مضامین

’اسٹام شاڈو‘: برطانوی ہتھیار جو یوکرین کے حق میں جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے

تھامس سپینسر

11مئی کو برطانوی حکومت نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس کی جانب سے یوکرین کو ’اسٹام شاڈو‘ نامی میزائل فراہم کر دیا گیا تاہم فراہم کردہ میزائل کی تعداد خفیہ رکھی گئی۔ ’اسٹام شاڈو‘ کروز میزائل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ 150 میل تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یوکرین کے پاس موجود میزائلوں سے اس کی رینج تین گنا زیادہ ہے۔ اس میزائل کی مدد سے یوکرین ایسے اہم روسی اہداف کو باآسانی نشانہ بنا سکے گا جو اب تک اس کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔
تاہم یہ واضح ہے کہ یہ میزائل لامحدود تعداد میں یوکرین کو فراہم نہیں کیے گئے۔ اس لیے ممکن ہے کہ یوکرین ان کا استعمال صرف ایسے روسی عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کرے جو اس کے مقبوضہ علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن اس میزائل کی رینج روسی عسکری منصوبہ سازوں کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرے گی کہ اب وہ جنگ کے محاذ سے دور اپنے کمانڈ کنٹرول مراکز اور سازوسامان کو کیسے محفوظ رکھے گا۔ اسٹام شاڈو کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ میزائل مضبوط ایئر کرافٹ ہینگر کو بھی چیر سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روسی فضائی اڈے بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔ انٹڑنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک اسٹڈیز میں زمینی جنگ کے سینئر فیلو بین بیری کا کہنا ہے کہ ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ روس اپنے فضائی دفاع کو پیچھے دھکیلنے پر مجبور ہو جائے۔واضح رہے کہ یوکرین نے اپنے ایس یو 24 لڑاکا طیاروں کو اس میزائل سے لیس کیا ہے اور اب یہ ایک محفوظ مقام سے کسی بھی ہدف پر سرجیکل اسٹرائیک کر سکیں گے۔ ہم شاید پہلے ہی اس میزائل کا میدان جنگ پر اثر دیکھ رہے ہیں۔
12 مئی کو روس نے یوکرین پر الزام لگایا کہ برطانوی میزائل کی مدد سے مشرقی یوکرین میں لوہانسک شہر کے دو انڈسٹریل مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ بی بی سی اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ دوسری جانب یوکرین نے بھی اب تک اس میزائل کے استعمال کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی۔ لیکن حال ہی میں یوکرین نے دعویٰ کیا کہ اس نے جنوب مشرقی زپوریزیا خطے میں روسی فوجی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا ہے۔یہ مقام یوکرین کے جنگی محاذ سے 70 میل دور ہے اور یوکرین کے پاس موجود دیگر تمام میزائل کی دسترس سے باہر ہے۔اگرچہ بی بی سی اس حملے کی تصدیق بھی نہیں کر سکا تاہم یہ واضح ہے کہ یوکرین اب روس کی عسکری مشین کو پہلے سے بہتر انداز میں نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس بات کا روس کی وزارت دفاع کو بھی ہو چکا ہے۔
’اسٹام شاڈو‘ اور امریکی ’ہیمارز‘
جولائی 2022 میں امریکہ نے یوکرین کو ’ہیمارز‘ راکٹ فراہم کیے تھے جو 50 میل تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ ان راکٹوں کے استعمال کے بعد روس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ انٹونیوکا پل پر یوکرین کے حملوں کی وجہ سے روس خیرسون شہر میں اپنی فوج کو رسد فراہم نہیں کر سکا تھا جس کے باعث ان کو ڈی نپرو دریا سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
امریکی ہیمارز راکٹ کی ہی وجہ سے یوکرین نے جنگی تکنیک میں مغربی انداز کو اپنایا۔
یوکرین کے پاس ہیمارز کے مقابلے میں نسبتاً کم اسٹورم شیڈو میزائل ہوں گے لیکن روس کے جنگی منصوبوں کو یہ زیادہ بہتر انداز میں نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی کونسل آن فارن ریلیشنز کے سکیورٹی ماہر آندریز گینن کا کہنا ہے کہ ’اگر روس اپنے سازوسامان کی حفاظت کے لیے زیادہ وسائل وقف کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور محاذ سے وسائل ہٹاتا ہے تو اس کا جنگ پر اثر پڑے گا۔‘ امریکی ہیمارز راکٹ ایسے اہداف کو بہتر طریقے سے نشانہ بنا سکتا ہے جو ساکت ہوں تاہم حرکت کرنے والے اہداف، جیسا کہ گاڑیوں پر نصب فضائی دفاعی نظام، کو نشانہ بنانے میں یہ راکٹ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔
اسٹام شاڈو‘ شاید روس اپنے فضائی دفاعی نظام کو زیادہ علاقے میں پھیلانے پر مجبور کرے جس سے روس کی فضائی صلاحیت اثر انداز ہو گی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب یوکرین ایک بھرپور جوابی حملہ کر رہا ہے۔ ایسے میں محاذ پر لڑنے والے یوکرین کے فوجیوں کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ برطانوی میزائل کی سیاسی حدود بھی ہیں۔ کاغذ کو دیکھیں تو یہ میزائل روس کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یوکرین کو یہ وعدہ کرنا پڑا ہو گا کہ وہ روس کے اندر عسکری اہداف کو نشانہ نہیں بنائے گا جس سے جنگ میں شدت کا امکان ہو۔مغربی دنیا نے یوکرین کی مدد جاری رکھنے کا عزم تو ظاہر کیا ہے لیکن جدید میزائل اور فضائی دفاع کے معاملے میں یہ مدد محدود پیمانے پر ہو گی۔
یوکرین کو یاد ہو گا جب برطانیہ نے اپنا مرکزی ٹینک چیلنجز دو فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک نے بھی ٹینک فراہم کیے تھے۔
اسٹام شاڈو کی فراہمی بھی ایسی ہی مثال بن سکتی ہے۔

a3w
a3w