے مواقع اور حالات پیداکر نے میں یدطولیٰ ر کھتی ہے جو اس کے نظریاتی مقاصداور سیاسی اہداف پورا کر نے میں ہر لحاظ سے دیر سویرمددگار ثابت ہوں۔ حالانکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بھاجپا نے سال ہا سال محنت کر کےپوری وادی میں اپنا مضبوط تنظیمی نیٹ ورک اور کیڈر استوار کیا ہوا ہے ۔ یہ انہی کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ ماضی کے بالکل اُلٹ یہ پارٹی بدلتی ہوئی سیاسی حقیقتوں کے پس منظر میں عوام کے لئے کوئی شجر ممنوعہ نہیں رہی ہے ۔ اس نے کشمیر میں اپنے پُر جوش لیڈروں ‘ ورکروںاور حامیوں کی اُمیدوں کو مستقبل میں اسمبلی انتخابات( جن کا انعقاد سپریم کورٹ کی عائد کردہ ڈیڈ لائین کے مطابق رواں سال ستمبر تک ممکن العمل ہوناچاہیے ) میں جیت کی گھڑی تک موخر کر تے ہوئے اب کی بار سید الطاف بخاری کی’’ اپنی پارٹی‘‘ اور پیپلز پارٹی کے اُمیدواروں کی برملا حمایت کا اعلان کیا ۔ ماضی میں این سی اور پی ڈی پی نے اپنی اپنی باری پر این ڈی اے کا ہاتھ تھا م لیا تھالیکن اس بار بھاجپا ’’اپنی پارٹی‘‘ پر مہر بان ہوئی۔ جوابی مہربانی کی صورت میں یہ بات تقریباً طے سمجھی جانی چاہیے کہ’’اپنی پارٹی‘‘ انتخابی میدان مارلے تو اسے مرکز میں این ڈی اے کا حلیف بننے کا تکلف پورا کر نا ہی کرنا ہوگا ۔
سید الطاف بخاری کی زیر قیادت ’’اپنی پارٹی‘‘ نے سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے پارٹی کے سینئر قائدسابق وزیر محمد اشرف میر کواین سی کے آغا روح اللہ اور پی ڈی پی کے وحید پرا کےمقابلے میں کھڑاکیا ہوا ہے۔ اننت ناگ ۔راجوری حلقۂ انتخاب سے پارٹی کے نائب صدر سابق ایم ایل سی ظفراقبال منہا س کومنڈیٹ دیا گیا ہے۔ اُن کے مقابلے میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور سابق ریاستی اور ممتاز گوجر لیڈر میاں الطاف کھڑے ہیں ۔ ظفر اقبال صاحب کے لئے سیاست محض خدمت خلق اللہ کا ایک موثر وسیلہ ہے ۔ طبعاً آپ علم وادب اور خطے کی ثقافت سے خاصا شغف رکھنے والے منجھے ہوئے قلم کار ، سنجیدہ فکر صحافی ‘ دانش وراور پہاڑی طبقے کو حق وانصاف کی بنیاد پر مقام ِ آبرو دلانے کےلئے زیادہ تر جانے جاتے ہیں۔ بخاری صاحب بارہمولہ نشست پر قسمت آزمائی کر نے والے سابق ریاستی وزیر پیپلز کانفرنس کےسجاد غنی لون کے نام ’’اپنی پارٹی‘‘ کی حمایت کرچکے ہیں۔ اس کا نسٹی چیونسی سے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بھی اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔پی ڈی پی کی طرف سے یہاں سابق راجیہ سبھا ممبر فیاض میرمیدان میں جمے ہوئے ہوئے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ غلام بنی آزاد کی ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی نے اگرچہ بہ نفس ِ نفیس اننت ناگ ۔راجوری سیٹ پر الیکشن لڑنے سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر معذرت کرلی مگر پارٹی نے ا س نشست پر ایڈوکیٹ محمد سلیم پرے کو اپنا اُمیدوار بنایا ۔ ادھم پور۔ ڈوڈہ میں بھی پارٹی انتخابی مقابلہ آرائی میں ڈَٹی رہی۔
فی الحال پارلیمانی الیکشن میں جموں کشمیر کی جانی پہچانی روایتی اور دو اہم نئی نویلی پارٹیوں کے مابین انتخابی جنگ جاری ہے۔ تمام پارٹی لیڈر خود کو عوامی خادم ہونے کے دعوے بھی کررہے ہیں اور ووٹروں کو خوش نما وعدے وعید دے کر رجھا بھی رہے ہیں۔ اس ساری انتخابی دنگل میں کامیابی کا ہما کس کی ہتھیلی پر بیٹھے گا،اُس بحث سے قطع نظر مختلف الخیال لیڈر وہی گھسی پٹی باتیںدہرا رہے ہیں جن سے آج تک عوام کا کوئی بھلا نہ ہوا ،بس اتنا کمال ہوا کہ لیڈر لوگ مسند ِا قتدار پر بیٹھتے گئے اور اُن کےنام اپنا ووٹ وقف کرانے والے ووٹر اپنی کسمپرسی اور بے نوائی کی آپ مثال بنتے گئے ۔ اس عموم کے علی الرغم ’’اپنی پارٹی‘‘ کے سر براہ سید الطاف بخاری اور آزاد پارٹی کے مسوسس غلام نبی آزاد کی سیاسی گفتگوئیں تازہ ہوا کے جھونکے جیسے محسوس ہوتے ہیں۔۔۔ جذباتیت سے عاری اور سہانے سپنوں سے بالکل مبّرا ۔ آزاد نے یہی طرزِکلام اپنی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں بھی ہُوبہو اپنا یاتھا۔ یہ دونوں قائدین یوٹی میں سٹیٹ ہڈ کی بحالی کی یقین دہانی کرا نے کے بین بین اہلِ وطن کے گلے پڑ ے روزمرہ مسائل ، مایوسیوں ‘ گھٹن اور تلخ کامیوں کے دلدل سے اُنہیںنکال باہرکر نے ‘ اُنہیں امن وترقی اور قابلِ حصول مقاصد کی جانب قدم اُٹھانے کا مژدہ سناتے ہیں ۔ سید الطاف بخاری نے جب سے ’’اپنی پارٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا تو ہمیشہ علانیہ یہ تاثر دیا کہ روایتی استحصالی سیاست کےدن لدگئے اور یہ کہ وہ دن کی روشنی میں دلی سے راہ ورسم بڑھاکر اپنے لئے نہیں بلکہ اہل ِوطن کے لئے جابس کی ریزرویشن، زمینوں کی خرید وفروخت کے حوالے سے سابقہ قواعد وضوابط کی بحالی اور اسی طرح کی دیگر رعایتوں کی برقراری پر آمادہ کرنے میں بر سر عمل ہیں ۔ بہر کیف اس میں دورائے نہیں کہ پارلیمانی الیکشن جموں وکشمیر کے لئے ایک نئی صبح کا آغاز اور نئے سفر کا ابتدائیہ ہے ۔اس میں عوام کی بھاری شرکت سے وطن ِعزیز میں حزن وملال کے بادل چھٹ جانے کی اُمید اور تعمیر وترقی کا دور دورہ ہونے کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہونے کا راز مضمر ہے۔

a3w
a3w