ڈاکٹر وسیم باری
1258 کے بغداد اور آج کے ہندوستانی مسلمانوں میں یوں تو بہت سارے پہلو ہیں جن میں فرق واضح ہے۔ چاہے وہ ایمان کا معاملہ ہو، علمِ دین کا ہو، دنیاوی علم کا ہو، تہذیب و تمدن ہو یا معاشی ترقی، مذکورہ ہر معاملہ میں آج کے ہندوستان کا مسلمان 1250 کی دہائی کے بغدادی مسلمان سے کہیں کم تر ہے۔ ایک پہلو ہے جو دونوں وقتوں اور دونوں مقامات کے مسلمانوں میں مشترک ہے۔ وہ ہے غفلت ! آج کا مسلمان بھی اپنے نفس کی خاطرداری میں مشغول ہے اور 1250 کی دہائی کے بغداد کے مسلمان کو بھی یہ قطعی گمان نہ تھا کہ ہلاکو خان نام کی کوئی ہولناک عفریت بھی ہوگی جو شہرِ بغداد کو مسلمانوں کے خون سے غسل کرائے گی۔ غفلت ہم مسلمانوں میں سرایت کر گئی ہے۔ اس کی اصل وجہ حضورِ پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ایک حدیثِ پاک سے ملتی ہے۔ اس حدیثِ نبویﷺ کا مفہوم یوں ہے ” حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا عنقریب تم پر ہر طرف سے قومیں اسطرح ٹوٹ پڑیںگی جیسے کھانہ کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہماری یہ حالت قلت تعداد کے سبب ہوگی۔ آپﷺ نے فرمایا تم تعداد میں بہت زیادہ ہوگے۔ لیکن تمہاری حیثیت سمندر کے جھاگ کی سی ہوگی۔ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا رعب نکل چکا ہوگا۔ اور تمہارے دلوں میں وھن پیدا ہوجائے گا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ وھن کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا زندگی سے محبت اور موت سے کراہت۔“ اپنے آس پاس رونما ہونے والے واقعات ہی دراصل ہماری غفلت کے پیمانے کو پرکھنے کے لیے کافی ہیں۔ کشمیر سے 370 ہٹالیا گیا۔ بابری مسجد کا اکثریتی فیصلہ آیا۔ جابجا مسلمانوں کے ساتھ لنچنگ کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ مسلمانوں کو گاو¿ں سے نکال باہر کرنے کی باتیں ہورہی ہےں۔ شریعت و مذہبی معاملات میں دھڑلے سے مداخلت ہورہی ہے۔ مسلم لڑکیوں کو بے حجاب کرنے کی سعی جاری ہے۔ بلڈوزر سے مسلمانوں کے محلے زمین دوز کئے جارہے ہیں۔ ایک مسلمان کو تاعمر زندان نشین کرنے کے لیے کسی جرم کی نہیں بلکہ صرف جرم کا بہانہ ہی کافی ہے۔ مسلمان خواتین کو اپنے وحشی پن کی غذاءبنانے والوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جارہے ہیں۔ ایسے کئی سانحے ہیں جو ہمارے لئے محض واقعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔کسی معاملے میں ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی!
جمہوریت جب اکثریت کی لونڈی بن جاتی ہے تب اقلیتوں کا وجود خطرے میں ہوتا ہے۔ اکثریت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر جمہوریت جب کسی کے لیے عتاب بن جائے تو مظلومین کے لیے جمہوریت کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے احتجاج اہم وسیلہ ہوتا ہے۔ظلم کے خلاف مستحکم احتجاج اکثریت کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ اقلیتیں بیدار ہیں۔ اکثریتیں ان کے معاملات میں من مانی نہیں کر سکتی۔ اپنے حق کے لیے لڑنا، پُر امن طریقے سے احتجاج کرنا، اس طرح کے معاملات مسلم معاشرے سے کافور ہیں۔ حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مکی دور پُر امن احتجاج کی ایک بہترین مثال ہے۔ جسے گاندھی جی نے بھی بھارت کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل بنایا اور1947 کو اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ آپ کو مکہ شریف میں انتہائی پُر امن احتجاج کے باوجود مقابل سے شدید تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سو یہ اصول آج بھی لاگو ہے۔ ہم زندگی کے عاشق بن گئے اور موت کا سامنا ہم نہیں چاہتے۔ اس کا ایک اہم سبب اپنے نفس کی تابعداری ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے غافل ہونے کے اسباب اور بھی ہیں۔
بھارت کی آزادی کچھ لوگوں کے لیے ہندو راشٹر کی سمت ایک مثبت قدم تھا۔ انھیں میں سے بہت سے یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آزاد بھارت میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہندو راشٹر کے قیام میں ایک مضبوط رکاوٹ ہے۔ لہٰذا دو قومی نظریہ اس وقت کے سیاسی ماحول میں پروس کر ہندوستان کی تقسیم کی داغ بیل ڈال دی گئی تھی۔ اس نظریہ کے شیدائی مفاد پرست مسلمانوں کے علاوہ کچھ خوش فہم مسلمان بھی ہوگئے۔ خوش فہم مسلمانوں نے ایک مثالی اسلامی ملک کے تخیل کو ذہن نشین کرلیا۔ بھارت کی تقسیم کرکے مسلمانوں کی جھولی میں ایک ٹکڑا ڈال دینے کی شدید خواہش ہندوستانی سیاسی ماحول میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ اس کے دور رس اثرات مسلمانوں کو بڑا شدید نقصان پہنچانے والے تھے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ہندوو¿ں نے نہ صرف بھارت میں رہ گئے مسلمانوں کو تقسیمِ ہند کا ذمہ دار قرار دیا بلکہ ملک کا غدار کہہ کر مشکوک ہونے کا تمغہ دائمی طور پر پوری مسلم قوم کے گلے میں ڈال دیا۔ شعوری ولاشعوری طور پر بھارت کے مسلمانوں نے خود کو تقسیمِ ہند کا گنہگار سمجھ لیا۔ وہ مسلمان جو بھارت میں رہ گئے حالانکہ بڑی تعداد میں تھے، لیکن یہ سوچ کر کہ ہمیں تو ہمارا حصہ دے دیا گیا، اپنے ہی ملک کو خود کے لیے پرایا کرلیا اور احساسِ کمتری و احساسِ ندامت میں غرق ہوگئے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر شمس الاسلام نے اپنی کتاب ’تقسیمِ ہند کے مخالف مسلمان‘ میں لکھا ہے کہ ”ملک کی تقسیم نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ان کی شناخت کا سنگین بحران پیدا کردیا۔“ شہرہ آفاق مو¿رخ محمد مجیب کے بیان کی نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد مسلمان ” بھارت میں ایک انتہائی کمزور اقلیتی طبقہ بن کر رہ گئے۔ وہ تعداد کے لحاظ سے کم نہیں تھے، لیکن ان کی حالت بہت نازک ہوگئی، ایک الگ ملک پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد یقینا ان کا اعتماد شک و شبہ کے دائرے میں آگیا اور ان کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کے اندھیرے میں گم ہوگیا۔“ بھارت کی تقسیم ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی۔ اس کا ہدف بھارت کے مسلمان تھے۔ انکی شناخت کو تحلیل کرنا تھا۔ ان کے وجود کو مشکوک کرنا تھا۔ وار نہایت ہی پُر اثر تھا لہٰذا کافی کامیاب رہا۔ بھارت کے مسلمان خود ہی اپنے آپ کو دوسرے درجے کے شہری کے زمرے میں گرداننے لگے۔ نتیجتاً رعب جاتا رہا۔
بھارت سے انگریزوں کے انخلاءکی جدوجہد کا آغاز مسلمانوں نے بالکل اسی وقت سے کردےا تھا جب انگریزوں نے بھارت میں قدم بھی نہیں جمانے پائے تھے۔ 1757 میں بنگال کے نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کے خلاف جنگِ پلاسی میں علم بلند کیا تھا۔ 1764 کی جنگِ بکسر جس میں انگریزوں کے خلاف اودھ کے نواب شجاع الدولہ، مغل فوج کی جانب سے مرزا نجف خان اور بنگال کے نواب میر قاسم اہم کردار ہیں۔ 1763 میں صوفی مجنو شاہ کی تحریکِ فقراءنے شمالی و جنوبی بھارت میں لگ بھگ 30 برسوں تک انگریزوں کو پریشان کیے رکھا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ٹیپو سلطان انگریزوں کے لیے عذابِ جان بنے رہے۔ یہاں تک کہ 1799 میں ان کی شہادت کے بعد ہی انگریزوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کا خواب دیکھا۔ 1806 میں ویلور کے مقام پر فرزندانِ ٹیپو سلطان، ہولکر اور حیدرآباد کے نظام کی ایماءپر انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں کی پہلی بغاوت تحریکِ فقراءکا ہی شاخشانہ تھی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں سید احمد شہیدؒ نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے اللہ کے دین کو بھارت کے ایک حصے پر غالب کرنے کی کوشش کی۔ ۶ مئی 1831کو سید احمد شہیدؒ کی شہادت کے بعد مولانا ولایت علیؒ عظیم آبادی کی قیادت میں اس تحریک نے ہندوستان سے انگریزوں کے انخلاءکے لیے اپنی جان و مال کی ان گنت شہادتیں پیش کیں۔ اس تحریک کے تحت رضاکاروں کی جو حیرت انگیز تربیت و تنظیم کی گئی اس کی بے لوث تعریف اس تحریک کے سب سے بڑے دشمن سر ولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ’مسلمانانِ ہند‘ میں کی ہے۔ اس بابت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی مختصر تحریر ”تحقیق و انصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ“ اور مولانا محمد جعفر تھانیسری کی کتاب ”کالا پانی“ ملاحظہ ہو۔ اس تحریک میں شامل مسلمانانِ ہند کا بھارت کی آزادی کے لیے جذبہ¿ شہادت اس حد تک تھا کہ پھانسی کی سزا سن کر شہادت کی جو خوشی ان مسلمانانِ ہند نے ظاہر کی اس کے چلتے انگریزوں نے ان کی سزا کو کالے پانی کی سزا میں بدل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ جس سزا میں خوشی ہو وہ سزا نہیں ہو سکتی۔ ہنٹر نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ 1857کے غدر میں سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہاد کی بچی کھچی چنگاریاں کام کررہی تھیں۔ اصغری بیگم، بی اماں، بیگم حضرت محل، اشفاق اللہ خاں، مسلم نواب، علمائ، صوفی، فقرائ، دانشور، سیاسی رہنما، عام مرد و خواتین، ریشمی رومال تحریک، خدائی خدمتگار تحریک، غرض 1857کی جنگِ آزادی اور اس کے بعد 1947تک کئی نام اور آزادی کی ان گنت تحریکیں ہیں جن میں مسلمانوں نے ہی نمایاں کردار ادا کیا۔ جن کی تحریر کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔ خود ہنٹر نے لکھا ہے کہ مسلمانانِ ہند بھارت میں برطانوی حکومت کے لیے طویل عرصے تک شدید خطرہ کا باعث بنے رہے۔ اس کی معقول وجہ بھی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظلم کا سہنے والا، ظلم کو ہوتے دیکھنے والا، برائی کو نہیں روکنے والا اور برائی کو برا نہیں سمجھنے والا یہ تمام گنہگار کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ باتیں زمانہ¿ قدیم کے مسلمانوں کے دل و دماغ میں پیوست تھیں۔ آج کا بانفس انسان ان تمام باتوں سے عاری ہے۔ قرآن شریف کے نزول میں سب سے پہلا لفظ ’اقرائ‘ ہے۔ اور ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا۔ مطالعہ علم کا اہم ذریعہ ہے۔ لاعلمی فطرت میں ہلکے پن کا باعث ہے۔ معیاری فطرت، نیک عمل و رعب کو جنم دیتی ہے۔بھارت کی جدوجہدِ آزادی میں حصہ لینے والوں میں سے 95300 نام دہلی کے انڈیا گیٹ پر تحریر ہیں۔ ان میں سے 61945نام مسلمان مجاہدین کے ہیں یعنی 65%مجاہدینِ آزادی مسلمان ہیں۔ مشہور مصنف خشونت سنگھ نے لکھا ”ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کے خون سے لکھی ہوئی ہے کیوں کہ بھارت کی آبادی میں ان کا فیصد کم ہونے کے باوجود جدوجہدِ آزادی میں ان کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔“ ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ کے مطالعے کے بعد ہمیں یقینا ادراک ہوگا کہ معروف شاعر راحت اندوری نے یونہی تو نہیں کہا تھا ” کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑے ہی ہے۔“
جمہویت اکثریت کی رائے کا نام ہے۔ لیکن وہ رائے ایمان، عقل و اخلاق کی کسوٹی پر ہونی چاہیے ورنہ یہ اکثریت نسل یا مذہب جیسے ابعاد پر طئے ہونے لگتی ہے۔ نتیجتاً انھیں ابعاد کی بنیاد پر اقلیت کا جنم ہوتا ہے اور شروع ہوتا ہے اکثریت واقلیت کے درمیان پنجہ آزمائی کا کھیل۔ ہر مسلمان پیارے نبی ﷺ کا پختگی سے پیروی کرنے والا ہو تو وہ نہ ہی زندگی سے محبت کرے گا اور نہ ہی موت سے کراہت۔ اور نہ ہی اس کا رعب جاتا رہے گا۔ عصرِ حاضر میں ہندوستانی مسلمانوں کا واحد بہترین حل یہی ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری طرزِ حکومت میں اپنے وجود کی بقاءخطرے میں ہو تو اپنے حقوق کے حصول کے لئے پُر امن احتجاج ایک اہم وسیلہ ہے۔ جامع و پختہ احتجاج کے لیے اتحاد شرط ہے۔ قوم میں اتحاد کا قیام قائد کو جنم دیتا ہے۔ قوم میں اختلاف کے باوجود قابل و حاضر جواب قائدِملت اگر میسر ہے تو یہ قائد کی ذمہ داری ہے کہ وہ منتشر قوم کے مختلف لوگوں کو اپنی عقل و حکمت کے ذریعے قائل کرے۔ ایماندار و عاقل قائد قوم کی بقاءکا ضامن ہوتا ہے۔ بگڑتے ماحول میں منتشر قوم کہ لیے بھی لازمی ہوجاتا ہے کہ سیاسی قائدِ ملت جو میسر ہے اسی کی پیروی کریں اور باقی اللہ پر توکل کریں، کیوں کہ مسلسل تنگ ہوتے ماحول میں ہم جیسی منتشر قوم کے لیے کوئی اور عہدِ وفا نظر نہیں آتا!
٭٭٭