مذہب

حرمین شریفین اہل اسلام کے مراکز

اہلِ اسلام کے دو بڑے روحانی مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں سارے عالم میں انکی عفت‘ پاکیزگی‘ حرمت وعظمت ‘ احترام وتقدس میں کوئی نظیر نہیں، یہ دونوں شہر دو جلیل القدر انبیاء حبیب اللہ اور خلیل اللہ علیھما السلام کی دعائوں کی وجہ سے حرمین شریفین ہو گئے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی

شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

اہلِ اسلام کے دو بڑے روحانی مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں سارے عالم میں انکی عفت‘ پاکیزگی‘ حرمت وعظمت ‘ احترام وتقدس میں کوئی نظیر نہیں، یہ دونوں شہر دو جلیل القدر انبیاء حبیب اللہ اور خلیل اللہ علیھما السلام کی دعائوں کی وجہ سے حرمین شریفین ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیگر شہروں پر فضیلت وعظمت عطا فرمائی ، انکو امن والے شہر بنادئے اور انہیں بت پرستی ‘ خون ریزی‘ فسق وفجور سے پاک کیا، یہاں تک کہ قرب قیامت سارے عالم میں شرک اور کفر پھیل جائیگا لیکن یہ دونوں شہر ایمان کے مراکز ہونگے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن ابي ھریرۃ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال ان الایمان لیاْ رز الی المدینۃ، کما تَاْرز الحیۃ الی جحرھا (مسلم، ابن ماجہ، مسند احمد) حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان مدینہ کی طرف لوٹ جائے گا، جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لوٹ جاتاہے۔

ان دونوں شہروں میں انبیاء کرام علیھم الصلاۃوالسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے دوری کی وجہ سے شرک وبت پرستی پھیلتی رہی رہی، چاہتِ خداوندی یہ تھی کہ دوبارہ یہ دونوں شہر اسلام کے مراکز ہو جائیں، جب مکہ فتح ہوا تو اکثر مشرکین مکہ مکرمہ سے نکل کر چلے گئے لیکن چند مشرکین مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف واکناف میں آباد ہو گئے تھے اور وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آرہے تھے۔ حالانکہ حضور کریم ﷺ نے عرب کے تمام قبائل کے ساتھ امن و دوستی کے معاہدے کئے لیکن مسلمانوں کی ظاہری کمزوری کی وجہ سے مشرکینِ مکہ نے ان معاہدوں کا احترام شاذ ونادر ہی ملحوظ رکھا اور جب کبھی انہیں موقع ملتا تو مسلمانوں کو زک پہنچانے سے گریز نہ کرتے۔ جب حضورؐجنگ تبوک کے سفر پر روانہ ہوئے جو مدینہ طیبہ سے سینکڑوں میل دور تھا اور قیصر کی فوج سے نبرد آزما ہونے کا ارادہ تھا مشرکین کو یقین تھا کہ قیصر مسلمانوں کو پیس کر رکھ دے گا انہیں تباہ وبرباد کردیگا کیونکہ وہ ظاہری طور پر ایک طاقتور بادشاہ تھا اور مسلمان اس کی عہد شکنی کے متعلق اس سے باز پُرس نہیں کر سکیں گے۔اس لیے طرح طرح کی جھوٹی افواہیں پھیلانے لگے اور ہر ممکن ذریعہ سے عہد شکنی کرنے لگے، اہل اسلام کے خلاف سازشیں رچنے لگے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، حضور ؐجنگِ تبوک سے اپنے غلاموں کے ہمراہ کامیاب و کامران لوٹے۔ اگر مشرکین مکہ کو کھلی چھوٹ دی جاتی تو وہ کبھی بھی مسلمانوں پر حملہ کرسکتے تھے۔ رحمت ِ عالم ﷺ کی چاہت تھی کہ مشرکین مکہ کو شہر مکہ سے باہر نکال دیا جائے اور اس شہر کو امن وسلامتی والا شہر بنادیا جائے، اس شہر کو بت پرستی‘ جہالت کے رسم ورواج سے ہمیشہ کیلئے پاک کیا جائے ، حرم مکہ میں صرف اہل اسلام آباد ہوں۔چنانچہ ماہِ ذیقعدہ ۹ھ میں مسلمانوں کا قافلہ سفر حج پر روانہ ہوا تو رب تبارک وتعالیٰ نے حرم مکہ کو بت پرستوں ‘ مشرکوں سے پاک کرنے کا حکم نازل فرمایا۔جیسا کہ سورہ براء ت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: بَرَآۃٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوْلِہِ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنْ۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے (اے حبیبؐ) آپ نے معاہدہ کیا تھا مشرکوں میں سے قطع تعلق کا (اعلان) ہے۔ اے مشرکو! زمین میں چار ماہ کہیں چلے جاؤ اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یقینا اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور اعلان عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں کے لئے حج کے دن کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مشرکین سے بری ہیں۔ ان آیاتِ شریفہ میں صاف صاف حکم دیا گیا کہ اب کفر کے ساتھ سابقہ معاہدے منسوخ ہیں۔ انہیں دوستی کے لباس میں اسلامی انقلاب کو زک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جب سن ۹ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے کا ارادہ کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ مشرکین بھی مکہ میں آئیں گے اور برہنہ طواف کریں گے اس لئے آپ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓکو اس سال امیر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ حج کے دنوںمیں لوگوں میں اعلان کریں اور ان کے ساتھ سورہ توبہ کی ابتدائی چالیس آیتیں روانہ کیں تاکہ وہ حج کے دنوں میں لوگوں کے سامنے تلاوت کریں، پھر حضرت ابو بکر ؓ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجھہؓ کو ایک اونٹنی پر سوار کرکے روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے مشرکین سے براء ت کا اعلان کریں اور انہیں حکم دیا کہ وہ یہ اعلان مکہ میں اور منیٰ میں اور عرفات میں کریں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ذمہ ہر مشرک سے بری ہو گیا ہے۔

سنو! اب بیت اللہ میں کوئی برہنہ طواف نہیں کرے گا، حضرت ابو بکرؓ بطور امیر حج روانہ ہوئے اور حضرت علی ؓمشرکین سے براء ت کا اعلان کرنے کیلئے روانہ ہوئے ۔ پھر یوم الترویہ یعنی ۸ ذوالحجہ کے دن حضرت ابوبکر نے لوگوں کو حج کے متعلق خطبہ دیا اور ان کو مناسک حج کی تعلیم دی، حتی کہ جب یوم النحر یعنی ۱۰ ذو الحجہ کا دن آیا تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ کھڑے ہوئے اور لوگوں میں وہ اعلان کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور ان کے سامنے سورہ توبہ کی تلاوت کی۔۱۰ ہجری سے قبل تمام مشرکین حدود مکہ مکرمہ سے نکل گئے یہ شہر خالص مسلمانوں کے لئے ہو گیا اب یہاں کسی غیر مسلم کی انٹری درست نہیں۔

حضرت زید بن تبیع ؓنے بیان کیا کہ ہم نے حضرت علی ؓ سے سوال کیا کہ آپ اس حج میں کس حکم کے ساتھ مبعوث کیے گئے؟ تو انہوں نے بتایا: میں چار احکام کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں: ۱) بیت اللہ میں کوئی برہنہ طواف نہیں کرے گا۔ ۲) جس کا نبی ؐ سے کوئی معاہدہ تھا تو وہ اپنی مدت تک امن سے رہے گا اور جس کا کوئی معاہدہ نہیں تھا تو اس کی مدت چار مہینے ہے ۳) جنت میں مومن کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ ۴) اس سال کے بعد مشرکین اور مسلمین مجتمع (یکجا) نہیں ہوں گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ۱۰ ہجری کو حجۃ الوداع ادا کیا۔ (سنن ترمذی)

قرآن کریم نے ان کے اخراج کا مقصد اس طرح بیان کیا جیسا کہ سورہ توبہ میں ہے: یَا اَیَّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا (سورۃ التوبۃ: ۲۸) (ترجمہ: اے ایمان والو! یقینا مشرکین ناپاک ہیں‘ سو وہ مسجد حرام کے قریب نہ ہونے پائیں ان کے اس سال کے بعد) اس آیت میںحکم کی حکمت ومصلحت بتلادی اور اس کی تعمیل میں جو بعض مسلمانوں کو خطرات تھے ان کا بھی جواب دے دیا ، اس میں لفظ نَجَسْ استعمال فرمایا ہے، جو نجاست کے معنی میں ہے، اور نجاست ہر اس گندگی کو کہتے ہیں جس سے انسان کی طبیعت نفرت کرے جیسے عقائد فاسدہ اور اخلاقِ رذیلہ، امام راغب ؒ اصفہانیؒ نے فرمایا کہ اس میں وہ نجاست بھی داخل ہے جو آنکھ، ناک یا ہاتھ وغیرہ سے محسوس ہو، اور وہ بھی جو علم وعقل کے ذریعہ معلوم ہو، اس لئے لفظ نجس اس غلاظت اور گندگی کو بھی شامل ہے جو ظاہری طور پر سب محسوس کرتے ہیں، اور اس معنوی نجاست کو بھی جس کی بناء پر شرعاً وضو یا غسل واجب ہوتا ہے، جیسے جنابت یا حیض ونفاس کے ختم ہونے کے بعد کی حالت اور وہ باطنی نجاست بھی جس کا تعلق انسان کے قلب سے جیسے بت پرستی‘ عقائد فاسدہ اور اخلاقِ رذیلہ۔ عام طور پر مشرکین میں تینوں قسم کی نجاستیں ہوتی ہیں، کیونکہ بہت سی ظاہری ناپاک چیزوں کو وہ ناپاک نہیں سمجھتے ، اس لئے ان ظاہری نجاستوں سے بھی نہیں بچتے جیسے شراب اور اس سے بنی ہوئی چیزیں اور معنوی نجاست جیسے غسل ِ جنابت وغیرہ کے تو وہ قائل ہی نہیں، اسی طرح عقائد ِ فاسدہ اور اخلاق رذیلہ کو بھی وہ کچھ نہیں سمجھتے، اسی لئے آیت مذکورہ میں مشرکین کو نری نجاست قرار دے کر یہ حکم دیا گیا فَلَا یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا یعنی ایسا کرنا چاہئے کہ اس سال کے بعد یہ مشرکین مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں۔ مسجد حرام کا لفظ عام طور پر تو اس جگہ کیلئے بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کے گرد چہار دیواری سے گھری ہوئی ہے، لیکن قرآن وحدیث میں بعض اوقات یہ لفظ پورے حرم مکہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے، جو کئی میل مربع کا رقبہ اور چاروں طرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قائم کردہ حدود سے گھرا ہوا ہے۔

عہد رسالت سے ہی شہر مکہ میں غیر مسلم کا داخلہ ممنوع ہو گیا، چودہ سو سال گزر گئے یہ حکم جاری وساری ہے، کسی زمانہ میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہر زمانہ میں حدود حرم پر حکومت کی جانب سے سخت پہرہ ہوتا اور انہیں سختی سے روکا جاتا رہا، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ ہَذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِیْ حَرَّمَہَا وَلَہُ کُلُّ شَیْء ٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (آپ کہیے:) مجھے صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ ) کے رب کی عبادت کروں، جس نے اس کو حرم بنادیا ہے اور اسی کی ملکیت میں ہر چیز ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے فرمابرداروں میں سے رہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت بیان کی کہ وہ اس شہر کا رب ہے اور اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اورتمام شہروں میں سے اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی طرف اپنی ربوبیت کی نسبت اس لیے کی ہے کہ رب ہونے کو تو میں تمام شہروں کا رب ہوں لیکن جس شہر کے رب ہونے پر مجھے ناز ہے وہ شہر مکہ ہے ، اسی شہر کی ایک جگہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا بیت قرار دیا ہے، یہی شہر اس کے محبوب نبی سیدنا محمد ﷺ کا مولد اور مسکن ہے اور یہی شہر پہلا مہبط وحی الٰہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو حرم (حرمت والا) بنا دیا ہے، اس شہر کو حرم بنانے کی چند وجوہ ہیں: جو شخص حج کرنے کیلئے اس شہر میں آتا ہے اس پر حالت احرام میں کئی حلال کام حرام ہوجاتے ہیں، وہ بال اور ناخن نہیں کاٹ سکتا، خوشبو نہیں لگا سکتا، ازدواجی عمل نہیں کرسکتا اور اس طرح کے اور کئی کام اس پر حرام ہوجاتے ہیں، جو شخص حدودِ حرم میں آکر پناہ لے اس کو ایذا ء پہنچانا حرام ہے، حدودِ حرم میں درخت کاٹنا اور وحشی جانوروں کو پریشان کرنا حرام ہے، اس شہر میں قتال (جنگ) کرنا، مال لوٹنا اور کسی کی عزت پامال کرنا خصوصیت کے ساتھ حرام ہیں اس لیے یہ شہر حرم ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے پہلے شہر مدینہ مختلف مذاہب سے آباد تھا ، یہاں یہودی ‘ عیسائی‘ مشرک سب رہتے تھے اور یہ وبائوں‘ بلائوں کا شہر تھا آپ ؐ کی تشریف آوری کے بعد یہ طابہ ‘ مدینہ ہوگیا۔ دس ۱۰ سال کے عرصہ میں یہاں مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا ، چاہت ہی یہ تھی کہ یہاں صرف مسلمان آباد رہیں چنانچہ حدیث شریف میں ہے:حضرت عبداللہ بن عتبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری عہد میں یہ وصیت فرمائی کہ سرزمین عرب میں دو دین باقی نہ رکھے جائیں ۔ (الطبقات الکبریٰ)

اسی طرح عہد رسالت اور عہد خلافتِ ابو بکر ؓ تک مدینہ منورہ سے سارے مذاہب کے لوگ چلے گئے سوائے خیبر کے چند یہود کے، یہ بھی خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور میں مدینہ پاک سے نکالے گئے چنانچہ بخاری شریف میں ہے: عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال لما فدع اھل خیبر عبداللہ بن عمر قال عمر خطیباً فقال: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان عامل یھود خیبر باموالھم۔۔۔۔ الخ (بخاری) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: جب اہلِ خیبر نے ان کے ہاتھ پیر توڑڈالے تو حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا ، پس کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے اموال (باغات) پر کھیتی باڑی کا معاملہ کیا اور فرمایا: جب تک اللہ تم کو برقرار رکھے گا ہم تم کو برقرار رکھیں گے اور بے شک عبداللہ بن عمرؓ وہاں اپنے مال (باغ) کی طرف گئے تھے، تو رات کو ان پر ظلم کیا گیا، پس ان کے ہاتھوں اور پیروں کو مروڑ کر ٹیڑھا کردیا گیا اور یہاں پر ان کے سوا اور کوئی دشمن نہیں ہے، پس وہی ہمارے دشمن ہیں، اور ان ہی پر ہماری تہمت ہے اور میں نے ان کو شہر بدر کرنا مناسب سمجھا ہے ۔

پس جب حضرت عمر نے اس کا عزم مصمم کرلیا تو ان کے پاس ابو الحقیق کے بیٹے آئے تو انہوں نے کہا : اے امیر المومنین ! کیا آپ ہم کو نکال رہے ہیں، حالانکہ ہم کو (سیدنا) محمد ﷺ نے برقرار رکھا تھا اور ہم کو یہاں کے اموال (باغات) پر عامل بنایا تھا اور ہمارے لیے (عمل کی ) شرط لگائی تھی تب حضرت عمر نے کہا: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بھول گیا ہوں؟ آپ نے فرمایا تھا : اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم کو خیبر سے نکال دیا جائے گا اور تمہیں تمہارے اونٹ ایک رات سے دوسری رات تک لے کر پھر تے رہیں گے، اس نے کہا: یہ تو ابو القاسم نے مذاق سے فرمایا تھا، حضرت عمر نے کہا: اے اللہ کے دشمن ! تم جھوٹ بولتے ہو، پھر حضرت عمر نے ان کو (خیبر سے ) جلا وطن کر دیا اور باغات میں ان کے پھلوں کا جو حصہ تھا اس کے عوض میں ان کو اونٹ ، سامان، پالان، اور رسیاں وغیرہ دے دیں۔

افسوس کہ موجودہ حکومت حدودِ مکہ ومدینہ میں مشرکین کے داخلہ پر پابندی کے قانون میں نرمی برت رہی ہے اسی وجہ سے بعض غیر مسلم حدود حرمین شریفین میں داخل ہو رہے ہیں انکے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی جارہی ہے۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کو حرمین شریفین کے تقدس اور حرمت کا لحاظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w