مضامین

اتحاد بین المظلومین‘ وقت کا تقاضا

سید مقصود

کسی کو نقصان پہنچانے اور طے شدہ منفی مقاصد کی تکمیل کے عمل کو سازش کہا جاتا ہے۔ نقصان زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوسکتا ہے۔ سیاسی، سماجی ، مذہبی وغیرہ ۔ تاریخ ایسی سازشوں سے بھری پڑی ہے جن سے حکومتیں نیست و نابود ہوئیں، نظریات بھلادئیے گئے، شخصیات پیوند خاک ہوگئیں۔ /6 ڈسمبر 1992 کا دن بھارت کی تاریخ میںمول نواسیوں (اصل باشندیوں) کو غلام بنائے جانے کا دن ہے، مگر اس میں ایسی احتیاط کی گئی کہ اُن کو احساس تک نہ ہوا۔ باشعور لوگوں نے اس سازش کا پردہ فاش کرنے کی بھر پور کوشش کی مگر بات سنی ان سنی کردی گئی۔2014 تک برہمن وادی‘ مخلوط حکومتیں چلارہے تھے۔ اس کے بعد ان کو مرکز میں مکمل اقتدار حاصل ہوگیاجو کہ اب تک جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ ایسا کیا ہوا؟ ان عوامل پر سرسری طورپر نظر ڈالی جائے۔ /6 ڈسمبر کو بہوجنوں کے رہنما ڈاکٹر امیبڈکر ایک بڑی سازش کے تحت اُن کی برہمن بیوی کے ذریعہ مبینہ طور پر قتل کروادیاگیا۔ اس طرح کیوں ہوا۔ شودروں کے لیے برہمنوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے رہنمابابا صاحب امبیڈکر تھے۔ وہ شروع ہی سے ورن ووستھا( ذات پات کا نظام) اور اُس کے برے اثرات ، مول نواسیوں کی غلامی اور کیے جانے والے غیر انسانی سلوک کی وجہ اسی ذات پات کے نظام کو سمجھتے تھے۔اُس کو ختم کرنے کے لیے جو اقدامات ڈاکٹر امبیڈکر صاحب نے کیے کچھ یوں ہیں:
(۱) ڈاکٹر امبیڈکر 1919 سے ہی اپنے لوگوں کی لڑائی شروع کرچکے تھے۔ 1919 میں جب South Booro کمیشن مقرر ہوا، اُس وقت ان کی عمر صرف 28 سال تھی۔ انھوں نے کمیشن کو بتلایا بھارتی عوام کی مذہبی وسماجی تقسیم کا تجزیہ کرتے ہوئے اس ملک میں سکھ، کرسچن ، مسلمان، پارسی اور ہندو مذہب تو ہے ہی مگر صحیح تقسیم کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہندوﺅں کو دو حصوں میںتقسیم کیا جائے ، ” ایک اونچی ذات اور دوسری اچھوت ” اس طرح کی تقسیم برہمن کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے کیوں کہ اگر ایسا ہو تو ان کے سدھائے ہوئے غلام آزاد ہوجاتے۔جس سے اُن کی بالادستی خطرے میں پڑ جاتی۔
(۲) 1928 میں سائمن کمیشن بھارت آیا۔اُس کا مقصد یہ تھا ساﺅتھ بورو کمیشن کے دئیے ہوئے مراعات کس حد تک لاگو ہوئے اور مزید کیا دیا جاسکتا ہے، اُس کی جانچ کرنا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا جس طرح مسلمانوں کو 1909 میں ریزرویشن دیے گئے تھے۔ اُسی طرح اچھوتوں کو بھی ملنے چاہیے۔ جب کہ برہمن دھرم کے حساب سے اچھوت صرف خدمت کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ حقوق کا مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں؟
(۳) 1931 میں گول میز کانفرنس ہوئی جس کے نتیجے میں /17 ا گسٹ1932 کو برطانوی وزیر اعظم نے کمیونل ایوارڈ کا اعلان کیا۔ بھارت میں پہلی بار اچھوتوں کے حقوق مانے گئے۔
(a آبادی کی بنیاد پر نمائندگی (b بالغ رائے دہی (c مخصوص انتخابی حلقے
(d ریزرویشن، دوہری حق رائے دہی۔
اس طرح اچھوتوں کو حکومت چلانے کے لیے قانون بنانے کا اختیار، تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کا حق ملا۔یہ کام تو صرف برہمن ہزاروں سالوں سے کرتے آرہے تھے۔ اچھوتوں کو اس طرح کے حقوق اُن کے لیے برداشت سے باہر ہوگئے۔ انہوں نے بھارت میں 1919 میں First India Act اور 1935 میں 2nd India Act پاس کرکے ذات پات کے نظام میں دخل اندازی کی۔
(۴) 1935 میں ڈاکٹر امبیڈکر نے اعلان کیا کہ” میں ہندو پیدا ہوا ہوں۔مگر میں ہندو نہیں مروں گا” یہ ایک طرح کا اچھوتوں کی جانب سے برہمن دھرم کے خلاف اعلان بغاوت تھا۔
(۵) جب بابا صاحب کو دستور لکھنے کا موقع ملا تو انھوں نے انصاف ، بھائی چارہ ، مساوات کی بنیاد پر دستور بنایا۔اس طرح بھارت کا دستور منو کے ظالمانہ قانون کی موت کا دن ہے۔
(۶) جب وہ وزیر قانون بنے خواتین بل پیش کرکے خواتین کو آزادی کا پروانہ دلانا چاہتے تھے۔ مگر نہرو حکومت نے اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش ہی کرنے نہیں دیا۔
(۷) دفعہ 340 لکھ کر OBCs کو اُن کا حق مانگنے کی سہولت فراہم کی۔
(۸) 1948 میں شیڈول کاسٹ فیڈریشن کا جلسہ لکھنو میں ہوا ۔ اُس میں انھوں نے اپنے لوگوں سے کہا ”ہماری تعداد زیادہ ہے، نہرو کی ذات والے کم ہیں ۔ جمہوریت میں برہمن حکمران نہیں بن سکتے۔ اچھوت اور پچھڑے ذاتوں کے لوگ ایک جگہ آجائیں تو گووند ولبھ پنتھ کی ذات کے لوگ ہمارے لوگوں کی جوتیوں کی ڈور کھولنے میں فخر محسوس کریں گے“ ( حوالہ : کانگریس RSS کی ماں، پروفیسر والاس کھرات۔ اُردو ترجمہ سید مقصود ۔ صفحہ نمبر 70)
(۹) آخر کار ڈاکٹر امبیڈ کرنے /11 اکٹوبر 1951 کو OBCs کے لیے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور وہ اُن کی لڑائی لڑنے کے لیے آزاد ہوگئے۔ یہ برہمن دھرم کے لیے موت کا پیغام تھا۔ کیوں کہ آبادی کا 52% حصہ اگر اپنے حقوق کے لیے ایک ہوجائے تو برہمنوں کا اقتدار ہوا میں اُڑ جائے گا۔
(۱۰) /14 اکٹوبر 1956 کو ہندو دھرم چھوڑ کر بودھ دھرم کو انھوں نے قبول کیا اور اعلان کیا کہ میں اپنی آگے کی زندگی بھارت کو بودھ مئے کرنا چاہتا ہوں۔ 1957 میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ انھوں نے Republican Party کا دستور اور لائحہ عمل تیار کرلیا تھا۔ برہمنوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ایک مضبوط حزب اختلاف کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ سارے عوامل تھے جو برہمنوں اور اُن کے دھرم کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے منصوبہ بناکر اُن کی برہمن بیوی کو استعمال کرکے /6 ڈسمبر 1956 کو اُن کا مبینہ طور پر قتل کردیا۔ان کی موت کے بعد کامبلے جو اُن کے ساتھی تھے نے ایک کتابچہ لکھا کہ بابا صاحب کا قتل ہوا ہے۔ حال ہی میں 2011 میں بامسیف کے جنرل سکریٹری پروفیسر ولاس کھرات نے ایک کتاب لکھی "Who Killed Dr. Baba Sahab Ambedkar and Why?” جو مول نواسی پریس پونا سے انگریزی اور ہندی میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں ولاس کھرات صاحب نے بہت سارے ثبوت اور بہت ہی سائنٹفک انداز میں اس کو ثابت کیا ہے کہ اُن کا قتل ہوا ہے۔شاردا کبیر جو اصل میں شاردا راناڈے تھی۔ اُن کا رویا بابا صاحب کے خلاف تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے اُن کو طلاق دینے کے لیے اپنی سوچ بنالی تھی اور اُن کے ایک ساتھی جو کائست تھے، بیرسٹر سمتھ کو کاغذات تیار کرنے کے لیے کہا تھا۔ دکن کے پست کردہ اقوام کے قائد بی شیام سندر صاحب اُن سے ملنے کے لیے بمبئی گئے۔ /18 ا گسٹ 1956 کو اُن سے ملاقات کی۔ اُس ملاقات کی روداد اپنے دوست گنپتھ کو بی شیام سندر صاحب یوں لکھتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے اپنی صحت کا ذکر شروع کردیا۔ اُن کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ اتنے میں اُن کی دھرم پتنی آگئی۔ وہ کچھ اس طرح سے ڈاکٹر صاحب سے برتاﺅ کیا ۔ میں سمجھتا ہوں نا صرف ہم کو خود ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی بے عزتی اور بے بسی کا احساس ہوا ہوگا” ( حوالہ ۔ بی شیام سندر ۔ مرتب سید مقصود ۔ صفحہ نمبر 160 .سمانترا پبلکیشن ۔ لکڑی کا پل حیدررآباد۔)
/13 اکٹوبر 1957 کو RPI کی بنیاد پڑی۔ اور عام انتخابات ہوئے۔ اُس میںRPI کے 10 رکن پارلیمان چن کر آئے۔ ڈاکٹر بابا صاحب کی موت کی تحقیقات کو مطالبہ کیا گیا۔ اُن کے ساتھ اور 35 رکن پارلیمان نے بھی پارلیمنٹ سے واک آﺅٹ کیا۔ جس کے نتیجے میں DIG سکسینہ کی صدارت میں تحقیقاتی کمیشن مقرر ہوا، مگر اُس کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی موت کے بعد لوکھنڈے جو باباصاحب کے قریبی ساتھی تھے، ایک مختصر سا کتابچہ لکھا۔ جس میں ان کے قتل کی سازش کا پردہ فاش کیا۔ جس کے نتیجے میں شاردا کبیر کسی عوامی جلسے میں جاتیں تو کئی جگہ ایسے نعرے لگے۔ ” بابا صاحب کی قاتل واپس جاﺅ” تو انھوں نے صفائی دینے کے لیے بابا صاحب کے سہواس میں کتاب لکھی۔ اس سازش میں سبھی لوگ شامل تھے ورنہ اس طرح ان کا قتل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس طرح اچھوتوں کا /6 ڈسمبر 1956 کوبابا صاحب کی موت کے ساتھ ہی اُن کا باب ختم کردیا گیا۔
اب باری ہے OBCs کی۔ بھارت کی آبادی کا تقریباً 52% حصہ یہ لوگ ہیں۔ وہ وررن ووستھا میں اچھوتوں سے اوپر ہیں۔ وہی سب سے زیادہ رام بھکت ہیں۔ اور سب سے زیادہ سیاسی ، معاشی اور تعلیمی حالت میں نیچے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر بابا صاحب ‘ دفعہ 340 لکھ کر اُن کو ریزرویشن سے فائدہ اُٹھانے کا انتظام کرگئے۔ جس کے نتیجے میں کاکا کالیرکر کمیشن نہرو حکومت کو قائم کرنا پڑا۔ اس کے بعدکے دور میںمنڈل کمیشن آیا۔ ان کی سفارشات پر عمل کرنے وی پی سنگھ نے اقدام اُٹھایا۔ /13 ا گسٹ1990 کو ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔سارے دیش میں آگ لگ گئی۔ اعلیٰ ذات والوں نے اُس سے پہلے ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر عدالت سے ایسا فیصلہ دلوایا کہ /16 نومبر 1992 کو کریمی لیر کا قانون لاگو کرکے OBCs کو ریزرویشن سے فائدہ اُٹھانے سے روکنے کی سازش کی۔ وہ ایسا ہی تھا جیسے کسی آدمی کو چنے کھانے کے لیے کہا جائے اور اُس سے پہلے اُس کے دانت توڑ دئیے جائیں اور جس کے پاس دانت ہیں اُسے چنے ہی نہ دئیے جائیں۔ جس کسی OBCs کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہو وہ ریزوریشن سے محروم کردیا جائے۔2018 تک 350 OBcs کے کامیاب IAS بچوں کو کریمی لیر لگاکر اُن کی پوسنٹنگ روک دی گئی۔
1991 میں پی وی نرسمہاراﺅ کی سرکار نے بڑی ہوشیاری سے من موہن سنگھ کے ذریعہ LPG لاگو کیا۔ اور سارے قومی ادارے اور فیاکٹریاں پرائیوٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اور خانگیانے میں تحفظات نہیں ہیں۔ OBCs کو 27% تحفظات رہنے کے باوجود اُن کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر منڈل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تحفظات 52% دئیے جاتے تو نقصان کس کا ہوتا۔ یہ غور طلب بات ہے، آبادی کا 3% برہمن لیکن 72% اُن کی حصہ داری ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے اگر OBCs کو 52% حصہ دیا جائے تو برہمن 72 سے 22 پر آجاتے۔ایسا نہ ہونے پائے جس کے لیے انھوں نے ایک نئی سازش رچی۔ رام مندر ، بابری مسجد کے مسئلہ کو سامنے لایا۔ /25 جنوری 1987 سے ہی رامائین سیریز راجیو گاندھی کی حکومت نے شروع کی۔ جس سے رام بھکتی اپنے عروج پر پہنچی۔ اس کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور اڈوانی نے رتھ یاترا شروع کردی۔BCs جو رام بھکتی میں ڈوبے ہوئے تھے اُن سے کہا گیا۔ دھرمورکھشتی دھرمے۔ تم دھرم کی رکشا کرو دھرم تمہاری رکشا کرے گا۔ اور اُن سے کہا گیا۔ ہم تو رام کا مندر ایودھیا میں بنانا چاہتے ہیں مگر اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں۔اس چکر میں OBCs اپنا حق مانگنا بھول گئے اور /6 ڈسمبر 1992 کو مسجد گرادی گئی۔ OBCs کے تحفظات ختم اور ساتھ میں مسلمانوں کی مسجد برخاست۔ اس سے OBCs دو سو سال پیچھے ہوگئے اور مسلمان تباہ و برباد۔
محققین کہتے ہیں کہ برہمنوں کا طریقہ اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے چار مرحلوں میں اس کام کو انجام دیتے ہیں۔(a نظر انداز کرو (b بدنام کرو (c قتل کرو(d پوجا کرو
آج بدھا سے لے کر امبیڈکر تک جتنے لوگوں نے اس نظام کے خلاف آواز ااُٹھائی۔ اُن سب کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا اور کیا جارہا ہے بدھا، بسیشور، کبیر ، تکارام، جیوتی با پھولے ، امبیڈکریہ سب آج پوجنئے ہوگئے ہیں، جب کہ ان کا قتل کیا گیا ہے۔ عام طور سے یہاں کے مول نواسی ہر مسئلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔دشمن اپنی پالیسی اور پروگرام کے تحت ایسا عمل کرتا ہے کہ وہ ردعمل پر اُتر آئیں اور اس ردعمل کے ذریعہ وہ سب کو ہندو بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔مسلمانوں نے70 سالوں میں کوئی عمل نہیں کیا بلکہ صرف روعمل ہی ظاہر کرتے رہے۔ /6 ڈسمبر کے دن بابری مسجد یہ پیغام دیتی ہے کہ مظلوموں کے درمیان اتحاد قائم ہو تاکہ ظلم کو روکا جاسکے ناکہ یوم سیاہ منا کر دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ اس کو یوم اتحاد ، بین المظلومین ہونا چاہیے۔
٭٭٭

a3w
a3w