ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے تاملناڈو کے شہر کنیا کماری سے 7 ستمبر2022کو جس "بھارت یاترا "کا آغاز کیا تھا وہ اپنی 3,570کلو میٹر کی مسافت طے کرتے ہوئے 30 جنوری 2023کو کشمیر کے شہر سری نگر میں اختتام پذیر ہوئی۔ 150روزہ اس طویل یاترا کے دوران راہول گاندھی اور ان کے قافلہ نے 12ریاستوں اور 2مرکزی زیر انتظام علاقوں کا احاطہ کیا۔ یاترا کے اختتام پر سری نگر کے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں ایک بڑی ریالی منعقد کی گئی جس میں ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین نے شرکت کر تے ہوئے اس بات کی اپیل کی کہ ملک سے فاشسٹ قوتوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے سیکولر پارٹیوں کو متحد ہونا ضروری ہے۔ راہول گاندھی نے قبل ازیں 29 جنوری کوسری نگر کے تاریخی لال چوک پر قومی پرچم لہرانے کے بعد ہندی میں ٹوئٹ کیا تھا کہ لال چوک پر ترنگا لہرا کر آج ہندوستان سے کیا گیا وعدہ وفا ہوا ۔ نفرت ہارے گی اور محبت ہمیشہ جیتے گی اور ملک میں امید کی نئی صبح ہوگی۔زائد از 4ہزار کلو میٹر طویل یاترا کے مقصد کو بتاتے ہوئے راہول گاندھی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ یاترا انہوں نے اپنے لئے یا کانگریس کیلئے منظم نہیں کی بلکہ اس کا مقصد اُ س آئیڈیالوجی کے خلاف کھڑے ہونا تھاجو ملک کی بنیاد کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس لیڈر نے کشمیریوں کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ کشمیر میں ان پر حملہ ہو سکتا ہے لیکن یہاں کے عوام نے انہیں ہینڈ گرینیڈس سے حملہ نہیں کیا بلکہ ڈھیر ساراپیار دیا۔ واقعی کشمیر میں بھاری برفباری اور کڑاکے کی ٹھنڈ کے باوجودعوام نے راہول گاندھی کا زبر دست استقبال کیا اور خاص طور پر جب راہول گاندھی لال چوک پر ترنگا لہرا رہے تھے، عوام کا ایک جّم غفیر ان کے اطراف جمع تھا۔ جس وقت راہول گاندھی نے اپنی یاترا کا آغاز کیا تھا ، یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ راہول گاندھی اور ان کے ساتھی اتنا لمبا سفر نہیں کر سکیں گے۔ مودی حکومت کی جانب سے بھی مختلف مرحلوں پر بھارت جوڑو یاترا کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسیس کی جانب سے لاپروائی برتی گئی جس کی وجہ سے یاترا کو روکنے کی بھی نوبت آئی تھی۔ لیکن راہول گاندھی نے جس عزم کا اظہار کیا تھا وہ اس یاترا کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ کانگریس گزشتہ دس سال سے جس شکست و ریخت کے دور سے گزر رہی ہے، اس میں جان ڈالنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ کانگریس قیادت کوئی ٹھوس اقدامات کر تی۔ راہول گاندھی نے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے 3.5 ہزار کلو میٹر سفر طے کیا۔ اس دوران ملک کے عام شہریوں سے ان کی جو ملاقات رہی اس سے انہیں اندازہ ہوا کہ ملک کے عام شہریوں کے مسائل کیا ہیں اور وہ کس درد اور تکلیف سے اپنی زندگی کے دن پورا کر رہے ہیں۔ یاترا کے دوران راہول گاندھی نے دانشوروں اور صحافیوں سے بھی بات چیت کی اور ان کے سامنے ملک کی حقیقی صورت حال کا نقشہ پیش کر تے ہوئے ان سے سوال کیا کہ وہ اس ملک سے نفرت مٹانے کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ملک کی خواتین بھی ان کے قافلہ میں شریک ہوکر اپنے مسائل ان کے سامنے رکھتی رہیں۔ مجموعی حیثیت سے بھارت یاترا نہ صرف راہول گاندھی کی شخصیت کو نکھارنے کا ذریعہ بنی بلکہ کانگریس پارٹی کا عوام سے رابطہ پھر قائم ہوگیا۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک میں فسطائی طاقتیں سیاسی مفادات کے لیے سماج کو تقسیم کرنے کاکام کر رہی ہیں، ایسے وقت محبت کے پیغام کو عام کرنے کوئی کوشش کسی بھی طرف سے ہوتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کو ملک کے ہر امن پسند شہری کی تائید ملی اور جہاں جہاں سے یہ یا ترا گزری عوام نے والہانہ انداز میں اس کا استقبال کیا۔ جب یہ یاترا کشمیر میں داخل ہوئی تو اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ وہاں وہ عوامی تائید سے محروم رہے گی، لیکن غیر متوقع طور پر کشمیریوں نے راہول گاندھی سے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے بھارت جوڑو یاترا کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے علاوہ کشمیر کی سرکردہ شخصیات کی شمولیت نے بھارت یا ترا کے اختتام کو ایک یادگار لمحہ بنادیا۔ بی جے پی حکومت راہول گاندھی کی اس یاترا کو روکنے کے لئے کئی حربے اختیار کرتی رہی ۔ کبھی کورونا کا بہانہ کیا گیا اور کبھی راہول گاندھی کی سیکورٹی کو لے کر یاترا کو روکنے کا مشورہ دیا گیا، لیکن راہول گاندھی نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی اس تاریخی یاترا کو جا ری رکھا۔ موسم کی خرابی یا انتظامیہ کی جانب سے مناسب بندوبست نہ ہونے کے باوجود یہ پیدل چلتے رہے اور ملک کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔ بی جے پی کو شروع دن سے ہی اس یاترا کی مقبولت کا اندازہ تھا ۔ اس لیے اس کے بڑے قائدین سے لے کر چھوٹے لیڈر بھی راہول گاندھی پر فقرے کَستے رہے اور جب بھی موقع ملا یاترا کا مذاق اُڑاتے رہے۔ جیسے جیسے یہ یاترا بڑھتی رہی اسے عوامی تائید ملتی گئی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض کسی سیاسی پارٹی کی یاترا نہیں رہی بلکہ سماج کے ہر طبقہ نے اس میں حصہ لیا۔ اس طرح یہ ایک عوامی تحریک بن گئی۔ اس میں عوام کے جوش و خروش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ یاترا آنے والے دنوں میں ملک سے نفرت اور مذہبی منافرت کوختم کرنے میں ایک مہمیز کا کام دے گی۔ اس یاترا کے ذریعہ عوام تک یہ پیغام گیا کہ آیا ملک نفرت اور تعصب کے ذریعہ ہی چلایا جا سکتا ہے یا پھر پیار و محبت اور آپسی تعاون و ہمدردی کی ملک کو ضرورت ہے۔ راہول گاندھی نے ہر موقع پر اس بات کو دہرایا کہ حکمران طبقہ ملک کے حقیقی مسائل کو چھوڑ کر ہندو۔ مسلم کی رَٹ لگایا ہوا ہے۔ ملک کا گودی میڈیا بھی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے دانستہ طور پر ملک کے ماحول کو ہندو۔ مسلم کے نام پر پراگندہ کر رہا ہے۔ راہول گاندھی کا یہ ریمارک بھی قابل توجہ ہے کہ ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد بھی انہوں نے کہیں نفرت اور تشدد کو نہیں دیکھا۔ یہ ٹی وی چینلوں کی کارستانی ہے کہ وہ ہندو۔ مسلم پر مباحث کروا کر ملک کے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاناچاہتے ہیں۔ میڈیا میں اس پر کوئی مباحث نہیں ہو تے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کیوں بے روزگا ر ہیں؟بازار میں قیمتیں ہر روز کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟کوئی ٹی وی چینل سوال نہیں اٹھاتا کہ بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیوں پورا نہیں ہوا؟راہول گاندھی نے اس قسم کے سوالا ت اپنی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ حکومت سے کرتے ہوئے اسے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اس لیے بی جے پی حکومت یہ چاہتی تھی کہ اس یاترا کو روک دیا جائے، لیکن اس کاکوئی حربہ کام نہ آیا۔ راہول گاندھی اپنے مشن میں کا میاب ہو گئے۔ ملک کے عوام نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کر تے ہوئے ان کا ساتھ دیا۔ یاترا کے اختتام پر راہول گاندھی نے بھی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بے پناہ پیار نے ہی انہیں حوصلہ بخشا۔ وہ شروع میں سوچ رہے تھے کہ آیا کنیاکماری سے کشمیر تک کی ان کی بھارت یاترا کا خواب پورا بھی ہوگا یا نہیں؟ یاترا کے دوران ان کے اور ان کے ساتھیوں کے پیر وں پر چھالے آگئے اور وہ سوچتے تھے کہ دوسرے دن وہ چل پائیں گے یا نہیں ۔ لیکن کوئی نہ کوئی جذباتی واقعہ اس دوران ہوجاتا جو انہیں ایک نیا حوصلہ عطا کرتا اور پھر دوسرے دن اسی عزم کے ساتھ وہ یاترا کے لئے نکل پڑتے۔ یہ دراصل عوام کی محبت ہی تھی جو راہول گاندھی کو حوصلہ اور ہمت دیتی رہی۔
اب جب کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ختم ہو چکی ہے۔ آیا کانگریس اپنے قائدکی اس طویل اور صبر آزما جدوجہد کے ثمرات حاصل کر سکے گی۔ اس سال ہونے والے نو ریاستی اسمبلیوں میںاور 2024کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے اثر سے کانگریس ریاستوں میںحکومت بنانے میں کا میاب ہوجائے گی۔ ملک کی بڑی ریاستوں جن میں کرناٹک ، راجستھان اور مدھیہ پردیش شامل ہیں وہاں کانگریس کا گراف گھٹے کا یا بڑھے گا۔ راہول گاندھی اور کانگریس کے دیگر قائدین نے بارہا اس بات کو دہرایا کہ الیکشن سے بھارت جوڑو یاترا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس یاترا کے کوئی سیاسی مقا صد نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ماننا ممکن نہیں ہے کہ راہول گاندھی نے سیاسی مقاصد کے پیش نظر یہ یاترا نہیں نکالی ہے۔ کانگریس ایک سیاسی پارٹی ہے اور سیاسی پارٹی کا ہر عمل سیاسی ایجنڈہ کے تحت ہو تا ہے۔ اور یہ کوئی غلط بات نہیں کہ کانگریس راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے سیاسی فائدہ اٹھائے۔ بی جے پی کو جو سیاسی طاقت ملی وہ دراصل اسی نوعیت کی یاترا کا نتیجہ ہے۔ قارئین کو یا د کو ہوگا کہ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تحریک کے دوران بی جے پی لے لیڈر لال کرشن ادوانی نے 1990 میں راتھ یاترا نکالی تھی۔ انہوں نے دس ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ایک ایر کنڈیشنڈ رتھ میں طے کیا تھا۔اڈوانی کی یہ یاترا آگ اور خون کا کھیل کھیلتی ہوئی ملک کے مختلف علاقوں سے گزری تھی۔ اسی رتھ یاترا نے پورے ملک میں فرقہ پرستی کا وہ بیج بودیا تھا کہ آج اس کے زہریلے پھل ہندوستانی عوام کو کھانے پڑ رہے ہیں۔ اسی رتھ یاترا کو منظم کرکے ہندوتوا طاقتوں نے بابری مسجد کو ڈھادیا تھا اور پھر اقتدار پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ راہول گاندھی کی یاترا بھی اپنا سیاسی اثر ڈالنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ راہول گاندھی کی اس یاترا سے پہلے خود کانگریس میں سر پھٹول چل رہی تھی۔ کانگریس کے سینئر قائدین لگاتار پارٹی قیادت اوربالخصوص راہول گاندھی پر تنقید کررہے تھے۔ بعض تو اس معاملے میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے پارٹی ہی چھوڑدی۔ کپل سبل اور غلام نبی آزاد جیسے قائدین نے کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا۔ اب کانگریس میں راہول گاندھی کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا سے جہاں کانگریس کے تعلق سے عوام کے دلوں میں نرم گو شہ پیدا ہوا ہے وہیں راہول گاندھی کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آئی ہے۔ اب ملک کے سیاستدانوں کو بھی اندازہ ہوا کہ کانگریس قائد میں کتنا دَم خَم ہے۔ اب تک یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ کانگریس جیسی قدیم پارٹی کی قیادت راہول گاندھی نہیں سنبھال سکتے اور ابھی وہ ملکی سیاست میں بھی منجھے ہوئے سیاستدان نہیں کہلائے جا سکتے۔ لیکن راہول گاندھی نے اپنی 3.5ہزار کلو میٹر سے زائد یاترا کو طے کر کے بتادیا کہ وہ کوئی کمزور سیاستدان نہیں ہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا وہ اس کا شعور بہت اچھی طرح رکھتے ہیں۔ موسم کی پروا نہ کرتے ہوئے 12 ریاستوں سے گزرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان پورے 150 دنوں کے دوران کبھی کسی جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عوام کے ہر طبقہ کے ساتھ وہ گھل مل گئے۔ بچوں سے لے کر معذرو افراد بھی ان کے قافلہ میں شامل تھے۔ ان کی سادگی اور سنجیدگی سے بھی کافی لوگ متاثر ہوئے۔ ان سب کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر کانگریس کے قائدین راہول گاندھی کی اس یاترا کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے میں کا میاب ہو تے ہیں تو پھر اس یاترا کے مثبت اثرات بھی الیکشن کے موقع پر ظاہر ہوں گے۔ دیکھنا یہی ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کا ملکی سیاست میں دوبارہ احیاءہوگا یا نہیں اور یہ یاترا ملک میں سیکولر پارٹیوں کو متحد کرنے میں کتنی کامیاب ہوگی۔٭٭