ایک ڈاکٹر کے قبول اسلام کی داستان
ہمارا خاندان اپنی مسلم دشمنی میں مشہور رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ ہمارے خاندان کی ایک شاخ تقریباً سو سال پہلے مسلمان ہوکر فتح پور اور پرتاب گڑھ میں جا کر آباد ہوگئی تھی، جو بہت پکے مسلمان ہیں، ادھر ہماری بستی میں تیس سال پہلے بستی کے زمین دار کی چھوت چھات سے تنگ آکر آٹھ دلت خاندانوں نے اسلام قبول کیا تھا ان دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے خاندان میں مسلم دشمنی کے جذبات اور بھی زیادہ ہوگئے تھے۔
مشرقی یوپی میں بستی ضلع کے گائوں کے زمیندار کے یہاں میری پیدائش 13 اگست 1957 ء میں ہوئی۔ میرے چچا یوپی پولیس میں ڈی ایس پی تھے۔ ان کی خواہش پر پولیس میں بھرتی ہوگیا۔ دوران ملازمت 1982ء میں، میںنے بی کام اور 1984 میں ایم اے کیا۔ یوپی کے 55 تھانوں میں انسپکٹر تھانہ انچارج رہا۔ 1990 میں پروموشن ہوا، سی او ہوگیا۔ 1997ء ایک ٹریننگ کیلئے فلور اکیڈمی جانا ہوا، تو اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب اے اے صدیقی صاحب نے جو ہمارے چچا کے دوست بھی تھے، مجھے کرمنا لوجی میں پی ایچ ڈی کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے چھٹی لے کر 2000 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1997ء میں میری پرفارمنس( ملازمت میں بہتر کارکردگی) کی بنیاد پر خصوصی پروموشن ڈی ایس پی کے عہدہ پر ہوگیا اور میری پوسٹنگ مظفر نگر میں خفیہ پولیس کے محکمہ میں ہوگئی، خاندان میں الحمدللہ تعلیم کا رواج رہاہے، آج کل میں مشرقی یوپی میں ایک ضلع ہیڈ کوارٹر میں محکمہ پولیس کا ذمہ دار ہوں۔
ہمارا خاندان اپنی مسلم دشمنی میں مشہور رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ ہمارے خاندان کی ایک شاخ تقریباً سو سال پہلے مسلمان ہوکر فتح پور اور پرتاب گڑھ میں جا کر آباد ہوگئی تھی، جو بہت پکے مسلمان ہیں، ادھر ہماری بستی میں تیس سال پہلے بستی کے زمین دار کی چھوت چھات سے تنگ آکر آٹھ دلت خاندانوں نے اسلام قبول کیا تھا ان دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے خاندان میں مسلم دشمنی کے جذبات اور بھی زیادہ ہوگئے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے زمانے میں اس میں اور تیزی آگئی۔ ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے بجرنگ دل کی ایک برانچ گائوں میں قائم کرلی تھی جس میں سب سے زیادہ ہمارے خاندان کے لڑکے ممبر تھے۔ میں نے یہ باتیں اس لئے بتائیں کہ کسی آدمی کے اسلام قبول کرنے کیلئے مخالف ترین ماحول میرے لئے تھا مگر جس کا نام ہادی اور رحیم ہے، اپنی شان کا کرشمہ دکھانا تھا، اس نے ایک عجیب راہ سے مجھے راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ غازی آبادی ضلع کے پلکھوہ خاندان کے نو لوگوں نے مولانا کے پاس آکر پھلت اسلام قبول کیا۔ دو ماں باپ اور چار لڑکیاں اور تین لڑکے۔ لڑکا شادی شدہ تھا، مولانا صاحب سے ان لوگوں نے کلمہ پڑھوانے کیلئے کہا اور بتایا کہ ہم آٹھ لوگ تو ابھی کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ یہ بڑا لڑکا شادی شدہ ہے اس کی بیوی ابھی تیار نہیں ہے۔ جب اس کی بیوی تیار ہوجائے گی یہ اس کے ساتھ کلمہ پڑھے گا۔ مولانا صاحب نے کہا کہ موت اور زندگی کا کچھ سہارا نہیں ہے۔یہ بھی ساتھ ہی کلمہ پڑھ لے ابھی اپنی بیوی کو نہ بتائے اور اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ پھر وہ دوبارہ کلمہ پڑھ لے۔ مولانا صاحب نے ان سب کو کلمہ پڑھوایا اور ان کی فرمائش پر ان سب کے نام بھی اسلامی رکھ دیئے۔ ان لوگوں کے کہنے پر ایک پیڈ پر ان کے قبول اسلام اور ان کیلئے ناموں کا سرٹیفکٹ بنا کردے دیا۔ ان لوگوں کو بتا بھی دیا کہ قانونی کارروائی ضروری ہے اس کیلئے بیان حلفی تیار کراکے ڈی ایم کو رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجنا اور کسی اخبار میں اعلان نکالنا کافی ہوگا۔ یہ لوگ خوشی خوشی وہاں سے گئے اور قانونی کارروائی پکی کرالی۔ بچوں کو مدرسہ میں داخل کرادیا۔ بڑی لڑکیاں اور ماں عورتوں کے اجتماع میںجانے لگیں۔
مسلمان عورتوں کو معلوم ہوا تو انہوںنے خوشی سے مٹھائی تقسیم کردی۔ لڑکے کی بیوی کو معلوم ہوگیا اس نے اپنے میکے والوں کو خبر کر دی۔ ایک سے ایک کو خبر ہوتی گئی اور ماحول گرم ہوگیا۔ علاقہ کی ہندو تنظیمیں جوش میں آگئیں۔ ٹی وی چینل کے لوگ آگئے، دیکھتے دیکھتے خبر پھیل گئی۔ دینک جاگرن اور امراجالا دونوں ہندی اخباروں نے چار کالموں کی بڑی بڑی خبریں چھاپیں، جن کی سرخیاں تھی، لالچ دے کر دھرمانترن پر پوری ہندو برادری میں روش، مانترن پھلت مدرسہ میں ہوا۔ اس خبر سے پورے علاقے میں گرمی پیدا ہوگئی، میری پوسٹنگ مظفر نگر میں تھی، علاوہ اپنی دفتری ذمہ داری کے مجھے خود اس خبر پر غصہ آیا اور ہم اپنے دو انسپکٹروں کو لیکر پھلت پہنچے، وہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا اور بتایاکہ مولانا صاحب ہی صحیح بتا سکتے ہیں اور ہمیں اطمینان دلایا کہ ہمارے یہاں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا۔ مولانا صاحب سے آپ ملیں وہ آپ کو بالکل حق بات بتادیںگے۔ میں نے اپنا فون نمبر وہاں دیا کہ مولانا صاحب سے معلوم کرکے مجھے بتائیں کہ وہ پھلت کب آرہے ہیں۔
تیسرے روز مولانا صاحب کا پھلٹ کا پروگرام تھا، 6 نومبر 2002 ء کی صبح 11 بجے ہم پھلت پہنچے۔ مولانا صاحب بہت خوشی سے ہم سے ملے۔ ہمارے لئے چائے، ناشتہ منگوایا، بولے بہت خوشی ہوئی، آپ آئے۔ اصل میںمولوی، ملائوں اور مدرسوں کے سلسلہ میںبہت غلط پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، میں تو اپنے ساتھیوں اور مدرسے والوں سے بار بار یہ کہتا ہوں کہ پولیس والوں، ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں اور سی آئی ڈی، سی بی آئی کے لوگوںکو زیادہ سے زیادہ مدرسوں میں بلانا بلکہ چند دن مدرسوں میںمہمان رکھنا چاہئے تاکہ وہ اندر کے حال سے واقف ہوجائیں اور مدرسوں کی قدر پہچانیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک دن پہلے بھی آئے تھے۔ مجھے ایک سفر پر ادھر ہی سے جانا تھا مگر خیال ہوا کہ آپ کو انتظار کرنا ہوگا، اس لئے میں صرف آپ کیلئے آج آگیا ہوں، مولانا صاحب نے ہنس کر کہا۔ فرمائیے میرے لائق کیا سیوا ہے۔
میں نے اخبار نکالے اور معلوم کیا کہ آپ نے یہ خبر پڑھی ہے؟ مولانا صاحب نے بتایا کہ رات مجھے یہ اخبار دکھایا گیا تھا۔ میں نے امراجالا میں یہ خبر پڑھی ہے، میں نے کہا : پھر آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ مولانا صاحب نے بتایا کہ میں ایک سفر پر جارہا تھا، گاڑی میں سوار ہورہا تھا کہ ایک جیپ گاڑی آئی۔ مجھے سفر کی جلدی تھی، میں نے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لوگ حضرت جی سے ملنے آئے ہوںگے۔ ان کو ادھر قاری حفظ الرحمن صاحب کا پتہ بتا دو مگر ایک صاحب جانتے تھے، کہا ہمیں کسی دوسری جگہ نہیںجانا ہے۔ ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی اپنے گھر والوں کیساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔اور ایک مہینہ سے پریشان ہیں۔ میں گاڑی سے اترا ان کو کلمہ پڑھوایا ان کے زیادہ کہنے پر ان کے اسلامی نام بھی بتائے اور ان کو ایک سرٹیفکیٹ بھی قبول اسلام کا دیا اور ان کو بتا دیا کہ قانونی کارروائی پکی تب ہوگی جب آپ بیان حلفی تیار کرکے ڈی ایم کو اطلاع کریںگے اور ایک اخبار میںاعلان کردیںگے اور اچھا ہے کہ ضلع گزٹ میں دے دیں۔ جو سچ تھا میںنے آپ کو بتا دیا۔ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان اس کو کہتے ہیں صرف سچ بیان کرے، سارے سچوں سے سچا ہے ہمارا مالک اور اس کے بھیجے ہوئے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میںیہ غلط فہمی ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے رسولؐ اور ان کیلئے مالک کے سندیش واہک تھے۔
حالانکہ قرآن پاک میں اور آپؐ کی حدیثوں میں صرف یہ بات ملتی ہے کہ ہم سب کے مالک کی طرف سے بھیجے ہوئے سارے انسانوں کی طرف آخری اور سچے رسولؐ ہیں، وہ ایسے سچے تھے کہ ان کے دین کے اور ان کی جان کے آخری دشمن بھی کبھی ان کو جھوٹا نہ کہہ سکے، بلکہ دشمنوں نے آپ کو لقب ’’الصادق، الامین، دیا۔ ہمارا وشواس یہ ہے دن ہورہا ہے اور ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ یہ آنکھیں دھوکہ دے سکتی ہیں، یہ بات جھوٹ ہوسکتی ہے کہ دن ہورہا ہے مگر ہمارے رسولؐ نے جو ہمیں خبردی ہے اس میں ذرہ برابر غلطی، دھوکا یا جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ہمارے رسولؐ نے یہ خبر دی ہے کہ ساری دنیا کے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لئے ساری دنیا کے انسان آپس میںخونی رشتہ کے بھائی ہیں۔
شاید آپ کے یہاں بھی یہی مانا جاتا ہے۔میں نے کہا :یہ بات تو ہمارے یہاںبھی مانی جاتی ہے، مولانا نے کہا یہ تو بالکل سچی بات ہے، ہم اور آپ خونی رشتہ کے بھائی ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ میرے چچا ہوں یا میںآپ کا چچا ہوں، مگر آپ کے درمیان اور ہمارے بیچ خونی رشتہ ہے، اس خونی رشتہ کے علاوہ آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی انسان، انسان وہ ہے جس میںانسیت ہو، یعنی محبت ہو اور ایک دوسرے کی بھلائی کا جذبہ ہو، اس رشتہ سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں، کہ ہندو دھرم ہی اکیلا مکتی کا راستہ اور موکش کا طریقہ ہے، تو آپ کو مجھے اس رشتہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہندو بنانے کی جی جان سے کوشش کرنی چاہیے اور اگر آپ انسان ہیں اور آپ کے سینے میں پتھر نہیں ہے، دل تو ہے اس وقت تک آپ کو چین نہیں آنا چاہیے جب تک میںغلط راستہ چھوڑ کر مکتی کے راستہ پر نہ آجائوں۔ مولانا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بات ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا بالکل سچ بات ہے۔
اس حال میں اگر میں انسان ہوں اور میں آپ کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی سمجھتا ہوں تو جب تک آپ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہیں ہوں گے مجھے چین نہیں آئے گا۔ یہ بات میںکوئی ناٹک کے طور پر نہیںکہہ رہاہوں، تھوڑی دیر کی اس ملاقات کے بعد اس خونی رشتہ کی وجہ سے اگر مجھے رات سوتے سوتے بھی آپ کی موت اور جہنم میں جلنے کا خیال آئے تو میں بے چین ہو کر بلکنے لگوں گا۔ اس لئے آپ پلکھوہ والوںکی فکر چھور دیجئے۔ جس مالک نے پیدا کیا ہے جیون دیا ہے، اس کے سامنے منہ دکھانا ہے، میرے درد کا علاج تو جب ہوگا جب آپ تینوں مسلمان ہوجائینگے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے حال پر ترس کھائیں، آپ تینوں کلمہ پڑھیں، میں عجیب حیرت میں تھا، مولانا صاحب کی محبت جیسے جادو ہو، میںایسے خاندان کا ممبر ہوں۔
جس کی گھٹی میں مسلمانوں، مسلم بادشاہوں اور اسلام کی دشمنی پلائی گئی ہے اور اس خبر کے سلسلہ میں حددرجہ برہم ہو کر میںگویا مخالف انکوائری کے لئے فیصلہ کرکے پھلت گیا تھا اور مولانا صاحب مجھے نہ اسلام کے مطالعہ کو کہتے ہیں، نہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے کہتے ہیں،نہ ہی سیدھے سیدھے مسلمان ہونے کے لئے کہہ رہے ہیں۔اور میرا ضمیر گویا مولانا صاحب کی محبت کے شکنجہ میں جیسے بالکل بے بس ہو، میں نے کہا کہ بات تو بالکل سادی اور سچی ہے اور ہمیں سوچنا ہی پڑے گا مگر یہ فیصلہ اتنی جلدی کرنے کا تو نہیں مولانا صاحب نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ آپ اور ہم سب مالک کے سامنے ایک بڑے دن حساب کیلئے اکٹھا ہوںگے تو اس وقت اس سچائی کو آپ ضرور پائیںگے کہ یہ فیصلہ بہت جلدی میںکرنے کا ہے اور اس میں دیر کی گنجائش نہیں اور آدمی اس میں جتنی دیر کرے گا پچھتائے گا۔ پتہ نہیں پھر زندگی فیصلہ لینے کی مہلت دے یا نہ دے اورموت کے بعد پھر افسوس اور پچھتاوے کے علاوہ آدمی کچھ نہیںکرسکتا۔ بالکل یہ بات سچ ہے کہ ایمان قبول کرنے اور مسلمان ہونے سے زیادہ جلد بازی میںکرنے کا کوئی اور فیصلہ ہو نہیں سکتا۔
میرے اندر سے جیسے کوئی کہہ رہا تھا رام کمار اسلام میںضرور کوئی سچائی ہے جو مولانا موصوف کے اندر یہ وشواش ہے۔ مولانا صاحب کبھی بہت خوشامد اور کبھی ذرا زور سے بارہاہم لوگوں سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کیلئے کہتے رہے۔ جب مولانا خوشامد کرتے تو مجھے ایسا لگتا جیسے کسی زہر کھانے کا ارادہ کرنے والے یا آگ میںکودنے والے کوہلاکت سے بچانے کیلئے کوئی ہمدرد،کوئی ماں خوشامد کرتی ہے۔
مولانا صاحب ہمیں باربار کلمہ پڑھنے پر زور دیتے رہے، میں نے وعدہ کیا ہم لوگ ضرورغور کریںگے، ہمیںپڑھنے کے لئے بھی کچھ دیجئے۔مولانا نے اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی۔
میں نے گھرجاکر ‘‘ کتاب‘‘ پڑھی،محبت، ہمدردی اور سچائی اس کے لفظ لفظ سے پھوٹ رہی تھی۔ مجھے اس کتاب کو پڑھ کر لگا کہ ایک بار پھر میری ملاقات مولانا صاحب سے ہوگئی ہے۔ اس کے بعد باربار میرے اندر مولانا صاحب سے ملاقات کی ہوک سے اٹھتی رہی، اسلام کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ میں مظفر نگر میں ایک دکان سے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لے کر آیا۔ میں نے فون پر مولانا صاحب سے اس کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مولانا صاحب نے کہا دیکھو قرآن مجید کو آپ ضرور پڑھیں صر ف اور صرف یہ سمجھ کر پڑھیے کہ میرے مالک کا بھیجا ہوا یہ کلام ہے اور آپ نہا کر پڑھیں۔ پاک کلام کا پاک نور، پاک اور صاف ستھری حالت میںپڑھنا چاہیے۔ دوہفتوں میں میں نے پورا قرآن مجید پڑھ لیا۔ اب میرے لئے مسلمان ہونے کیلئے اندر کے دروازے کھل گئے تھے۔ میں نے پھلت جا کر مولانا صاحب کے سامنے کلمہ پڑھا۔ مولانا صاحب نے میرا نام ’’ رام کمار ‘‘ سے بدل کر میری خواہش پر محمد حذیفہ رکھا اور بتایا کہ ہمارے نبیؐ اپنے ایک صحابی کو رازداری اور جاسوسی کے لئے بھیجا کرتے تھے، مجھے اس لحاظ سے یہ نام بہت اچھا لگا۔
میرا ٹرانسفر الٰہ آباد ہوگیا۔ اپنی پوسٹنگ کے دوران میںنے اپنی بیوی کو بہت کچھ بتا دیا جو بہت فرمانبردار بھولی بھالی عورت ہیں۔ اس نے میرے فیصلہ کی ذرا بھی مخالفت نہیںکی بلکہ میرے ساتھ ہر حال میں رہنے کا وعدہ کیا۔ میں نے ان کو بھی کتابیں پڑھوائیں ہماری شادی کو دس سال ہوگئے تھے مگر کوئی اولاد نہ تھی، میں نے اس کو لالچ دیا کہ اسلام قبول کرنے سے ہمارا مالک ہم سے خوش ہوجائے گا اورہمیں اولاد بھی دے گا۔ اولاد نہ ہونے کے غم میںوہ بہت گھلتی رہتی تھی۔ وہ اس بات سے بہت خوش ہوگئی۔ ایک مدرسہ میں لے جا کر اس کو کلمہ پڑھوایا میں نے اپنے اللہ سے بہت دعا کی۔ میرے رب، میں نے آپ کے بھروسہ سے اس سے وعدہ کرلیا ہے۔ آپ میرے بھروسے کی لاج رکھئے اور اس کو چاہے ایک ہی ہو اولاد دیجئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اللہ نے گیارہ سال کے بعد ہمیں ایک بیٹا دیا اور تین سال کے بعد ایک اور بیٹی بھی ہوگئی ہے۔
اسلام سے بڑی کوئی سچائی نہیں ہے اور جب یہ ایسی سچائی ہے تو اس کے ماننے والوں کو نہ اس پر عمل کرنے میں ڈرنا چاہیے نہ اس کو دوسروں تک پہنچانے سے رکنا چاہیے۔ تھوڑی بہت مخالفتیں آئیں گی۔ ہمارے مولانا صاحب کہتے ہیں۔ اندھیرے کبھی اجالے پر حاوی نہیں ہوتے۔ اجالا ہی غالب ہوا کرتا ہے۔ کبھی کبھی جب روشنی کی کمی ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ اندھیرے چھا گئے اور غالب آگئے مگر ذرا اجالے کیجئے اندھیرے نو دوگیارہ ہوجاتے ہیں۔بس میرا یہ ماننا ہے اور یہی پیغام ہے کہ فتح ہمیشہ روشنی والوںکی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی طرح عار کے بغیر اسلام کی دعوت دینی چاہیے اور بغیر لالچ کے سچی ہمدردی کا حق ادا کرنے کی نیت سے دعوت دی جائے تو مجھ جیسے اسلام اور مسلم دشمنی میں پلے، مخالفانہ انکوائری کا فیصلہ کرنے والوں کو جب ہدایت ہوسکتی ہے تو بھولے بھالے سادہ دماغ لوگوں پر اثر نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
٭٭٭