طنز و مزاحمضامین

بیوی کے ہجر میں

فکر تونسوی

اچانک میری بیوی نے اعلان کیا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے میکے جارہی ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی بار کہہ چکی تھی کہ اب میں سسرال کو میکہ بھی سمجھتی ہوں اور ادھر میں کئی برس سے اصرار کر رہا تھا کہ میں تمہارے ہجر کی لذت اٹھانا چاہتا ہوں۔ اس لیے تم کہیں دفع ہوجاو¿۔ لیکن وہ کہتی تھی کہ ہجر صرف ایک شاعرانہ تکلف ہے۔ اس سے میرا گھرا جڑجائے گا۔ میری غیر حاضری میں کچن کا ایک چمچہ بھی گم ہوگیا، جو یقیناً گم ہوجائے گا تو تاریخ میں میرا نام سیاہ حرفوں میں لکھا جائے گا۔ گویا وہ ہجر کو ایک چمچے سے زیادہ وقعت نہیں دیتی تھی۔ سالہا سال کے تلخ تجربے کے بعد میں مایوس ہوگیا کہ میری بیوی سے کوئی عقل مندی سرزد نہیں ہوسکتی۔ خداوند کریم سے بھی جتنی رقت انگیز دعائیں مانگیں، سبھی رائیگاں گئیں۔ دراصل میری پرابلم قدرے آرٹسٹک تھی کہ روح کا ذائقہ بدلنے کے لیے ماحول میں کبھی کبھی کوئی تبدیلی ضرور آنی چاہیے۔ بیوی کاہجر بھی ایک طرح کی تبدیلی تھی۔ سنا ہے اس کا ذائقہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ میری پہلی اور آخری بیوی تھی، بلکہ اس کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے میں اسے اکلوتی بیوی بھی کہہ دیا کرتا تھا، لیکن یہ بات بھی نامناسب تھی کہ جب بھی شام کو گھر لوٹتا تو گھر میں وہی پرانی جانی پہچانی بیوی ملتی تھی۔ صرف بیوی ہی نہیں، کچن میں کیتلی بھی وہی ملتی تھی، جسے وہ جہیز میں لائی تھی۔ ایک دن بور ہوکر میں نے بیوی کا بدلہ کیتلی سے لینا چاہا اور کہا، ”اب اسے ریٹائر کردو، بوڑھی ہوگئی ہے!“ وہ بولی، ”نہیں، میں اسے جیتے جی الگ نہ کروں گی، کیوں کہ اسے دیکھ کر ہی مجھے ماں کی شیریں یاد آجاتی ہے۔“ میں نے یہ سوچ کر اپنے دل کو پرچا لیا کہ وہ یا تو کیتلی سے محبت کرتی ہے یا ماں سے، مجھ سے محبت نہیں کرتی۔ مجھے تو صرف گھر کی نیم پلیٹ سمجھتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ گھر نیم پلیٹ کے بغیر بھی مکمل ہے۔ اس دن میں بازار سے ایک سیکنڈ ہینڈسوئیٹر خرید لایا۔ اسے دیکھتے ہی محترمہ کا پارہ گرم ہوگیا کہ میرے مشورے کے بغیر بلکہ میری منظوری کے بغیر یہ سوئیٹر کیوں لے آئے؟ بولیں، ”میں پوچھتی ہوں، کیا یہ سوئیٹر ہے؟ کتنا گھٹیا اور کتنا مہنگا؟“
میں نے چڑ کر کہا، ”ہاں ہاں، میں جولایا ہوں۔“ بولیں، ”تو کیا آپ اس گھر میں کبھی کوئی بھی کام کی چیز لائے ہیں؟“
میں نے کہا، ”ایک تو تمہیں لایا ہوں۔ اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟“ اگر وہ وسیع القلب ہوتی تو اس ٹچ پر مسکرادیتی۔ لیکن اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پلنگ پر جالیٹی اور کہنے لگی، یہ میرے والد صاحب کی غلطی تھی۔ میرا کوئی قصور نہیں ہے۔“ نہ جانے کیوں اسے یقین ہوگیا تھا کہ یہ گھر ایک بیاباں ہے جس میں وہ ایک پھول کی طرح کھلی ہوئی ہے۔ اگر یہ پھول ایک دن کے لیے بھی آوٹ آف اسٹیشن ہوگیا تو یہ گھر پھر بیابان ہوجائے گا۔ اجڑ جائے گا۔ لیکن میرا خیال تھا کہ ہر روز پھول کی خوشبو اور رنگ سے بھی انسان بور ہوجاتا ہے۔ اسی لیے کسی دن گھر کی بیابانی سے بھی لطف اٹھایا جائے۔ بلکہ ہجر کا فائدہ اٹھاکر ایک غزل بھی لکھ لی جائے۔ لیکن آہ میں یہ دیکھ کر قریب قریب مایوس ہوگیا کہ غزلوں کا مستقبل بے حد تاریک ہے، لیکن اس دن یہ اعلان سن کر مجھے حیرت ہوئی اور مسرت بھی کہ وہ ایک ہفتے کے لیے میکے جارہی ہے۔ یعنی میرے سارے اندازے غلط نکلے۔ سوچا میری بیوی اتنی نالائق نہیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ اور کہ اس مٹی سے تو غزلوں کے کئی دیوان اگ سکتے ہیں! ہجر کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اس نے ایک گتے پر ہدایت نامہ خاوند لکھ کر لٹکادیا اور کہا کہ ہر روز صبح اٹھ کر اس کا پاٹھ کیا کرو۔ مثلاً ان میں سے ایک دو ہدایتیں یہ تھیں۔ ہر روز چوہے دان میں پیاز کا ایک ٹکڑا لٹکا دیا کرو۔ ایک پیاز سے کم از کم تین چوہوں کا شکار لازمی ہے۔ پیاز کے اس اسٹینڈرڈ کو قائم رکھا جائے اور میری واپسی پر اعداد و شمار کے ساتھ رپورٹ پیش کی جائے۔ پڑوسن کو مٹی کا تیل سپلائی نہ کیا جائے۔ ہمارے گھر میں اس کی چینی کی ایک پلیٹ موجود ہے لیکن میری عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی لین دین نہ کیا جائے۔۔۔ اور تیسری اور بڑی سیریس ہدایت یہ تھی کہ اول تو اپنے کسی دوست کو گھر میں مدعو نہ کیا جائے اور اگر کوئی اپنی بیوی سے نالاں ہوکر ہمارے گھر میں پناہ لینے کے لیے آبھی جائے تو اسے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سگریٹ پینے سے منع کردیا جائے۔ کیونکہ وہ سگریٹ کی راکھ سے قالین کا بیڑہ غرق کردے گا اور اپنے ملازم کے کان میں چپکے سے کہہ گئی کہ ایسے ہر دوست کا نام، حلیہ اور ایڈریس نوٹ کرلیا کرو۔ میں ان سے قالین کا کلیم وصول کروں گی۔ ریل چھوٹنے سے تین سیکنڈ پہلے دھمکی دے گئیں کہ اگر کوئی ہدایت مجھے میکے میں یاد آگئی تو ٹیلی گرام کے ذریعے بھیج دوں گی۔ بیوی کے جانے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا، ویرانی بے حد رومانٹک ہوتی ہے۔ امن کے فرشتوں نے میری چھت پر پنکھ پھیلادیے اور کہا، ”مبارک ہو!“ غسل خانے میں گھسا تو بے اختیار جی چاہا زور زور سے گانا شروع کردوں۔ محلے سے گزرا تو ہر عورت حسین اور دلکش نظر آئی۔ گھر کی بلی نے آکر مو¿دبانہ سلام کیا اور اس لہجے میں میاو¿ں کی جیسے کہہ رہی ہو، ”مالک دودھ کہاں رکھا ہے؟ ناچیز کوبھوک لگی ہے۔ اجازت دیجیے تاکہ پی لوں۔ میں جانتی ہوں کہ دَسپنا چلانا آپ کے شایانِ شان نہیں۔ دھوبی نے آکر گھنٹی بجائی اور جب میں نے اسے بتایا کہ بی بی جی میکے گئی ہیں تو وہ گستاخ بولا، ”پھر آپ سے تو کوئی بات کرنا فضول ہے۔“ میں نے کہا، ”کوئی حساب کتاب کی بات ہو تو نمٹا سکتا ہوں۔“ لیکن وہ بولا، ”آپ کی سمجھ میں نہ آئے گی۔“ دھوبی کے اس نقطہ نگاہ سے مجھے مشتعل ہوجانا چاہیے تھا لیکن میں نے اس کی گستاخی کو فراخ دلی سے نظرانداز کردیا۔ کیونکہ میں سامراج سے تازہ تازہ آزاد ہوا تھا اور آزاد انسان بہت فراخ دل ہوتا ہے۔ میں آزادی کی فضا میں کھل کر سانس لینا چاہتا تھا۔ کسی سے تنازعہ کرکے اپنے موڈ کو مکدر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے نوکر سے کہہ دیا کہ اب میرا لنچ اور ڈنر باہر ہی رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود تمہاری تنخواہ میں کٹوتی نہ ہوگی کیونکہ میں بی بی جی کی طرح مہاجنی ذہنیت نہیں رکھتا۔ کئی برس بعد پہلی بار ہوٹل کے کھانے میں وہی لطف آیا جو کنوارپنے میں آیا کرتا تھا۔ آہ میں کنوار پنے سے کتنا محروم ہوگیا تھا!
احباب کو بے تکلف دعوت دی کہ آو¿ تاش کھیلو، سگریٹیں پھونکو، بستروں پر شکنیں ڈالو، بلکہ ایک آدھ پلنگ کا پایہ بھی توڑسکتے ہو! چائے کے کپ پر کپ لنڈھاو¿، کسی رولزاینڈ ریگولیشنز کے بغیر بے مہابا نشکام سروس کی جائے گی۔ رات کو بہت لیٹ آنے میں ایک سرور آنے لگا۔ چینٹیوں نے گھر کے دانے دنکے پر مسلسل حملے شروع کردیے، لیکن انہیں ڈسٹرب نہیں کیا۔ چڑیاں میرے گھر کو اپناآبائی دیش سمجھ کر گھونسلے پر گھونسلے بنانے لگیں اور سارے کمروں میں خس وخاشاک بکھیردیے، لیکن میں نے ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ضروری نہ سمجھا۔ یہاں تک کہ ایک چڑیا بار بار چڑے بدل بدل کر لاتی رہی لیکن پھر وہی ذاتی معاملہ۔ چوہے تک میری فراخ دلی سے شیر ہوگئے۔ وہ چوہے دان کو اپنے دانت دکھا کر یوں گزرجاتے جیسے کہہ رہے ہوں، ”سیاں بھئے کوتوال، اب ڈر کاہے کا! البتہ ایک فرق ضرور ہوا کہ بیوی کے چلے جانے کی خبر سن کر کوو¿ں نے آنا بند کردیا کیونکہ ان کا راشن ڈپو ہی میکے میں اٹھ گیا تھا۔ تین چاردن اس آزادی بلکہ آزادہ روی میں ہنسی خوشی، پلک جھپکتے گزرگئے تو پانچویں دن اچانک خیال آیا کہ ہجرت کی لذت تو اٹھائی نہیں۔ ہجر تو اللوں تللوں میں گزر گیا اور محترمہ پرسوں لوٹ بھی آئیں گی اور آتے ہی پوچھیں گی، ”کہاں لکھی ہے وہ غزل؟ اور لکھی بھی ہے یا ایک قیمتی ہفتہ ضائع کردیا؟ لیکن شادی کے بعد میں نے شاعری کو جلاوطن کردیاتھا، اس لیے بیوی کے نام ایک ہجریہ خط لکھنا ہی مناسب سمجھا اور خط لکھنے لگا،
”اے جان بہاروخزاں!
جب سے تم گئی ہو، کوﺅں نے تمہارے فراق میں کائیں کائیں کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بادل صرف گرج گرج کر رہ جاتے ہیں، برستے نہیں۔ نہ جانے انہیں کیا غم ہے۔ چاندنی چھٹکتی ہے تو دھاڑیں مارنے کو جی چاہتا ہے۔ کل تان پور ے کے تاروں کو چھیڑا تو وہ جیسے کرلاکرلا کر کہنے لگے، ”لوٹ کے آ، لوٹ کے آجا میرے میت! اور پیاری! سب سے بڑا ظلم تو یہ ہوا ہے کہ بینگن مہنگے ہوگئے۔ راشن ڈپو پر گھٹیا آٹا ملنے لگا۔ غرض تمہارے بغیر کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں رہی۔ یہاں تک کہ کل الماری میں تمہارا گہنوں کا ڈبہ دیکھا تو وہ بھی غائب تھا! چور لے گئے یا تم اپنے ساتھ لے گئیں۔ جب تک تم لوٹ کر نہیں آتیں، میں تھانے میں گہنوں کی رپٹ نہیں لکھا سکتا۔ اس لیے آجاو¿ آجاو¿۔ میری خاطر نہ سہی گہنوں کے ڈبے کی خاطر ہی آجاو¿۔“
یہ ہجریہ خط لکھ کر لفافے میں بند کیا اور بیوی کا ایڈریس لکھا کہ دھڑاک سے دروازہ کھلا اور بیوی اندر داخل ہوئی۔ بولی، کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے کہا کچھ نہیں ایک بے معنی سا خط ہے۔ لیکن تم اتنی جلدی کیوں واپس آگئیں؟ بولی، کل رات میں نے سپنا دیکھا کہ آپ کو مچھر کاٹ رہے ہیں۔ دوہتڑ مار کر کہا، ”ہائے! میں بھی کتنی نالائق بیوی ہوں۔ مچھردانی تو ا سٹور میں بند کر کے رکھ آئی ہوں۔ سوچا چلوں انہیں مچھردانی تو نکال کر دے آو¿ں۔“
مہجور بیوی کے اس غیر ضروری وصال پر سارا پانسہ ہی پلٹ گیا اور محترمہ نے ایک ہی دن میں اپنا اقتدار بحال کردیا۔ ہجر کی ساری سرگرمیاں پس منظر میں چلی گئیں۔ میں ”سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے!“ بن کر رہ گیا کہ اچانک دوسری صبح کو پوسٹ مین عرف نامہ برنے مجھے ایک لولیٹر لاکردیا۔ یہ خط بیوی نے میکے سے شام کو پوسٹ کیاتھا اور اسی رات کو مچھردانی کا خواب دیکھ کر صبح گاڑی پر سوار ہوکر گھر لوٹ آئیں تھیں۔ یعنی جنون محبت میں کیفیت کچھ ایسی ہوگئی کہ خط بعد میں پہنچا، محبوبہ پہلے پہنچ گئی! میرے منہ سے بے اختیار (بیوی کی حمایت میں) غالب کا یہ شعر نکل گیا،
خدا کے واسطے داد اس جنون شوق کی دینا ٭ کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
یہ خط نہیں تھا، ہجر کا اینٹی کلائمکس تھا۔ اور اس میں لکھا تھا،
”بڑے پپو، چھوٹے پپو، منی نمبر ایک اور منی نمبر ۲ کے اباجی!
میں یہاں بچوں سمیت خو ش ہوں۔ امید ہے آپ بغیر بچوں کے خوش ہوں گے۔ بچے ہر روز آپ کو یاد کرتے ہیں۔ بچے ہیں نا؟ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ انہیں لاکھ سمجھاتی ہوں کہ اگر تمہارے ابا کو تمہاری یاد ستائے گی تو بھاگے آئیں گے۔ لیکن وہ پہلے ہی میری کوئی بات نہیں مانتے تھے، اب کیا مانیں گے۔ دراصل آپ ہی نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ جب میں انہیں لے کر گھر لوٹوں گی تو ان ضدی بچوں کی پٹائی ضرور کیجیے گا تاکہ انہیں سبق مل جائے۔ باقی یہاں پر خیریت ہے۔ آپ کی خیریت کی چنتا رہتی ہے کہ نہ جانے آپ نے میرے بغیر گھر کا کیا حال بنارکھا ہے۔ پانی کا نل کبھی کھلا مت چھوڑیے گا۔ بستر پر سگریٹ کی راکھ جھاڑنے سے پرہیز کیجیے گا۔ میں پلنگ کے ساتھ والی تپائی پر ایش ٹرے رکھ آئی تھی۔ کپڑے میلے ہوجائیں تو انہیں فرش پر اور کونوں کھدروں میں مت پھینک دیجیے گا، کیونکہ اس طرح چوہوں کو کترنے کا گولڈن چانس مل جاتا ہے۔ مجھے رہ رہ کر شک ہوتا ہے کہ وہ لمبی ناک والی پڑوسن میری عدم موجودگی سے شہ پاکر اپنے چوہے ہمارے گھر کی طرف ہانک دے گی۔ آپ کو اپنے گھر کے اور پڑوس کے چوہوں کی پہچان رکھنی چاہیے۔ اور انہی باتوں کے خدشے سے میکے میں میرا جی نہیں لگتا۔ ہرلمحہ جی چاہتا ہے پرلگاکر اڑ جاو¿ں اور آپ کے پاس پہنچ جاو¿ں۔ یہاں نیپال سے اسمگلنگ کی ساڑیاں آئی ہوئی ہیں۔ سستی بھی ہیں اور خوبصورت بھی۔ میں نے ایک ساڑی خریدلی ہے۔ اجازت نامہ بھیج دیجیے اور ہاں آپ کے لیے اسمگلنگ کاایک اونی سوٹ خریدلیا ہے۔ شادی کی سالگرہ پر آپ کو پیش کروں گی۔ لیکن سلواو¿ں گی جنیجہ اینڈ کمپنی سے۔ آپ کے پرانے ٹیلر ماسٹر تھریجہ اینڈ کمپنی سے نہیں۔ وہ تو لٹیرے ہیں۔ اور کیا لکھوں؟ آپ گھر کے حالات لکھیں تو میں بھی ان کی روشنی میں آپ کو کچھ مزید لکھ سکوں۔ چھوٹی منی کے ننھے منے انگوٹھے کا عکس اس خط پر بھیج رہی ہوں، اسے چوم لینا۔ میں نے چوم لیا ہے۔ فکر نہ کریں۔
آپ کی….بڑے پپو، چھوٹے پپو، منی نمبر ایک اور منی نمبر دو کی ماں۔۔۔“
(دستخط اصلی ہیں)