حیدرآباد

حیدرآباد میں مسلمانوں کو میلاد ڈیکوریشن سے روکنے کی شکایت

جشن میلاد النبیؐ کے پیش نظر پرانے شہر میں پولیس کا رویہ، مسلمانوں کے تئیں جانبدارانہ بتایا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس، مسلمانوں کو لائٹنگ اور ڈیکوریشن کرنے سے روک رہی ہے اور پولیس کے عہدیدار اور جوان مبینہ طور پر ڈیکوریشن کرنے پر مسلم نوجوانوں کو دھمکا رہے ہیں۔

حیدرآباد: جشن میلاد النبیؐ کے پیش نظر پرانے شہر میں پولیس کا رویہ، مسلمانوں کے تئیں جانبدارانہ بتایا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس، مسلمانوں کو لائٹنگ اور ڈیکوریشن کرنے سے روک رہی ہے اور پولیس کے عہدیدار اور جوان مبینہ طور پر ڈیکوریشن کرنے پر مسلم نوجوانوں کو دھمکا رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں
مسلم بھائیوں کے جذبہ خیرسگالی سے پولیس کمشنرمتاثر
پرانے شہر میں پولیس کا فلیگ مارچ
ساوتھ زون کے مختلف مقامات پر قمار بازی اور سٹہ عروج پر!
حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے ہوٹلوں کو رات 11 بجے بند کروانے کی شکایت : احمد بلعلہ
حیدرآباد میں مختلف مقامات پرجوئے خانوں کاچلن!

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال میلاد النبیؐ کے موقع پر خصوصیت کے ساتھ پرانے شہر میں مختلف مقامات پر برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں اور خوبصورت طریقہ سے ڈیکوریشن کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلا آرہا ہے، مگر اب پرانے شہر میں پولیس اس سلسلہ کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ یاقوت پورہ اور دیگر محلوں کے الیکٹریشنوں کو متعلقہ پولیس اسٹیشنوں میں طلب کرتے ہوئے انھیں لائٹنگ کرنے اور ڈیکوریشن نہ کرنے کا پابند بنایا جارہا ہے۔ ہدایت کی خلاف ورزی پر ان الیکٹریشنوں کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔

پرانے شہر کی چند تنظیموں نے میلاد پروگراموں کی اجازت کے لیے ڈپٹی کمشنر پولیس سے ربط پیدا کرنے پر انہیں ایڈیشنل کمشنر سے ملنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ جب ایڈیشنل کمشنر سے ملاقات کے لیے ان چند تنظیموں کے افراد پہنچتے ہیں تو پہلے ان کے ساتھ غلط برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر پولیس دفتر میں ان درخواست گزاروں کو جھڑک دیتے ہیں کہ 28 ستمبر کو ہی میلاد منانے کیا جواز ہے؟ 29 ستمبر کو بھی میلاد النبیؐ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو عید و تہوار منانے کا بھی حق نہیں ہے؟ آیا پولیس، مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری تصور کررہی ہے؟ کیا مسلمانوں کو خوف کے ماحول میں رکھنے کی پالیسی ہے؟ معمولی بات پر جھگڑا ہونے پر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنا اور انھیں سخت دفعات کے تحت جیل بھیج دینا عام بات ہوگئی ہے۔

مسلم علاقوں میں چبوترہ مشن اور تلاشی مہم کے نام پر ہراساں کرنے کی بات نئی نہیں ہے۔ پرانے شہر میں مسلم یا غیر مسلم عہدیدار تعینات رہیں، پھر بھی ان دونوں کا رویہ مسلمانوں کے تئیں نامناسب رہتا ہے۔ اگرچہ کہ امسال گنیش تہوار اور میلاد النبیؐ ایک ہی دن مقرر ہے۔

اس ضمن میں مناسب بند و بست کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے، مگر مسلمانوں کو میلاد النبیؐ کے ضمن میں لائٹنگ کرنے اور ڈیکوریشن کرنے سے روکنا کہاں تک صحیح ہے؟ ایک طرف پولیس دیگر مذاہب کے تہواروں کے لیے بڑے پیمانے پر سہولتیں فراہم کرتی ہیں تو دوسری طرف میلاد النبیؐ کے سلسلہ میں ڈیکوریشن کرنے سے مسلمانوں کو روکنا ظلم کے مترادف نہیں تو کیا ہے؟

حالیہ دنوں ہمایوں نگر پولیس نے ایک مسلمان کے خلاف کیس درج کرلیا، اس مسلمان کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے یہ پوچھا تھا کہ میلاد جلوس ہم کیوں نہ نکالیں؟ بس یہ کہنے پر پولیس نے اس مسلمان کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ آیا یہ انصاف ہے؟ یہ فرینڈلی پولیسنگ ہے؟ اس سلسلہ میں کمشنر پولیس سی وی آنند اور سیکولر چیف منسٹر کے سی آر کو غور کرنا چاہیے۔

a3w
a3w