ایم اے حفیظ کوڑنگلی
انسان اپنے وہم وگمان کے مطابق حالات وقرائن وتجربہ کے تحت ”اندازہ“ قائم کرلیتا ہے۔ بیدر شہر کے بدری آرٹسٹ کا اندازہ حالاتِ حاضرہ کے حقائق کے عین مطابق تھاکہ اسے پدم شری ایوارڈ کس طرح دیاجاسکتا ہے۔جب کہ بی جے پی کے 302ایم پیز میں 1410 ارکان اسمبلی میں ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں ہے۔خوش قسمتی سے ان کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ کیوں کہ ماضی میں بھی اس سربراہ مملکت کے تعلق سے کیے گئے تمام اندازے غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے جب ان کی جماعت کے سینئرقائدین بانیان جماعت اکابرین نے یو پی اے کی حکومت کوہٹاکر بڑے آرزوؤں ارمانوں اورامیدوں سے ایک جونیر آر ایس ایس پرچارک کوپہلے ایک صوبہ کی پھر اس وسیع وعریض ملک کی تخت نشینی عطا کی اوراندازہ تھا کہ وہ ان کے دربار کے ’بیرم خاں‘ نہ سہی نو رتن میں ضرور شامل ہوں گے لیکن تاج پوشی کے فوراً بعدانہوں نے ان تمام کو ضعیفی، نااہلی،عمررسیدگی کے بہانہ دربار خاص تو کیا ”دربار عام“ سے بھی باہر کردیا۔ وہ تمام آج سیاسی گلیاروں میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے عوام بھی بڑے بھولے بھالے انتہائی سادہ لوح واقع ہوئے ہیں۔ اندازے غلط ثابت ہونے کے باوجود باربار آزماتے رہتے ہیں۔ انتخابات بجلی کی تاروں کی طرح ہوتے ہیں، صحیح کنکشن مل گیا تو روشنی ہوجاتی ہے اگر غلط جڑگئے تو جھٹکے ہی جھٹکے۔
ایک فقیرجوراستہ پر بھیک مانگ رہاتھا۔ ”اللہ کے نام پر10روپے دے دو ورنہ“! صرف 10 روپے دو ورنہ“! ایک کاروالے نے غصہ میں پوچھا۔ ”یہ ورنہ کیا ہے؟ کیاکرلے گا؟“ فقیرنے جواب دیا۔
”ورنہ اس دفعہ بھی موجودہ حکومت کوووٹ دوں گا پھر آپ بھی میرے ساتھ اسی چوراستہ پر بھیک مانگیں گے۔“
کار والے نے جھٹ سے 100روپیہ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ”چل پھٹ! الیکشن کے بعدملنا حکوت بدلی تومالا مال کردونگاورنہ ”بے حال و بدحال!“
حقیقت تویہ ہے کہ عوام جولوگ نفرتوں کے قابل نہیں ہوتے ان پراپنی محبتیں نچھاورکردیتے ہیں ……بعدمیں اس کا انجام سامنے آتا ہے۔ آج ملک میں عجیب وغریب سناٹا ہے کبھی کبھی کہیں کہیں سے کسی مظلوم کی آہیں کسی مجبور کی فریادیں ابھرتی ہیں اورگودی میڈیا کی قصیدہ گوئی کے شورشرابے تلے دب کر رہ جاتی ہیں۔
جیسے ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا۔ ”یارپرسوں میری بیوی مکان کے کنویں میں گرگئی۔ بہت چوٹ لگی ہے شائد۔ دردسے چیخ وپکارکررہی تھی۔“ دوسرے دوست نے پوچھا۔ ”اب کیسی ہے۔ کہنے لگا۔ ”اب ٹھیک ہی ہوگی۔ کل سے کنویں سے کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔“
ہمارے حاکم بے پرواہ ”برامت سنو۔ برامت دیکھو برامت کہو۔“ کے فارمولے پر سختی سے عمل پیراہیں، ہاں کبھی کبھی منہ ضرور کھولتے ہیں گاندھی خاندان کو کوسنے کے لیے، کسی بھگوان کے نام پرووٹ مانگنے کے لیے یا اپنے من کی بات دوسروں کے من پرتھوپنے کے لیے۔
پٹرول پمپ کے باہر اپنی بیوی کوموٹرسائیکل سے اتارکرگاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہوئے سوچنے لگا۔“ یہ صنفِ نازک سے ایسا برتاؤ کیوں؟ اسی دوران ہماری نظرپاس لگائے ہوئے بورڈ پر پڑی اس میں لکھاتھا۔ ”آ گ لگانے والی چیزوں کوپٹرول پمپ سے دورکھیں۔“ بات سمجھ میں آگئی۔ دوسرے ہی لمحہ ایک اور بورڈ دیکھ کر میں سوچنے لگا۔”یہ ہنستا ہوا نورانی چہرہ کا بورڈ پٹرول پمپ کے قریب کیوں لگا ہوا ہے؟“
اپنے صوبے کے عوام خصوصاً اقلیتوں کے اندازے بھی صحیح ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ بڑے میاں ماشاء اللہ چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ قائداعظم جنہوں نے اپنی بیروزگاری وفرصت کودور کرنے کے لیے تلنگانہ تحریک کی تحدید کی تھی، آج اپنی پوری فیملی کے ساتھ اس کی نعمتیں لوٹنے میں دن رات مصروف ہیں۔ کیوں نہ ہوں۔ تحریک میں شامل قائدین کو اُن کی محنت ومشقت کا صلہ تو ملنا ہی چاہیے۔ اقلیتوں کی ترقی کے بلند مانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 103ایم ایل ایز میں ایک مسلم 17وزراء میں ایک مسلم۔
بازو پرامام ضامن باندھ کر، سرپر اسلامی ٹوپی افطارپارٹیاں۔اردو میں پُراثر تقریر کرکے مسلمانوں کو ہتھیلی میں جنت دکھائی جارہی ہے۔ ”دلت بندھو“،”رعیتو بندھو“ توہیں لیکن معاشی اعتبار سے پسماندہ ترین قوم کے لیے کوئی ”مسلم بندھو“ نہیں ہے۔
اقلیتی فینانس کارپوریشن کا خزانہ ہمیشہ خالی لیکن مسلم ووٹ بنک برقرار ہے۔ 12%تحفظات ایک جملہ ثابت ہوئے۔ شادی مبارک وغیرہ فلاح وبہبود کے نام پر چند معمولی فوائد ہماری جھولی میں ڈال کر احسان جتایا جارہا ہے۔……بدقسمتی یہ ہے کہ ہزاروں کروڑوں مالیتی قیمتی وقف جائیدادیں مقامی لیڈروں کی سازباز سے لوٹی جارہی ہیں۔ قائداعظم کی ہٹ دھرمی،انا توہم پرستی ضدنے صوبہ کی معیشت کوتباہ وبرباد کردیاہے۔ صوبہ 3لاکھ کروڑکا مقروض ہے۔عوامی پیسہ سے منادرکی تزئن نو، عالی شان سکریٹریٹ، بلند بالا امبیڈکرمجسمہ، آسمان کو چھوتا ترنگا کیا ”سنہرے تلنگانہ“ کی یہی علامت ہے؟ دوسری طرف شہر کا سوسالہ قدیم عثمانیہ ہاسپٹل اپنی خستہ حالی پر آنسو بہارہا ہے تاکہ اس کی درستگی ترقی وتوسیع غریب وبے سہارا مریضوں کا سہارابن سکے۔ حکمران خاندان بدلا ہے، طرز حکمرانی نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبے کوکس نے آزاد کروایا اورکون اس سے مستفید ہورہا ہے؟
جب چمن کو لہوکی ضرورت پڑی سب سے پہلے گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں اہل چمن ہم سے یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں