سیاستمضامین

بھارت میں تبدیلی کا سراب‘ ملک ہٹلر کے نقش قدم پر

محمد انیس الدین

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
دنیا تغیر پذیر رہی ہے اور یہ تغیر ہی خوبصورتی اور ترقی کی علامت ہے۔ تغیر کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ تغیر ہی کی بنیاد پر دنیا ترقی کے منازل اور مراحل طئے کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ لیکن عوام کے اذہان میں یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری امر ہے کہ کیا یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی۔ اگر یہ رونما ہونے والی تبدیلی انسانی زندگیوں میں سکون و طمانیت کی ضامن ہے تو اس کو مثبت تبدیلی سمجھا جائے گا اور اگر یہ تبدیلی اس کے برعکس ہو تو پھر سارا معاشرہ انتشار اور بدنظمی‘ لا قانونیت اور بربادی کے نذر ہوجائے گا۔ جرمنی میں ایک مطلق العنان حاکم روڈلف ہٹلر کے نام سے تھا اس نے بھی دنیا میں تبدیلی لانے کے عزم کا نعرہ لگایا تھا اور اس حاکم نے اپنی شعلہ بیانی‘ جھوٹ اور عیاری سے سارے جرمنی کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا اور عوام کو پورے یورپ پر جرمنی کے تسلط کا خواب دکھا کر سارے جرمن عوام کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا اور یہ سوچ میں تھا کہ سارے یورپ پر ایک ہزار سال تک اپنی حکمرانی جاری رکھے گا۔ ابتداء میں ہٹلر کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن حاکم کا خواب چکنا چور ہوا وہ سارے عالم پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہٹلر نے تبدیلی کے نعرہ کو نسلی امتیاز اور بالادستی اور پنے ذاتی مقاصدکیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ‘ یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور ہٹلر نے وطن پرستی ‘ نسل پرستی کے جذبہ کو فروغ دیا جو دوسری جنگ عظیم کا سبب بنا جس میں ہٹلر کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہٹلر کو ذلت آمیز معاہدہ کرنا پڑا جس کی بناء پر جرمن عوام کی آزادی دوسروں کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ آمرانہ اور جابرانہ روش سے معاشرہ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اس روش کو چھوڑنا ہوگا‘ تبدیلی ہر انسان کی فطری خواہش ہے۔ لیکن کیا تبدیلی کی خاطر اپنا نظریہ اور خفیہ منصوبہ بندی پر عمل کرنے کیلئے ملک کے آئین‘ قانون ضابطہ اور ملک میں جاری جمہوریت کو قدموں تلے روندنا ‘ کیا آئین اور قانون اور دوسرے مذاہب کا مذاق اڑانا‘ کیا اپنے ہی عوام کو بلی کا بکرا بنانا ‘ کیا بابائے قوم کی نہ صرف توہین بلکہ تبدیل کرنا ‘ آئین کا مذاق اڑانا اور معشرتی روایات کو حقیر سمجھنا چاہیے۔ معاشرہ میں تبدیلی کی بات مندرجہ بالا رویوں کے خلاف ایک منظم صدا بلند ہوتی ہے۔ جب عظمت انسانی کو پامال کیا جاتا ہے اور عدل و انصاف ایک مخصوص گروہ کے لئے مختص ہوجاتا ہے تو تبدیلی کا نعرہ عوامی نفرت کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔
بھارت میں سیاست کا اپنا ایک الگ انداز اور رنگ و روپ ‘ ایک روایت اور شناخت تھی۔ عوامی حقوق کی جنگ ہمیشہ آئینہ اور قانون کے دائرہ میں رہتی تھی اور کوئی بھی اس دائرہ سے باہر آکر آئین اور قانون کے خلاف نہیں جاتا تھا اور ہر آنے والی تبدیلی آئین اور قانون کے طابع ہوتی۔ حکومت کے فسطائی حربے اور قید و بند کی صعوبتیں عوام کے عزم و ہمت میں لغزش پیدا نہیں کرسکتی تھیں۔ برصغیر کی تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ آزادی کے متوالوں نے قربانی‘ جرأت کی ایسی داستانوں کو جنم دیا جس کی نوع انسانی داد تحسین پیش کرتی ہے بلکہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور آنے والی نسلوں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ مجاہدین آزادی نے انگریزوں کے ظلم ‘ قید و بند کے مصائب کو برداشت کیا اور مجاہدین اپنے حققوق کیلئے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔ حکومتی ہتھکنڈے اور ظلم و جبر ان کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے۔ یہ حقوق کی لڑائی لڑنے والے جیالے ہر اس رکاوٹ کو عبور کرلیتے جو ان کی راہ میں حائل ہوتی تھی۔ حقوق کے حصول کیلئے احتجاج ‘ جدوجہد اور تحریک ‘ عزم اور حوصلہ کی ضرورت ہے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ ایک فکر‘ سوچ اور پیام ہے جن کے دل میں دستور‘ جمہوریت اور آزادی کا احترام ہے ۔
ہمارے آباء و اجداد نے حصول آزادی کیلئے بے شمار اور ا نگنت قربانیاں پیش کیں اس کی نظیر حصول آزادی کی جدوجہد کی عالمی تاریخ میں ملنا دشوار ہے۔ ملک میں آزادی کی شمع کو روشن کرنے والے بے لوث قائدین میں سرفہرست حسرت موہانی‘ محمد علی جوہر‘ مولانا ظفر علی خاں‘ گاندھی جی‘ ابوالکلام آزاد‘ پنڈت نہرو ‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ باچہ خاں‘ اور ہند بھر کے قابل فخر و احترام علماء اور ا کابرین کی جہد مسلسل اور عزم مصمم اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے ہند میں آزادی کی شمع روشن ہوئی۔ انگریزوں کا جبر اور عیاری بھی ان کے حصول آزادی کے جذبہ کو شکست نہ دے سکا۔ ان کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے پرامن جدوجہد کو حصول مقصد کا ہتھیار بنایا۔ آزادی کے 75سال سیکولرازم کے سہارے گزرگئے لیکن2014ء سے ملک پر زعفرانی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا اور ملک نفرت کی شدت کے حوالے ہوگیا اور جن کو سیکولرازم سے اور مسلمانوں سے بیر تھا کھل کر ان کے مخالف ہوگئے۔ بھارت ذات پات اور نفرت کی سیاست کی نذر ہوگیا اور پڑوسی ملک شدید علاقائی عصبیت کا شکار ہوگیا۔ دونوں ممالک بھی عدل اور انصاف اورجمہوریت سے دور ہوکر فسطائیت کے آغوش میں چلے گئے۔
دنیا کا کوئی بھی ملک اپنی آزادی اور آئین کی دل و جان سے حفاظت کرتا ہے لیکن بھارت کے ایک کوتاہ ذہن اور تنگ دل طبقہ کو ان عظیم قربانیوں سے حاصل ہوئی آزادی پسند نہیں آئی کیوں کہ یہ طبقہ انگریزوں کے دورمیں ان کی غلامی کرتے ہوئے وظائف اور معافی نامہ حاصل کرکے خوش تھا۔ آزادی کے بعد اس ٹولہ کو ترقی ‘ سیکولرازم‘ قومی یکجہتی‘ حب الوطنی راس نہیں آئی اور آزاد ہند کی خوشگوار فضا میں زعفرانی ٹولہ گھٹن محسوس کرنے لگا اور اس ٹولہ نے ملک میں افراتفری ‘ انتشار‘ اور نفرت و حقارت کا ماحول گرم کرکے ملک کے دستور اور جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے اکھنڈ بھارت اور ہندوراشٹر کے خواب کی تکمیل میں مصروف ہوگیا۔ اور ستم بالائے ستم اپنے آباء واجداد کے نظریات کو چھوڑ کر ہٹلر کے غیر ملک نظریات کو اپنا مقصد حیات بنالیا اور بابائے قوم ‘ عظیم مجاہدین آزادی کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ان کی مسلسل توہین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا کسی جمہوری ملک کے عوام اپنے ہی ملک کے دستور کے خلاف ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ محب وطن کہلانے کے مستحق ہیں اس سنگین مسئلہ پر صرف ملک کی عدالت عظمی ہی روشنی ڈال سکتی ہے۔
ہٹلر کے تصورات جو دوسری عالمی جنگ کا موجب بنے ’’ ماین کیمف‘‘ نامی کتاب میں درج ہیں ۔ اس کا مصنف ہٹلر ہے ۔ کچھ اقتباسات بیداری شعور اور آگاہی کیلئے ذیل میں دیئے گئے ہیں۔
٭ کسی بھی معاشرہ میں اگر رائے عامہ کو کنٹرول کرنا ہے تو منظم پروپگنڈے کے ہتھیار کو استعمال کرنا پڑے گا۔
٭ ہٹلر جرمنی کو مشرقی سمت سے توسیع دینے کا خواب دیکھ رہا تھا۔
٭ ہٹلر اپنی کتابوں میں بعض حقائق کو غلط رنگ میں پیش کرتا تھا۔
٭ ہٹلر پارلیمانی جمہوریت کا سخت ترین مخالف تھا اور ملک کی ترقی کے تمام فیصلوں کو شخص واحد کے ہاتھ میں رکھنا چاہتا تھا۔
٭ ہٹلر یہودیوں کا مکمل خاتمہ چاہتا تھا۔
٭ ہٹلر نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک اعلیٰ صفات کا حامل ہے اور وہ ایک سوپر مین ہے۔
٭ یہودیوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔
٭ ہٹلر کی شخصیت میں نسل پرستی سب سے نمایاں عنصر تھی ۔ اس نے اپنی تصانیف میں نسل پرستی کو اپنی فکر کا محور بناکر پیش کیا۔
٭ ہٹلر اس تصور کا حامل تھا کہ آریائی نسل بہترین ہے اور اس نسل کو دنیا پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ نسلی سلسلہ مراتب میں سب سے بلند مقام آرین اور دوسری تمام نسلوں کو کمتر قراردیا۔
٭ ہٹلر یہ چاہتا تھا کہ جرمن نسل میں پیدا ہونے والے بچے بے عیب ہوں‘ اگر کوئی بچہ عیب کے ساتھ پیدا ہوتا تو ہلاک کردیتا تھا۔
٭ ہر حالت میں آریائی نسل کو عالمی اقتدار پر قابض دیکھنا چاہتا تھا۔
٭ ہٹلر ماین کیمف نامی کتاب کا مصنف تھا۔ 1933ء میں اس کے اقتدار میں آنے تک اس کتاب کی 15لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کتاب جرمن نازی پارٹی کے ہر رکن کیلئے مقدس ترین دستاویز کی حیثیت اختیار کرگئی اور پھر یہ کتاب ہر شادی کے موقع پر دلہا دلہن کو تحفہ میں دی جاتی اور سرکاری عہدہ دار بھی اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچاتے۔ سرکاری کتاب خانوں میں بھی یہ کتاب بڑے پیمانے پر رکھی گئی ۔ عوام یہ کتاب صرف ہٹلر کو خوش رکھنے یا اس کے ظلم سے بچنے کیلئے اپنے پاس رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ تک اس کتاب کی ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ جب اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا تو دنیا کو اس کے عزائم معلوم ہوئے۔
٭ ہٹلر یہودیوں سے شدید نفرت کرتا تھا اور کہتا تھا ان سے نفرت ان کے عقائد کا جز بلکہ ایمان ہے۔
ہٹلر سے متعلق بے شمار باتیں ہیں جن کا اس مضمون میں احاطہ نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے ۔ مضمون نگار عوامسے ملتمس ہے کہ وہ ہٹلر کی ذہنیت اور اس کے افکار و خیالات اور تصورات کا بغور مطالعہ کریں اور2014ء سے ملک میں جاری حالات کا ان افکار سے موازانہ کریں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰