مضامین

کرناٹک الیکشن نتائج- ملک میں جمہوریت کے فروغ کے ضامن

رفیع الدین حنیف قاسمی

ہندوستان ایک اتحاد وسالمیت، محبت ویکجہتی کا ملک ہے ، یہاں نفرت ، تفرقہ بازی کی کوئی جگہ نہیں، جس کسی نے بھی ملک کی سالمیت ویگانگت اور ملک کے باسیوں کے درمیان نفرت وپھوٹ کی سیاست کی ، دیر سویر یہاںکے باسیوں نے انہیں سبق سکھایا ہے ، نفرت کی سیاست زیادہ نہیں چلتی، اس کو ایک نہ ایک دن مات کھانی پڑتی ہے اور وہ چاروں خانے چت ہوجاتی ہے ، ملک کے باسیوں کے درمیان محبت مودت، آپسی یکجہتی وسالمیت ہی ملک کی ترقی وعروج کی ضامن ہوتی ہے ، کرناٹک اسمبلی انتخابات نے یہ صاف کردیاکہ نفرت کی سیاست کو پائیداری اور بقا نہیں، ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو “یہ انگریزوں کی پالیسی تھی، جس کو بی جے پی حکومت استعمال کرتی ہے ، جس کے نتیجے میں ملک کی ترقی کے حوالے سے اصل مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں ، ملک کی ترقی سالمیت ٹھپ پڑجاتی ہے ، مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ، بے روز گاری بے لگام ہوجاتی ہے ، ملک کے عوام دانے دانے کو ترسنے لگتے ہیں ، حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں، لیکن حکومتوں کے بننے یا بگڑنے کی بنیاد مذہبی منافرت، بھید بھاو¿، تفریق وعداوت اور پھوٹ کی سیاست پر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ملک کی سالمیت، اہل وطن کی یکجہتی اوران کی آپسی یگانگت اور قدم سے قدم ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور منسلک رہ کرہی ایک وطن کی تعمیر وترقی کا خواب صحیح شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔
اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے مختلف طریقے اورہتھکنڈوں سے ریاست کرناٹک کے عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کوشش کی جس میںوزیر اعظم نریندر مودی کی 25ریلیوںسمیت ، 5چیف منسٹرس، 16ےونین منسٹرس، کے 1377روڈ شوز،3116 گلی میٹنگس، 1951پبلک میٹنگس شامل رہے ، اس قدر کڑی محنت کے باوجود نتائج کانگریس کے حق میں آئے اور جنوب کے علاقے سے بی جے پی کا بالکل سرے سے صفایا ہوگیا، کانگریس کی طرف سے اچھی بات یہ رہے کہ کانگریس نے مقامی سطح پر بڑی محنت وجستجو کی ، اس الیکشن کو نہایت محنت وجستجو کے ساتھ لڑا، جیتنے کے جذبے اور حوصلے کے ساتھ میدان میں آئے، عوام سے رابطہ قائم کیا، عوام کے مسائل سنے، بی جے پی کی کمی اور کمزوریوں کو خو ب اجاگر کیا، اس کی مالی خرد برداور دھاندلیوں کو خوب واضح کیا، چالیس فیصد کمیشن پر سرکاری کاموں کے الاٹمنٹ کی بات کو خوب زور وشور سے اٹھایا ، راہول گاندھی، پرینکا گاندھی، کھڑگے سمیت مقامی لیڈران میں سدارامیا، ڈی کے شیو کمار کی کرشماتی شخصیتوں اور اجتماعی محنت اور جدوجہد نے آج ملک کی سیکولر پارٹی کانگریس جس کے حوالے سے بی چے پی نے یہ نعرہ عام کیا ہوا تھا کہ ”کانگریس مکت بھارت بنادیںگے“ فی الحال کانگریس نے جنوب میں ”بی جے پی “ مکت بھار ت بنادیا ہے، نتیجوں کے مطابق کانگریس نے مطلوبہ اکثریت سے زیادہ سیٹیں حاصل کرلی ہیں، چنانچہ 244سیٹوں والی اسمبلی میں کانگریس کو 136، بی جے پی کو 66، جے ڈی ایس کو 19اور دیگر امیدواروں کو 4 سیٹیں حاصل ہوئیں، ویسے بھی مسلسل جیت نے بی جے پی کا پارہ چڑھا دیا تھا، جیت کے نشہ نے مست ہاتھی کے مانند اس کو مدہوش کردیا تھا، من مانی اور تانا شاہی حکومت چل رہی تھی، لیکن کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اور کانگریس کی واضح اکثریت کے ساتھ جیت نے جہاں بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے اور مودی جی کی کرشمائی شخصیت اور امیت شاہ کی منصوبہ بندی سمیت بہت سارے مفروضی دعوو¿ں کو کھوکھلا کردیا، وہیں یہ ثابت کردیا کہ ابھی بھی ملک کے باسی نفرت اور تفرقہ بازی اور پھوٹ کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ، ملک کی ترقی وسالمیت اور عوام کی سہولیات اور عوام سے کئے ہوئے دعوو¿ں کوزمینی سطح پر عمل جامہ پہنانے پر ہی ان کو جیت سے دو چار کرتے ہیںاوران ہی کے سر پر جیت کا تاج رکھتے ہیں، زبانی دعوے ، کھوکھلے وعدوں کی پول ایک نہ ایک دن کھل جاتی ہے ، ان کی حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے ۔
/13 مئی کو صبح ہی سے یہ پتہ چل چکا تھا کہ کانگریس کو واضح اکثریت ملنے والی ہے، دوپہر تک تصویر واضح ہوگئی، جس کے بعد کرناٹک کانگریس کے سربراہ ڈی کے شیو کمار گھر کی بالکونی میں آئے، کانگریس کا جھنڈا لہرایا اور کارکنوں کے سامنے ہاتھ جوڑے، وہ میڈیا کے درمیان 12بجے کے درمیان پہنچے تو جذباتی ہوگئے ، آنسوو¿ں پر قابونہ پاسکے ، کہاکہ : سونیا گاندھی جیل میں ان سے ملنے آئی تھیں، میں نے ان سے جیت کا وعدہ کیا تھا، ایک بجے کے قریب بی جے پی نے ہار قبول کرلی، وزیر اعلیٰ بسوراج بوم· نے آگے آکر کہا: نتائج کا تجزیہ کریںگے ، پارٹی لوک سبھا انتخابات میںزبردست واپسی کرے گی، وزیر اعظم نریندر مودی نے شام 5:19بجے کانگریس کو جیت کی مبارکبادی دی، حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔
راہول گاندھی دوپہر دوبجے دہلی میں میڈیا کے سامنے آئے، میڈیا کو دفعہ ہیلو کہا اور 2منٹ کا وقت مانگا، پھر بولے : ہم نے نفرت سے نہیں لڑا، کرناٹک نے دکھایا ہے کہ ملک سے محبت ہے ، کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیت پر عوام ، پارٹی کارکنوں اور مقامی لیڈروں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ : اس جیت نے ریاست میںنفرت کا بازار بند کر کے محبت کی دوکان کھول دی ہے ۔
کانگریس کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ کانگریس نے 2023کے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں 34سال کے بعد سب سے زیادہ ووٹ شیئر اور سیٹوں سے کامیابی حاصل کی، 1989میں ویرندر پاٹل کے دور حکومت میں جب کانگریس نے 43.76فیصد وو شیئر کے ساتھ 178سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی تو یہ الیکشن ”کرناٹک میں کسی بھی پارٹی “ کے لیے سب سے بڑی جیت تھی، کرناٹک کی اس جیت نے نہ صرف کرناٹک کے لوگوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے جمہوریت کو ایک نئی زندگی اور نئی جہت دی ہے ، الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعلان کے مطابق کانگریس کو تقریباً 43%بی جے پی کو 36%، جے ڈی ایس کو 13% اور دیگر کو 8% ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
بلکہ تجزیہ نگاروں نے بڑے حیران کن نتائج ان انتخابات سے وصول کیے ہیں، جس میں کانگریس کی کامیابی کی اہم وجوہات اور بی جے پی فیاکٹ کی ناکامی کی وجوہات کا بھی جائز ہ لیا ہے، راہول گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ نے کانگریس کے اندر ایک جان اور روح پھونک دی تھی، اس ”بھارت جوڑویاترا“ کاکانگریس کی کامیابی پر بڑا اثر پڑا، چنانچہ یہ کہا جارہا ہے کہ ”بھارت جوڑو یاترا“ جہاں سے گزری ان میں سے 20سیٹوں میں سے 15سیٹوں پر کانگریس کو کامیابی ملی، راہول گاندھی نے اپنی ”بھارت جوڑوا یاترا“ ٹامل ناڈوکے کنیا کماری سے شروع کی تھی اور یہ سفر سری نگر میں ختم ہوا تھا، کانگریس سابق صدر راہول گاندھی نے کرناٹک میں اپنے 21 دنوں کے دوران 511 کلو میٹر کا سفر 30ستمبر 2022سے 19اکتوبر 2022تک کیا تھااور اپنے سفر کے دوران ریاست کے سات اضلاع سے گزرے تھے اور ان سات اضلاع میں سے 51اسمبلی سیٹیںہیں، جن میں نیوز پورٹل ”اے بی پی“ کے مطابق کانگریس نے ان 51میں سے 36سیٹوں میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
اسی طرح بی جے پی کی ہار اور شکست میں بھی کچھ حقائق شامل ہیں، کرناٹک انتخابی مہم کی اصل کشش وزیر اعظم نریندمودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ریلیاں تھیں، بی جے پی کے اعداد وشمار کے مطابق 9125ریلیاں اور 1377روڈ شو منعقد ہوئے ، انتخابی مہم کے آخری دو ہفتوں کے دوران وزیر اعظم مودی نے 42ریلیاں کیں، جب کہ شاہ بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے 30ریلیوں میں حصہ لیا، جن میں 42 حلقوں میں سے صرف 20 پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ، اس طرح وزیر اعظم کی کارکردگی 47 فیصد رہی، پارٹی کی نمبر دو کی شخصیت امیت شاہ کا ریکارڈ اور بھی خراب رہا، انہوں نے جن علاقوں میں ریلیاں کیں، وہاں بی جے پی کی برتری کا فیصد صرف 37فیصد رہا، امت شاہ کی 30ریلیوں میں بی جے پی 19 سیٹوں پر ہار گئی، اور صرف 11سیٹوں پر جیت سکی، ہندو توا اور نفرت کی سیاست انتخابات کے آخری لمحات تک جاری رہی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری لمحے تک نفرت اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے والی سیاست کو جاری رکھا، چنانچہ آخری لمحات میں ” بجرنگ بلی“ کانعرہ لگایا، اور انہوں نے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ جب دوٹ ڈالنے جائیں تو ”جئے بجرنگ بلی“ کانعرہ لگاتے ہوئے بٹن دبائیں، انہوں نے کانگریس کے منشور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے بجرنگ بلی کے عقیدت مندیعنی ”بجرنگ دل“ پر پابندی لگانے کی بات کہی ہے ، بلکہ آگے بڑھ کر بیلاری میں اپنی تقریروں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نفرت اور تعصب بھری فلم ’ ’دی کیرالا اسٹوری“ جو کہ کرناٹک الیکشن میں جیت کے ایک تریاق کے طور پر ریلیز کی گئی، اس کے حوالے سے مودی جی نے کہا کہ اس فلم نے ”لوجہاد“ کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے اور اس نے معاشرے میں دہشت گردی کے اثرات کو واضح کیا ہے ۔
ان انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کا خوب ساتھ دیا، اس لیے کہ بی جے پی نے صرف مسلمانوں کے خلاف ہندو برادری کوجمع کرنے کے لیے ہندوتوا ،جئے بجرنگ بلی، حلال وحجاب اور ”لوجہاد“ اور دی کیرالا اسٹوری کا مدعا اٹھایا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان یکجا ہوگئے۔ اس طرح مسلمانوں نے کانگریس کو 88%فیصد، بی جے پی کو 2% ، جے ڈی ایس کو8%، اور دیگر کو 2%فیصد وٹ دیے، جب کہ کُرباکاسٹ کا 63% ووٹ کانگریس کو، بی جے پی کو 22%فیصد ، جے ڈی یس کو 10%اور دیگر کو 2%فیصد ووٹ حاصل ہوئے، اس کے علاوہ دیگر ذاتوں میںوکالیگا ذات کا کانگریس کو 24% فیصد، بی جے پی کو 25% ، جے ڈی ایس کو 46%اور دیگر کو 5% اور لنگا یت ذات کا کانگریس کو 20%، بی جے پی کو 64%جے ڈی ایس کو 10%فیصد اور دیگر کو 6%فیصد حاصل ہوا۔اس طرح جہاں دیگر ذات اور برادری اور ہندو مذہب کے لوگوں نے کانگریس کا خوب ساتھ دیا، وہیں مسلمانوں نے 88% فیصد ووٹ کانگریس کو دے کر اس کو یک طرفہ جیت دلائی ۔ اس سے جہاں یہ تصویر صاف ہوتی ہے مسلمانوں کا آپسی اتحادبڑی طاقت رکھتاہے اور مسلمان ملک میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اپنے اتحاد اور سالمیت اور یکجائی کے ذریعہ کسی بھی بڑی سے بڑی فسطائی طاقت کو شکست سے دو چارکرسکتے ہیں، وہیں پارٹیوں کو اپنے اتحاد کے ذریعہ یہ بات بتلائی کہ انہیں ملک کی سیاست میں اس طرح نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ بہر حال کرناٹک الیکشن میں کانگریس کی شاندار کامیابی سے ملکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے ، البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ دیاجائے، مسلمانوں کے تئیں نفرت کو فروغ دے کر تخت نشیں ہونے کو ضرور ی نہ سمجھا جائے بلکہ بنا کس تفریق مذہب وملت کے ملک کی سالمیت بقا، یکجہتی ، اتحاد واتفاق اور ملک کی ترقی وعروج کے لیے کام کیا جائے تو پھر ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتاہے۔