مضامین

بی جے پی حکومت کے مخالف اقلیتی بہبود اقدامات،ایک جائزہ

محمد محبوب

مرکز میں سال 2014 سے نر یندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت برسر اقتدار ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی‘ خالص ہندوتوا ایجنڈے پر عمل آوری کے مقصد سے اقتدار پر فائز ہوئی اور اس سمت کام بھی کررہی ہے۔ مسلم حکمرانوں خاص طور پر مغلیہ سلطنت کے فرمانرواؤں سے منسوب شہروں، دیہاتوں، سڑکوں اور ریلو ے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات کے ناموں کی تبد یلی جنگی خطوط پرکی گئی۔ الہ آباد کا نام بد لا گیا۔ فیض آباد کا نام بدلا گیا۔ گلبرگہ کا نام تبدیل ہوا۔ اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کیا گیا۔ کشمیر کا خصوصی موقف ختم کیا گیا۔ کشمیر کے دو حصے ہوگئے اور کشمیریوں کی زندگی اجیرن کی گئی۔ ٹیپو سُلطان شہید ؒ کو نصاب سے حذف کیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر مسلم با دشاہوں کے حالات ِ زندگی پر مشتمل اسباق نصاب سے حذف کردے گئے۔ کر ناٹک میں حجاب کا مسئلہ چھیڑ کر مسلم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کر نے کی دانستہ طور پر کوشش کی گئی۔ با بر ی مسجد ہمارے ہا تھوں سے اس طرح چھین لی گئی جس طرح انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے حکومت چھین لی تھی۔ اب پتہ نہیں حکومت کے نشانہ پر کون کون سی مساجد ہیں۔ اس طر ح اقلیتوں اور ان کے شعائر بلکہ مذہبی مقامات کو مسلمانوں سے چھینا جا رہا ہے۔ اب مرکزی حکومت نے اعلیٰ تعلیم میں اقلیتی طلباء کو فراہم کی جانے والی فیلوشپ (مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ) کو برخاست کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اقلیتی طلباء کو مایوس اور پریشان کردیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مرکزی حکومت‘ ایسی تمام اسکیمات کو برخاست کررہی ہے، جس سے راست اور با لراست مسلمانوں کو کچھ مالی فائدہ ہو سکتا ہے۔اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر بی جے پی حکومت نے مر حلہ وار اقلیتی بجٹ کو کم کردیا ہے اور جتنا بجٹ مختص کیا جا رہا ہے، وہ مالی سال کے ا ختتام تک بھی مکمل جاری نہیں کیا جارہا ہے۔
ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کے نام سے آغاز کردہ فیلوشپ کو برخاست کرنا مرکزی حکومت کا انتہائی بدبختا نہ اقدام ہے۔ مرکزی حکومت کے اس اقدام سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلم طلباء کی تعلیمی ترقی کو برداشت نہیں کرسکتی اور دوسری طرف وہ مولانا ابو الکلام آزاد کے بارے میں صرف اتنا جانتی ہے کہ وہ ایک مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کاش! کہ حکومت کو مولانا آزاد کی ملک کے لیے کی گئی خد مات کا احساس ہوتا!۔ مو لانا آزاد نے گا ند ھی جی کے ساتھ مل کر جدوجہد آزادی کی کئی تحریکوں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ انگر یزوں کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔زندگی کا بڑاحصہ جیل کی سلاخوں میں گزارا۔ اس وقت بھی جیل میں رہے جس وقت ان کی اہلیہ بیمار ہوئیں اور جب ان کا انتقال ہوگیا تب بھی جیل میں تھے۔ مولانا آزاد نے 1930 میں نمک ستیہ گر ہ تحریک سے لے کر 1942 کی ہندوستان چھوڑ دو تحر یک میں ہر قدم ہر سانس ملک کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی۔ جب 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا آزاد ملک کے پہلے مر کزی وزیر تعلیم بنائے گئے اور تا دم ِحیات یعنی 1958 ء تک تقریباً 11 سال اس منصب فا ئز ر ہے۔ ان گیارہ سالوں کے اندر مو لانا آزاد نے ہندوستانی طلباء کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ آج بھی مولانا آزاد کی وضع کردہ تعلیمی پالیسی سے ہندوستان کا ہر بچہ استفادہ کر رہا ہے۔ یو نیورسٹی گرا نٹس کمیشن، للت کلا تھور نم اکیڈیمی، سنگیت اکیڈیمی اور گورکھپور کا آئی آئی ٹی وغیرہ جیسے موقر تعلیمی ادارے مولانا آزاد کے ہی مرہون ِ منت ہیں۔ جہاں سے آج تک ہزاروں دانشور پیدا ہوکر ملک و قوم کی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ مر کزی حکومت مو لانا آزاد کی ان خدمات کو شا ید فرا مو ش کرچکی ہے۔یا پھر وہ مو لا نا آزاد کی تاریخ سے نا واقف ہے۔
شر یمتی اسمرتی ایرانی مر کزی وزیر اقلیتی اُمور نے حالیہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے نام سے اقلیتی طلباء کو جو فیلو شپ دی جا تی ہے، اسے بر خاست کر دیں گے۔مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کر نے کی ایک سازش سمجھا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ یو نیورسٹی گرا نٹس کمیشن کی نگرانی میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کی جانب سے سال میں دو مرتبہ NET قومی اہلیتی امتحان منعقد کیا جا تا ہے۔ اس میں کو الیفا ئی ہو نے والے ایسے اُمیدوار کو جو کسی یو نیورسٹی میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انہیں ما ہا نہ30 ہزار رو پئے فیلو شپ دی جا تی ہے۔ اس میں بھی جونیئر فیلو شپ کے تحت ما ہانہ 30 ہزار رو پئے اور سینئر فیلو شپ کے تحت ما ہا نہ 35 ہزار رو پئے فرا ہم کیے جا تے ہیں۔ ریسر چ اسکالرس کے لیے یہ فیلوشپ انہیں اپنے تحقیقی کام کو اطمینان سے کرنے میں انتہائی معاون ثابت ہوتی ہے۔ فیلوشپ کے لیے منعقدہ اہلیتی امتحان کے لیے سالانہ لاکھوں طلباء شر کت کر تے ہیں، لیکن ان میں محض سینکڑوں طلباء ہی اہل قرار پا تے ہیں۔ کوالیفائی ہو نے والے اُمیدواروں کے منجملہ صرف 15% اُمیدواروں کو نیٹ امتحان میں اہل قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مرکزی حکومت کی جانب سے محض 25 ہزار طلباء کو ہی یہ فیلوشپ دی جاتی ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک ہزار اقلیتی طلباء کو ہی فیلو شپ دی جا تی ہے۔ واضح رہے کہ سال 2007 میں سچر کمیٹی نے مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی طور پر انتہائی پسماندہ قرارد دیا تھا۔ جسٹس رنگا ناتھ مشرا کی قیادت میں قائم کردہ اقلیتی کمیشن نے مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی، طبی، صنعتی شعبوں میں درج فہر ست قبائل سے بھی پسماندہ قراردیا تھا اور مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی کے لیے تعلیمی وظیفوں کا آغاز کرنے کی حکومت سے سفارش کی تھی۔ جس کے بعد اِس وقت کی مر کزی یو پی اے حکومت نے (بشمول مسلم)اقلیتی طلباء کی اعلیٰ تعلیمی شرح میں اضافہ کرنے کے مقصد نے”مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ“ اسکیم کو متعارف کروایا تھا۔اس کے بعد سے گزشتہ سال تک مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے تحت کچھ اقلیتی طلباء کو فیلوشپ ملتی رہی۔جس کے سبب اقلیتی طلباء اعلیٰ تعلیم خاص کر ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلے لینے میں دلچسپی دکھا رہے تھے۔
سال 2019 میں کیے گئے کل ہند اعلیٰ تعلیمی سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 14.20 فیصدہے۔ جبکہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے مسلم طلباء کا تناسب صرف 5.5 فیصد ہے۔اس اعتبار سے بھی مسلم طلباء کی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کی راہیں ہموار کرنا حکومت کا فرض منصبی ہے۔
مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے تحت صرف مسلم طلباء کو ہی فیلوشپ نہیں دی جاتی ہے بلکہ اس اسکیم کے تحت مسلم طلباء کے بشمول دیگر اقلیتی طلباء جیسے بدھ، جین، سکھ اور پارسی طبقات کے طلباء کو بھی فراہم کی جاتی ہے، لیکن اس اسکیم کے تحت استفادہ کرنے والے طلباء میں مسلم طلباء کا تناسب زیادہ ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ملک کی سب بڑی اقلیت ہے۔ اس اعتبار سے ان کا تناسب زیادہ ہونا بھی چاہیے، لیکن یہ مرکزی حکومت کو منظور نہیں۔حالانکہ فیلوشپ کے حصول کے لیے مرکزی حکومت کئی ایک شرائط لاگو کیے۔ اس طر ح استفادہ کنندگان کی تعداد میں آہستہ آہستہ کمی کرتے ہوئے اب با لآخر حکومت نے اس فیلوشپ کو منسو خ کرنے کا بدبختانہ فیصلہ کیا ہے۔
یوں تو مرکزی حکومت‘ دوسری میعاد کے آغاز سے ہی یہ منصوبہ بناچکی تھی کہ اقلیتوں کے بجٹ کو بالترتیب گھٹا دیا جائے اور اقلیتوں سے منسوب اسکیمات کو آہستہ آہستہ کم کردیا جائے۔ تعلیمی سال 2019-2020 میں اس اسکیم کے تحت (1251) اقلیتی طلباء کو منتخب کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کے تعلیمی سال 2020-21 میں صر ف 1075 طلباء کو ہی منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس اسکیم کے تحت مختص کردہ بجٹ میں بھی قابل لحاظ کمی کی گئی۔ اس بجٹ کو 100 کروڑ سے گھٹا کر 74 کروڑ کیا گیا۔ اقلیتوں کی ترقی بی جے پی حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ جبکہ ملک کے تین چار فیصد اعلیٰ ذاتوں کی تر قی ہی بی جے پی کا نصب العین نظر آتی ہے۔ اس لیے حکومت نے معاشی طور پر کمزور اعلیٰ ذاتوں کے حا مل طبقات کے لیے 10% تحفظات فراہم کیے ہیں۔بی جے پی حکومت نے جو بہبودی اسکیمات کو روشناس کروایا ہے، مسلمان اور اقلیتیں ان سے عشر عشیر بھی استفادہ نہیں کررہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی حکو مت کے لیے مسلمانوں کی تر قی شجرِ ممنو عہ کی طر ح ہے۔ اگر حکومت مسلمانوں کی ترقی کا اعلان بھی کردے تو شاید ممکن ہے کہ حکومت گرجائے۔ایک مسئلہ تو مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا ہے۔دوسرا مسئلہ مسلمانوں کے عائلی مسائل میں حکومت کی مداخلت بھی ہے، جس سے دستورِ ہند نے اپنے شہریوں کو جو مذہبی آزادی فراہم کی ہے، اس پر کاری ضرب لگ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کی بے حسی ناقابلِ فہم ہے۔ جمہوری حکومتوں کا یہ فرض منصبی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں، لیکن بی جے پی حکومت میں مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں مسلمان ہر لمحہ خوف کے سایہ میں زندگی گزاررہے ہیں۔مسلمانون کو حج پر سبسیڈی دی جاتی تھی وہ اب با لکل ختم ہو چکی ہے۔
ملک کی آبادی کا 14.2% حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اگر جملہ بجٹ کا 5% حصہ بھی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خر چ کیا جاتا تو مسلمانوں کی معاشی حالت اتنی پسماندہ نہیں ہوتی۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکز کی حکومت اقلیتی اُمور کی وزارت کو ہی برخاست کردے تاکہ نارہے بانس نہ بجے بانسری۔ جن ریاستوں نے مسلمانوں کو تعلیم و ملازمت میں ان کی آبادی کے تناسب یا اس سے کم تحفظات فراہم کیے ہیں، ان میں ٹامل ناڈو، مغربی بنگا ل، تلنگانہ اور آندھر اپردیش شامل ہیں تاہم ان ریاستوں میں جب تک علاقائی پارٹیوں کی حکومت قائم ہے، تب تک مسلمانوں کو تحفظات حاصل رہیں گے۔ جب بی جے پی حکومت میں آئے گی تو پھر مسلمانوں کو فراہم کی جانے والی رعایتوں کو کم یا مکمل طور پر برخاست کردیا جائے گا۔ تلنگانہ میں اپوزیشن بی جے پی کے صدر بنڈی سنجے سمیت دیگر قائدین‘ برسراقتدار آنے پر مسلم تحفظات کو ختم کا اعلان کرچکے ہیں۔کرناٹک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں کمارا سوامی اور کانگریس اتحاد کی حکومت جب گر گئی تو بی جے پی نے حکومت تشکیل دی اورا س کے کچھ مہینوں میں ہی حجاب کا مسئلہ چھیڑ کر مسلم طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے رو کنے کی کوشش کی اور نئے نئے مسائل پیدا کیے۔ ان اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کا نظریہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی معاملات میں اُلجھا کر حکومت کر ے۔
٭٭٭