طنز و مزاحمضامین

بکرے کی ماں کب تک….

نصرت فاطمہ

بقرعید گزر چکی اور بکرے بھی قربان ہوکر ہضم ہوچکے۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز ِ عید ِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
(انشا اللہ خاں انشائ)
یہ شعر بکرے کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے کہ قربان بھی میں ہوجاﺅں اور ثواب تو انسان کمالے۔ خیر بکرا کچھ بھی کہے، ہمارے فریزر ان کی نشانیوں سے آباد ہیں۔
کہیں پائے جلے بھنے بیٹھے ہیں تو کہیں ”بوٹی“ اپنے آپ میں الجھی پڑی ہے اور باقی اعضاءمثلاً کلیجی وغیرہ تو جناب، اماں کا کلیجہ کھانے کی بات ہو یا بکرے کی کلیجی کی بات ہم دونوں معاملات میں ہی کبھی پیچھے نہیں رہے.. ادھر قربانی ہوئی نہیں کہ کلیجی چولہے پر..
بقرعید کو جلدبازی میں بکرعید بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ بچپن میں تو ہم ‘ک’ اور ‘ق’ کے فرق کو بالائے طاق رکھ کر دھڑلے سے "بکرید” کہتے تھے۔ جب شعور آیا تو بقر کے معنی سمجھ میں آئے کہ گائے، بیل کو بقر کہتے ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ
ہماری گنہگار آنکھوں نے( واٹس ایپ پر) دیکھا کہ کچھ لاعلم(اردو زبان سے لا علم)معصوموں نے عید الفطر کا کارڈ عید الاضحٰی پر بھیج دیا۔ اب ہم نہیں کہتے کہ نام سے کیا ہوتا ہے۔
اور اس عید کو بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔ گوشت کی مقدار( پلیٹ میں بھی اور پیٹ میں بھی) اور کھانے کی دیگیں دیکھ کر واقعی میں ” بڑی عید“ کہنا مناسب لگتا ہے۔
اس عید سے زبان کے چٹخارے کا ایک الگ ہی تعلق ہے۔ یہ تہوار بڑا ہی لذیذ ہوتا ہے اور، ہم کو طرح طرح کے کبابوں اور بھنی ہوئی رانوں کی طرف راغب کرتا ہے۔
ہاں تو ذکر ہے عید الاضحی کا یعنی عید قرباں کا۔ جس دن قربانی تو ہم جانوروں کی کردیتے ہیں، مگر اپنی انا جیسے جانور کو قربان کرنے کا نہیں سوچتے۔ اس کو غلط فہمیوں کی آغوش میں پال پوس کر بڑا کرتے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں اس کی قربانی کا دن کب آئے گا۔جس دن ہم اپنی انا کو بھی قربان کرنا سیکھ جائیں گے، اس دن شاید قربانی کے اصل مقصد کو پا لیں گے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی عید قرباں کی۔ جس کے اصل ہیرو تو قصائی صاحبان ہوتے ہیں اور اس عید کے روز کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے تو کیا ہمارے لیے بھی قیمتی ہوتا ہے۔ ان کی صحیح معنوں میں قدر اس دن پتہ چلتی ہے اور ان کی اس قدرومنزلت کو دیکھ کر ہی غالباً کہا گیا کہ
ریٹ تیرے سن کے میں حیران ہوگیا
قصائی کی فیس پوچھی تو پریشان ہوگیا
خیر ، اس لگاتار بارش اور ٹھنڈ کے موسم میں ان کے اس محنت طلب پیشہ اور کام پر انہیں سلام۔
پچھلے دو سال سے بقرعید اور بارش کا انوکھا سنگم دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں جائیں وہاں یہ ذکر وفکر کہ ”کباب “ کیسے سوکھیں گے اور ہم سوچتے رہ گئے کہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے یہ۔کچھ ایجادات ہو جانی چاہیے تھیں اس تعلق سے۔ ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر گردش کررہا ہے کہ نیچے ایک الاو جل رہا ہے اور اوپر ایک اسٹینڈ نما چیز پر بڑے سلیقے سے کباب لٹکائے گئے ہیں.۔اتنی محنت وہ بھی کباب سکھانے کے لیے؟ ہم تو یہ کہیں گے کہ عید کے تینوں ہی دن بارش، شاید یہ پیغام لے کر آئی تھی کہ ”کباب نہیں ثواب کمائیں“ اور عید کا احساس ا±نہیں کروائیں جنہیں گوشت سال کے اسی عرصے میں نصیب ہوتا ہے۔ یہی ”عید قرباں“ کا اصل مقصد بھی ہے۔ ہم مسلمانوں کا گوشت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ کچھ دن بلحاظ مجبوری یا بیماری گوشت نہ کھا سکیں تو ایمان خطرے میں محسوس ہوتا ہے کہ ” تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے۔“ یہ الگ بات کہ انداز مسلمانی تو ہم سے کافی کچھ تقاضا کرتا ہے۔ جن میں سرفہرست تو ایمانداری ہے۔ چاہے وہ گوشت کے حصے بنانے میں ہی کیوں نہ ہو۔ ایک لطیفہ بھی ان دنوں اس تعلق سے سننے میں آیا کہ پھپھو کے گھر گوشت کا چھوٹا پیاکٹ اور خالہ کے گھر بڑا۔ اگر قسمت سے وہ پھوپھی کسی کی خالہ ہوئی تو ٹھیک ورنہ بیچاری پھوپھی جان…. انٹرنیٹ سے یاد آیا کہ ہم نے ایک بکرے کا اپنے مالک سے مل کر روتا ہوا ویڈیو دیکھا اور اس جذباتی منظر نے ہماری بھی آنکھیں نم کردیں۔ ایک بے زبان جانور کی محبت کا یہ انداز اور اظہار بڑا ہی متاثر کن لگا۔ویسے بکری ہو یا بکرا ہمیں بڑے معصوم سے لگتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ہم نے بچپن میں پڑھی تھی کہ چاہے کتنی ہی مجبوری کیوں نہ ہو، ہر کسی کی باتوں میں نہیں آناچاہیے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ اتفاق سے ایک لومڑی کنویں میں گر پڑی۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی ہر طرح کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ ابھی وہ کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک بکری پانی پینے کے لیے وہاں آ نکلی۔ بکری نے لومڑی سے پوچھا، ”اے بہن! یہ بتاو¿ کہ پانی کیسا ہے؟“
لومڑی نے جواب دیا، ”پانی بہت ہی اچھا ہے۔۔ ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔ میں نے خود اتنا پی لیا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں بیمار نہ پڑ جاو¿ں۔“یہ سن کر پیاسی بکری نے آو¿ دیکھا نہ تاو¿، جھٹ سے کنویں میں کود گئی۔ موقع غنیمت جان کر لومڑی پھرتی سے، بکری کے سینگوں کا سہارا لے کر کنویں سے باہر آ گئی اور بکری وہیں رہ گئی۔ کالم شروع تو ہوا تھا عید قرباں کے ذکر سے، لیکن جب عوام کا اوہ ہمارا مطلب ہے بکروں کا ذکر نکلا تو ہم تھوڑے جذباتی ہو گئے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ بکروں کا یہی حال رہا تو بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔