جنوبی بھارت

بھوپال میں زائداز 1000 مسلم خاندان بے گھر و بے سہارا ہوگئے

بھوپال میں یونین کاربیٹ فیاکٹری سے بامشکل نصف کیلو میٹر دور رہنے والے زائداز ایک ہزار مسلم خاندانوں کو کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔

بھوپال: بھوپال میں یونین کاربیٹ فیاکٹری سے بامشکل نصف کیلو میٹر دور رہنے والے زائداز ایک ہزار مسلم خاندانوں کو کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ انتظامیہ نے حال ہی میں ایک غیرقانونی کالونی میں بنائے گئے ان کے مکانات کو منہدم کردیا ہے۔

یہ خاندان جو گزشتہ 30 سال سے ریلوے کی زمین پر رہ رہے تھے، ان کی بھوپال گیس المیہ ریلیف فنڈس کا استعمال کرتے ہوئے بازآبادکاری کی جانے والی تھی۔ جاریہ سال فروری میں انتظامیہ نے ان کے مکانات کو منہدم کرنے کی نوٹس جاری کی تھی اور یہ عمل 12 دسمبر سے شروع ہوا۔

گیس کے اخراج کے متاثرین کیلئے کام کرنے والی ایک سماجی کارکن رچنا دھنگڑا نے دعویٰ کیا ہے کہ تقریبا 400 خاندانوں کو وقف بورڈ کی اراضی پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ تقریبا 1100 خاندانوں کے پاس ریلوے ٹریکس سے متصل اراضی پر زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

دھنگڑا نے دعویٰ کیا کہ وہ لوگ گزشتہ 30 سال سے یہاں رہ رہے تھے۔ یہ علاقہ یونین کاربیٹ فیاکٹری سے تقریبا 400 میٹر دور ہے۔ فیاکٹری کے نقصاندہ فضلے کی وجہ سے یہ انتہائی آلودہ علاقہ ہے۔ 2010 میں ریاستی حکومت کو مرکز سے 40 کروڑ روپے فنڈس کے طور پر وصول ہوئے تھے اور یہ فنڈ اِن غریب خاندانوں کی بازآبادکاری کیلئے مختص کیا گیا تھا لیکن اِس رقم کو استعمال نہیں کیا گیا۔

دو متاثرین نے بتایا کہ وہ لوگ ضلع انتظامیہ، مقامی ارکان اسمبلی اور وزراء سے رجوع ہوئے تھے لیکن ہمیں خالی ہاتھ لوٹادیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غریب خاندان، سیاست کا شکار بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریبا 400 خاندانوں کو بھوپال وقف بورڈ کی ملکیت ایک اراضی پر منتقل کیا گیا ہے لیکن آئندہ چند دن میں انہیں متبادل جگہ تلاش کرلینی ہوگی۔

ذرائع نے بتایا کہ انونگر اور سری رام نگر کالونیاں غیر قانونی ہیں اور ریلوے کی اراضی پر قائم کی گئی ہیں۔ ریلویز نے ٹریکس کی توسیع کا منصوبہ بنایا ہے اور اسی لئے اس کی اراضی پر واقع تعمیرات کو منہدم کردیا جائے گا۔

جب آئی اے این ایس نے بھوپال کے ضلع کلکٹر اویناش لوانیا اور ایس ڈی ایمس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی جواب نہیں ملا