ژاں میکنزی
جنوبی کوریائی باشندوں کا ایک مختلف النوع گروپ دارالحکومت سیول میں ایک زیر زمین ریستوراں کے نجی کمرے میں خفیہ لنچ کے لیے جمع ہے۔ اس گروپ میں سیاستدان، سائنسدان اور فوج کے شعبوں سے منسلک افراد شامل ہیں، جن میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی شناخت ظاہر کرنا زیادہ حساس ہو سکتا ہے۔درحقیقت یہ نیوکلیئر پالیسی فورم کا افتتاحی اجلاس ہے، اور ان کا لنچ ٹائم ایجنڈا انتہائی حوصلہ مندانہ ہے یعنی وہ اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ جنوبی کوریا کس طرح جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔
یہ خیال جو پہلے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں تھا، پچھلے مہینوں کے دوران یہ مرکزی دھارے میں شدومد کے ساتھ سرایت کر چکا ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی کوریا کے صدر یون سک ییول نے بھی ایک دفاعی اجلاس کے دوران اس کے امکان کا ذکر کیا تھا اور اس طرح وہ دنیا میں واحد صدر ہیں جنھوں نے حالیہ دنوں میں اس آپشن کو میز پر رکھا ہو۔
اب اخبارات کے کالمز روزانہ اس خیال کو تازیانے لگا رہے ہیں، جب کہ حیران کن طور پر تین چوتھائی عوام اس کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے باشندے اپنے شمال میں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی کے بارے میں فکر کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔
جنوبی کوریا نے اس سے قبل سنہ 1970 کی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے خیال سجائے تھے اور اس کے لیے اس نے ایک خفیہ پروگرام بھی چلایا تھا۔ لیکن جب امریکہ کو پتہ چلا تو اس نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یا تو سیول اپنے موجودہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو جاری رکھ سکتا ہے، یا پھر امریکہ اپنی پوری جوہری طاقت کے ساتھ اس کا دفاع کر سکتا ہے۔ اس نے امریکی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد سے آج تک دسیوں ہزار امریکی فوجی جزیرہ نما کوریا میں تعینات ہیں۔
اس وقت سے آج تک کے درمیان جغرافیائی سیاسی صورتحال ڈرامائی طور پر بدل چکی ہے۔ شمالی کوریا پہلے سے زیادہ جدید ترین جوہری ہتھیار بنا رہا ہے جو امریکہ بھر کے شہروں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے، ایسے میں لوگ یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا واشنگٹن اب بھی جنوبی کوریا کے دفاع میں آئے گا۔وہ اس قسم کے منظر نامے پر غور و خوض کر رہے کہ جنگ پر کمربستہ کم جونگ ان جنوبی کوریا پر حملہ کر دیتا ہے اور پھر امریکہ کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ پھر کِم امریکہ کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ جنگ سے دستبردار نہیں ہوتا ہے تو وہ امریکی سرزمین پر جوہری بم کا دھماکہ کر دے گا۔ ایسے میں پھر واشنگٹن کیا کرے گا؟ کیا وہ سیول کو بچانے کے لیے سان فرانسسکو کو ملبے میں تبدیل کیے جانے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ شاید نہیں! اور یہ نتیجہ ان لوگوں نے اخذ کیا ہے جو اس خفیہ لنچ پر زیر زمیں کمرے میں موجود ہیں۔
فورم کے رکن اور جنوبی کوریا کی حکمران پیپلز پاور پارٹی کے رکن چوئی جی ینگ نے کہا: ‘یہ سوچنا غیر منطقی ہے کہ کوئی دوسرا ملک آ کر ہماری حفاظت کرے گا۔ یہ ہمارا مسئلہ اور ہماری ذمہ داری ہے۔’فورم کے چیئرمین اور ماہر تعلیم چیونگ سیونگ-چانگ نے اپنا مجوزہ منصوبہ پیش کیا۔ اب اگر اگلی بار شمالی کوریا جوہری ہتھیار کا کوئی تجربہ کرتا ہے تو سیول جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے دستبردار ہو جائے گا۔ اگر چھ ماہ کے اندر کم اپنے ہتھیاروں کو ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے ہیں، تو سیول اپنا جوہری ہتھیار بنانا شروع کر دے گا۔ چیونگ کا استدلال ہے کہ اس سے جزیرہ نما کوریا میں جوہری جنگ کا امکان کم ہو جائے گا، کیونکہ کِم کے حملے کا امکان اس بات کے پیش نظر کم ہو گا جب انھیں یہ خیال ہوگا کہ جنوبی کوریا بھی جوابی حملہ کر سکتا ہے۔
لیکن امریکہ میں قائم تھنک ٹینک 38 نارتھ سے تعلق رکھنے والی جینی ٹاؤن اس مفروضے کو چیلنج کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی کوریا شمال کو کم مہم جوئی کی جانب لے جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’زیادہ جوہری ہتھیار دنیا کو جوہری استعمال سے محفوظ نہیں بنا سکتے۔‘ اگر آپ مثال کے طور پر انڈیا اور پاکستان کو دیکھیں تو یہ وہ نہیں ہے جو ہم نے دیکھا ہے۔ اگر کچھ بھی (زیادہ برا) ہوتا ہے تو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونے کی وجہ سے دونوں کو تھوڑا آگے جانے کے لیے ہری جھنڈی ملتی ہے۔‘
اور واشنگٹن جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی کوریا بالکل نہیں چاہتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ عفریت جزوی طور پر امریکہ کی تخلیق ہے۔ سنہ 2016 میں اس وقت کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا پر مفت سواری کا الزام لگایا تھا۔ انھوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ سیول کو ان کی سرزمین پر تعینات امریکی فوجیوں کے لیے ادائیگی کرانے پر مجبور کریں گے، ورنہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیں گے۔ لوگوں میں ان الفاظ سے جو خوف پیدا ہوا وہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہوا۔ جنوبی کوریا کے باشندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امریکہ کے وعدے اس کے اگلے لیڈر کی طرح ہی اچھے ہیں اور اب وہ جوہری بم بنانے کے حق میں ہیں۔
ایک حالیہ اتوار کی دوپہر کو سیول کے ایک مقامی سوانا (بھاپ والا ایک قسم کا حمام) میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بوڑھے درد کو کم کرنے کے اپنے ہفتہ وار پروگرام کے تحت جمع ہوئے، اس دوران وہ بیئر اور فرائیڈ چکن سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اگرچہ اس طرح کے ماحول میں جوہری پھیلاؤ پر بات کرنا عجیب سا لگ سکتا ہے، لیکن وہاں اس پر بات ہو رہی تھی اور ان دنوں یہ تقریباً ہر چھوٹی بڑی مجلس میں دیکھی جا رہی ہے۔
31 سالہ کو سونگ ووک نے کہا: ’امریکہ ہمارے دفاع کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرنے جا رہا ہے، اس لیے ہمیں اپنے دفاع پر خود ہی اختیار رکھنا چاہیے۔‘ انھوں نے سنہ 2010 میں اس وقت ایک بڑے بحران کے دوران جنوبی کوریا کے لیے خدمات انجام دیں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ایک جزیرے پر گولہ باری کی جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک مکمل ایمرجنسی کی طرح لگ رہا تھا۔ یونٹس اپنے والدین کو فون کر رہی تھیں اور لوگ وصیتیں لکھ رہے تھے۔ اب وہ نہ صرف شمالی کوریا بلکہ چین کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’ہم ان عظیم طاقتوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں اور ان کے ارد گرد انڈے کے چھلکوں پر چل رہے ہیں۔ ان کا مد مقابل ہونے کے لیے ہمیں جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔‘سوانا میں موجود تقریباً سبھی افراد نے اس بات سے اتفاق کیا، یہاں تک کہ 82 سالہ ہانگ ان سو نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ سنہ 1950 کی دہائی میں کوریائی جنگ کے دوران وہ ایک چھوٹی بچی تھیں اور انھوں نے اپنی تمام عمر جوہری ہتھیار مخالف خیالات کی پیروی کی لیکن اب انھوں نے ہچکچاتے ہوئے ہی سہی پر یہ ضرور کہا کہ جوہری ہتھیار ایک ضروری برائی ہیں: ’دوسرے ممالک اسے بنا رہے ہیں، لہذا میں یہ نہیں سمجھتی کہ ہم ان کے بغیر کیسے چل سکتے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے۔‘
ایک اور خاتون اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں کہ آیا امریکہ جنوبی کوریا کا دفاع کرے گا بھی اور پھر انھوں نے سوچا کہ ‘کسی بھی صورت میں جوہری ہتھیار رکھنا بہتر ہے۔‘ جبکہ ایک نوجوان ماں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ سیول کے موجودہ تعلقات کسی بھی لمحے بدل سکتے ہیں۔واشنگٹن اب اپنے اتحادی کو ان کے دفاع کے لیے اپنے ’آہنی‘ عزم کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں اس نے جنوبی بندرگاہ بوسان میں ایک بہت بڑا جوہری طاقت سے ممیز طیارہ بردار بحری جہاز لنگر انداز کیا ہے۔ لیکن امریکی پالیسی سازوں کی مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ اب ایسے یقین دلانے والے اقدامات کام کرتے نظر نہیں آتے۔
سیول کے سیاست دان اندھیرے میں رہنے سے بیزار ہو گئے ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کس بات پر امریکی صدر ان کی طرف سے جوہری بٹن دبانے کے لیے تیار ہوں گے۔ فی الحال جو بائیڈن کو ایسا کرنے سے پہلے یون کو بتانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مز ٹاؤن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم ہم ایک لازمی فون کال کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی یہ امریکی صدر کا ہی فیصلہ ہوگا۔‘
سیول میں قائم اسان انسٹیٹیوٹ کے دفاعی تجزیہ کار یانگ یوک اس وقت صدر یون کے ساتھ کمرے میں تھے جب انھوں نے جنوبی کوریا کے جوہری ہتھیار کا حامل بننے کے بارے میں اپنی رائے دی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یون بالواسطہ طور پر امریکہ پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی جوہری پالیسی پر بات کرنے میں بہت ہچکچا رہا ہے اور اس کے باوجود اگر جزیرہ نما پر جوہری جنگ چھڑ جاتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا۔‘
سیول جوہری استعمال کے حوالے سے منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں مزید شامل ہونے پر زور دے رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکی جوہری ہتھیار جنوبی کوریا میں رکھے جائیں، یا پھر یوروپ کی طرح جوہری اشتراک کا انتظام ہو جہاں جنگ کی صورت میں جنوبی کوریا امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرنے کے قابل ہو۔ اس سے کم سخت ایک آپشن یہ ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ ایک مشترکہ نیوکلیئر پلاننگ گروپ بنایا جائے۔امریکہ کی طرف سے بہت زیادہ پیشکش کا امکان نہیں ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ اسے کچھ ایسا ٹھوس منصوبہ فراہم کرنا چاہیے جسے صدر یون جیت کے طور پر استعمال کر سکیں، اور جنوبی کوریا کے عوام کو فروخت کر سکیں۔ اس کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ اس میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ یہ کبھی ناقابل فہم خیال تھا جو اب جنوبی کوریا کی نفسیات میں اتنی مضبوطی سے پیوست ہوچکا ہے کہ اب اسے کیسے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے۔جوہری صلاحیت کے حامل ہونے کا فیصلہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے۔ موجودہ بین الاقوامی نظام جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر بنایا گیا ہے، اور ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک جو اس آرڈر کو خطرے میں ڈال رہے ہیں انھوں نے اس کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔
سوانا میں موجود صرف ایک خاتون نے اعتراف کیا کہ اگر جوہری طاقت کے حصول کا مطلب جنوبی کوریا کا ’برائی کا محور‘ بننا ہے تو شاید یہ اس کے قابل نہیں۔
لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ جنوبی کوریا حکمت عملی اور اقتصادی لحاظ سے اس قدر اہم ہے کہ اسے شمالی کوریا کی طرح رد نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ شاید ہی اپنے عشروں سے جاری فوجی اتحاد کو ختم کرے۔ اس کے بجائے، تشویش یہ ہے کہ ممکنہ جنوبی کوریائی جوہری ہتھیار عدم پھیلاؤ کے نظام میں ایسی دراڑ پیدا کرے گا جس کی وجہ سے دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔
صرف 82 سالہ ہانگ اِن سو کو سامنے آنے والے خطرات دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے ایک کورین کہاوت کا حوالہ دیا جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ یہ ’آپ اپنے ہی پاخانے میں گرنے‘ کے مترادف ہے دوسرے لفظوں میں اس کے شدید نتائج ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ جوہری ہتھیار ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے آئے گا۔ مجھے اپنی آنے والی نسل کے لیے برا محسوس ہو رہا ہے۔‘