مذہب

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زندگی کے قیمتی لمحات

نبوت کا پانچواں سال تھا جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مکہ کے اس مبارک گھر میں پیدا ہوئیں جہاں اسلام کا چرچہ عام تھا۔ اسلام کے دولت سے وہ گھر مالامال تھا، وہ گھر ایمان کے نور سے روشن تھا، اس مبارک گھر میں کفر و شرک کی ظلمت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ختم ہوچکی تھی۔

رفعت کنیز
ایم اے‘ مانو۔حیدرآباد

نبوت کا پانچواں سال تھا جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مکہ کے اس مبارک گھر میں پیدا ہوئیں جہاں اسلام کا چرچہ عام تھا۔ اسلام کے دولت سے وہ گھر مالامال تھا، وہ گھر ایمان کے نور سے روشن تھا، اس مبارک گھر میں کفر و شرک کی ظلمت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ختم ہوچکی تھی۔ اب اس گھر میں توحید و رسالت کا ڈنکا گونج رہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین سب کے دلوں پہ چھایا ہوا تھا۔

وہ گھر بہت ہی خوبصورت ہے جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن کی آنکھیں کھولیں، مبارک ہے وہ گھرانہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کبھی کسی کو بتوں کے سامنے جھکتے نہیں دیکھا، نہ کوئی کفرکی آواز سنی اور نہ شرک کی کوئی پہچان دیکھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسلمان ماں ‘ام رومان کی گود میں آنکھیں کھولیں اور باپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسے سخی کہ جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا سارا مال نچھاور کردئیے، مردوں میں سب سے پہلے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی، ان کا مقام حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے بلند وبالا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کا دورتھا، کھیل کودکی عمر تھی، آس پاس کی بچیاں ان کے ساتھ کھیلتی تھیں، نہ کسی سے کوئی لڑائی نہ کسی سے کوئی جھگڑا، پڑوس کی سب ہی بچیاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرتی تھیں اور ان بچیوں کی محبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک ہستی میں بہت سے خوبیاں جمع کردی تھی، ایک طرف بچیوں کے ساتھ مکمل دلچسپی اور محبت وہیں دوسری طرف بڑوں کے نزدیک ادب ولحاظ میں آسمان کی بلندی حاصل تھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں، آپ انتہائی نیک اور سچے تھے، صدیقہ آپ کا لقب ہے، آپ کا رنگ نہایت گورا اور صاف تھا جس کی وجہ سے آپ کا ایک لقب حمیراء بھی ہے۔ عربی میں حمیراء سرخ رنگ کو کہا جاتا ہے۔ بعد میں چل کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا اور قیامت تک کے آنے والے مومنین کی آپ ماں ہیں، اسی بنیاد پر آپ کا خطاب ام المومنین پڑگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قسمت چمک رہی تھی اور اللہ کو یہی منظور تھا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ماں بننے کا شرف حاصل ہو۔

ہمارے پیارے نبیؐ نے نکاح سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے سے لپیٹا ہوا ایک قیمتی شاہکار دے رہا ہے۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔ آپ نے اس لباس کو کھولا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

آخرکار وہ وقت آگیا جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا لیکن کس طرح؟ آج کل کے رسم ورواج بےپردگی، فضول خرچی اور اصراف سے پاک۔ یہ تو سرداروں کے سردار، بادشاہوں اور شہنشاہوں سے اعلیٰ و ارفع ان کا مقام، تمام عفتیں ان پر قربان تمام جہاں کے مسلمانوں کی جان مال اور عزتیں ان پر قربان، وہ اللہ کے پیارے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے جو مکہ کے معزز اور صاحب وجاہت تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام سب سے بالا و بلند ہے، اس شادی میں جس قدر بھی خرچ کیا جائے وہ کم تھا، اس شادی میں جس قدر بھی صرف کیا جائے وہ جائز اور درست تھا لیکن شادی کی سادگی بہت ہی نرالی، خود صدیقہ کی زبان سن لیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ان کی انا (دائی) آکر انہیں لے گئی، حضرت ابوبکرؓ نے نکاح پڑھایا، جب میرا نکاح ہوا تو مجھے خبر تک نہ ہوئی، میری والدہ نے مجھے باہر نکلنے پر روک ٹوک شروع کی، تب سمجھی کہ میرا نکاح ہوگیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مہر 50 درہم تھا، نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 6برس کی تھی، لیکن اس چھوٹی سی عمر میں بھی آپ ذہین، قوت اور قدوقامت میں عام لڑکیوں سے بلند وبالا تھیں۔

نکاح کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دو برس تین مہینے مکہ مکرمہ میں اپنے ماں باپ کے پاس رہیں پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اب آپ اپنی بیوی کو اپنے گھر کیوں نہیں بلواتے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت مہر ادا کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے روپے قبول کرلیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش (جو تقریباً 100روپے کے برابر ہوتے ہیں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قرض لیکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھجوائے۔

ان سطروں کو پڑھتے ہوئے ذرا غور کیجئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی چہیتی بیٹی کی رخصتی کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خود درخواست کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہر ادا کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن وہ مہر کا ادا کرنا اتنا بڑا فرض سمجھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قرض لے کر مہر کا روپیہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنی انتہائی چہیتی بیوی کو رخصت کراکر اپنے گھر لاتے ہیں۔
٭٭٭