بھارتسوشیل میڈیا

آر ایس ایس ملک پر برہمنوں کی بالا دستی مسلط کرنے کوشاں

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر ایک کتاب بعنوان ”آر ایس ایس آلا، اگالا“ (آر ایس ایس۔ گہرائی و چوڑائی) میں دستور اور ہندوستان میں وفاقیت کو لاحق خطرات کے بارے میں انتباہ دیا گیا ہے۔

نئی دہلی: راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر ایک کتاب بعنوان ”آر ایس ایس آلا، اگالا“ (آر ایس ایس۔ گہرائی و چوڑائی) میں دستور اور ہندوستان میں وفاقیت کو لاحق خطرات کے بارے میں انتباہ دیا گیا ہے۔

ممتاز کاڈیگا مصنف دیوانور مہادیوا نے یہ کتاب تحریر کی ہے، جس میں آر ایس ایس کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

مصنف نے آر ایس ایس کی تین نظریاتی بنیادوں کی نشاندہی کی ہے، جو وہ ملک پر اپنے سیاسی شعبہ (بی جے پی) کے ذریعہ نافذ کرنا چاہتی ہے۔

مصنف نے کتاب میں پہلا استدلال یہ کیا ہے کہ آر ایس ایس دستورِ ہند سے اتفاق نہیں کرتی اور اسے ایک ایسے دستور کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتی ہے جس میں خود اس کا اپنا ویژن دستاویز ہو۔

”مسلم مرر“ کے مطابق آر ایس ایس نے یکم جنوری 1993ء کو ایک وائٹ پیپر شائع کیا تھا، جس میں دستورِ ہند کی مذمت کی گئی تھی اور اسے ”مخالف ہندو“ قرار دیا گیا تھا۔

دستور کو مسترد کردینے کی اساس یہ تھی کہ یہ’بیرونی ممالک پر مرکوز‘ ہے اور اسے مکمل طور پر ترک کردینے کی بات کہی گئی تھی۔ آر ایس ایس دستورِ ہند سے اس لیے بھی اتفاق نہیں کرتی کیوں کہ یہ وفاقیت کی حمایت کرتا ہے۔

اس کے بجائے آر ایس ایس ہندوستان کو ایک مطلق العنان ملک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے، جہاں ریاستیں صرف علامتی مقصد کے لیے ہوں۔ مصنف نے اپنی کتاب میں تیسری بات یہ بیان کی ہے کہ آر ایس ایس سارے ہندوستان میں آریائی نسل کی بالادستی نافذ کرنا چاہتی ہے۔

بالفاظِ دیگر وہ برہمنوں کی بالا دستی چاہتی ہے کیوں کہ وہ لوگ آریہ (صاحب علم) ہیں اور اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہندوستان میں دیگر مذہبی گروپس پر ہندوؤں کو فوقیت حاصل ہوجائے گی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ بھگوت گیتا غلام بنانے کا آلہ ہے۔ مہا دیوا نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ان کی کتاب آر ایس ایس کی حقیقی فطرت اور مقاصد کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آر ایس ایس تنظیم اور اس کے حقیقی رنگوں کے بارے میں مختلف تصور عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف نے نصابی کتب پر حالیہ نظرثانی اور انسدادِ تبدیلی ئ مذہب بل کو سماج پر آر ایس ایس کے 3 نظریات کو مسلط کرنے کی حالیہ مثالوں کے طور پر پیش کیا۔

مصنف نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کا حقیقی کنٹرول ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہوئے افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے تمام ترقی پسند تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور رجعت پسند طاقتوں کے منصوبوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کریں، جو ہندوستان پر’ورنا شرما دھرما‘ کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

اس کتاب میں وزیر اعظم نریندر مودی پر ایک علیحدہ باب ہے، جس میں انہیں ”اُتسو مورتی“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تاثر خود ہی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم کسی بھی تقریب کا مرکز بننے میں یقین رکھتے ہیں اور اپنے سوا کسی اور کو کیمرہ کے فریم میں آنے نہیں دیتے۔ اس کتاب کے مواد نے ایک تنازعہ پیدا کردیا ہے، کیوں کہ سارے ملک بالخصوص کرناٹک پر ہندو توا کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب ہندو توا طاقتوں کی گردن کا درد بن گئی ہے۔

انہوں نے اس کتاب کو پروپگنڈہ پر مبنی قرار دیا ہے اور کتاب کو منظر عام پر لائے جانے کے وقت پر سوال اٹھایا ہے، کیوں کہ 2023ء میں کرناٹک اسمبلی انتخابات مقرر ہیں۔ ہندو توا طاقتیں اس کتاب پر امتناع عائد کرنے اور مصنف دیوا نور مہا دیوا کے خلاف کیس درج کرانے کی بات کررہی ہیں۔ مصنف کی تائید کرنے والے افراد نے اس کتاب کو آزادئ اظہار کی مثال قرار دیا ہے۔

کتاب کی متنازعہ نوعیت کی وجہ سے یہ نوجوانوں میں موضوعِ بحث بن گئی ہے۔ نوجوان کثیر تعداد میں یہ کتاب خرید رہے ہیں اور یہ ان میں مقبولیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہندوستان کا نظریہ طاقتور نہ ہو تب بھی یہ زندہ ضرور ہے۔ کتاب ”آر ایس ایس: آلا مٹو اگالا“ صرف 72 صفحات پر مشتمل ایک پتلا سا کتابچہ ہے۔

اس کی قیمت صرف 40 روپئے مقرر کی گئی ہے اور اس کی اب تک زائد از 40 ہزار کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کی ریکارڈ فروخت نے ناشرین کے چہرہ پر مسکراہٹ لا دی ہے، جو مطبوعہ کتب خریدنے اور پڑھنے کے تئیں بے حسی پر نالاں تھے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں کتاب کی فروخت ایک لاکھ کے نشانہ کو عبور کرلے گی۔