مضامین

دروپدی مرمو کا انتخاب ملک کے لیے فالِ نیک ثابت ہوگا؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان کی 15ویں صدر جمہوریہ کی حیثیت سے اوڈیشہ کے سنتالی قبائلی طبقہ سے تعلق رکھنے والی 64سالہ دروپدی مر مو نے 25 جولائی 2022بروز پیر اپنے عہدہ کا حلف لے لیا۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ ایک پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک خاتون ملک کے سب سے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہوئی ہیں۔ دروپدی مرمو نے اپنی عوامی زندگی کا آ غاز ایک کونسلر کی حیثیت سے کیا۔ بعد ازاں وہ رکن اسمبلی کی حیثیت سے بھی منتخب ہوئیں اور اوڈیشہ میں نوین پٹنائک حکومت میں ریاستی وزیر بھی رہیں ۔ 2010میں مرکز کی بی جے پی حکومت نے انہیں جھارکھنڈ کا گورنر بنایا۔ سیاسی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے دروپدی مرمو نے اوڈیشہ حکومت کے محکمہ آبپاشی و بجلی میں جونیر اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت کی لیکن اس سے مطمئن نہ ہوکر انہوں نے پیشہ تدریس کو اختیار کرلیا۔ دروپدی مرمو کی نجی زندگی بھی چیلنجوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے دو نوجوان بیٹے حادثہ کا شکار ہوکر دنیا سے چل بسے اور انہوں نے اپنے شوہر کو بھی کھو دیا۔ اس وقت صرف ایک بیٹی ان کی امیدوں کا سہارا ہے۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے والی وہ پہلی قبائلی خاتون ہیں۔ پرتیبھا پاٹل کے بعد وہ دوسری خاتون صدر جمہوریہ ہیں۔ دروپدی مرمو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اب تک منتخب ہونے والے صدرور جمہوریہ میں سب سے کم عمر صدر جمہوریہ ہیں۔ ان کی پیدائش ملک کی آزادی کے بعد ہوئی ۔ دروپدی مرموکی شخصی زندگی یقینی طور پر قابل تعریف ہے۔ ایک کارپوریٹر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز کرنے والی دروپدی مرمو نے ملک کے اعلیٰ ترین دستوری عہدہ پر فائز ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اپنے عہدے کا حلف لینے کے بعد شریمتی دروپدی نے اپنے اولین خطاب میں کہا کہ ان کا صدر جمہوریہ بننا ملک کے ہر غریب کا کارنامہ ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں غریبوں کے خواب بھی پورے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی جمہوریت کی طاقت ہے کہ ایک غریب گھرانے اور قبائلی علاقہ کی بیٹی اعلیٰ ترین آئینی عہدہ پر فائز ہوئی ہے۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دورپدی مرمو کے اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہونا ہمارے جمہوری نظام کی ایک جھلک کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اگر ملک میں موروثی نظام رائج ہو تو کوئی عام آدمی اتنے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ دور اُفتادہ قبائلی علاقے سے نکل کر راشٹر پتی بھون تک پہنچنا واقعی دورپدی مرمو کے عزم و حوصلہ کو ثابت کرتا ہے۔ دروپدی مرمو کے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہونے سے قبائلی طبقہ کے علاوہ ملک کے محروم اور پسماندہ طبقوں میں بھی امید ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے۔ ان کا تعلق ایک پسماندہ قبائلی طبقہ سے ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ آج ملک میں اس طبقہ کو قومی ثمرات سے کیسے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ٹیچر رہ چکی ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ ملک میں تعلیم کا کیا حال ہے۔ لاکھوں بچے اب بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس ملک کے اعلیٰ طبقے کس طرح دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔ مذہب، ذات اور رنگ ونسل کے جو امتیازات ملک میں بڑھتے جا رہے ہیں اس سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ دروپدی مرمو ایک باوقار منصب پر فائز ہوئی ہیں، اس کے وقار کو باقی رکھنا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ وہ اگر اس اعلیٰ عہدہ کی ذ مہ داریوں کو محسوس کر تے ہوئے اپنے فرائض انجام دیںتو وہ ملک کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گی۔
دروپدی مرمو جس صبر آزما اور طویل جدوجہد کے بعد اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئی ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا کوئی غلط با ت نہیں ہے کہ وہ ملک میں جمہوری نظام کے استحکام اور شہریوں کے دستوری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے بارے میں کسی تحفظِ ذہنی سے کام نہیں لیں گی۔ وہ دستورِ ہند کی بالادستی اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے رکھنے میں اپنے عہدے کا بھرپور استعمال کریں گی۔ وہ حکومت کے کسی غیر آئینی اقدام کو دستوری جواز بخشنے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیں گی۔ ملک کی سلامتی اور مختلف فرقوں کے درمیان آپسی بھائی چارہ کو فروغ دینے پر ان کی خصوصی توجہ ہو گی۔ دروپدی مرمو نے ایک ایسے وقت صدر جمہوریہ کا عہدہ سنبھالا ہے جب کہ ملک میں جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ بر سرِ اقتدار جماعت اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل ڈال رہی ہے۔ دستوری اور قانونی ادارے بھی حکومت کے اشاروں پر چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت کے من مانی قوانین سے عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ اقلیتیں ہر لحاظ سے حاشیہ پر ڈال دی گئیں۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کی شکل میں کچھ بھیک دے کر سرکاری نوکریاں اور کچھ سیاسی عہدے تو دیے گئے ہیں لیکن ان کی سماجی حیثیت کو آج بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ دلت عورتوں کی عصمت ریزی کے واقعات کو شمار کرنا اب ممکن نہ رہا۔ ایسے بھیانک حالات میں ملک کے پندرہویں صدرجمہوریہ کی حیثیت سے شریمتی مرمو کا حلف لینا ، ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دستورِ ہند نے صدر جمہوریہ کو وسیع اختیارات عطا کئے ہیں۔ پارلیمنٹ کا کوئی بل صدر جمہوریہ کی دستخط کے بغیر قانون نہیں بن سکتا۔ صدر جمہوریہ ملک کی تینوں افواج کا سپریم کمانڈر ہو تا ہے۔ اسے کسی مجرم کی سزاکو معاف کرنے کا بھی اختیار ہے۔ غیر معمولی دستوری اختیارات کو رکھتے ہوئے بھی اگر شریمتی مرمو مرکزی حکومت کے احکامات کی پابند ہوجائیں گی تو اس سے اس آئینی عہدہ کا وقار متاثر ہوگا۔ دستور کی تدوین سے اب تک چودہ صدر جمہوریہ ہوچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر صدور نے اپنے دستوری فرائض کو انتہائی غیر جانبداری کے نبھایا۔ خاص طور پر ڈاکٹر راجندر پر ساد، سروے پلی رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، وی وی گیری، کے آر نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام کو ہندوستانی عوام بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ راجندر پرساد ، دستور ساز اسمبلی کے صدر نشین رہ چکے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ ایک دستوری سربراہ کی ذ مہ داری کیا ہو تی ہے۔ رادھا کرشنن اور ذاکر حسین ، دانشوارانہ سوچ رکھتے تھے اور پیشہ تدریس سے ان کا تعلق تھا، اس لیے انہوں نے ملک میں دستوری قدروں کے نفاذ میں اہم رول ادا کیا۔ کے آر نارائنن ، دلت طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے دور صدارت میں اس عہدہ کو جو وقار بخشا اس کی ایک خاص انفرادیت ہے۔ اے پی جے عبد الکلام نے صدر جمہوریہ ہو تے ہوئے جس سادگی سے زندگی بسر کی اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے عہدہ کا کبھی بیجا استعمال نہیں کیا۔
ان قدآور شخصیتوں کے اقدامات سے استفادہ کر تے ہوئے دروپدی مرمو بھی اپنے پانچ سالہ دور صدارت کو تاریخی بنا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ان میں سیاسی عزم کے ساتھ دستور کے نفاذ کا حوصلہ ہونا بیحد ضروری ہے۔ پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر انہیں سب کو ساتھ لے چلنے اور ہر مرحلہ پر دستوی ضمانتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ بعض صدر ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے حکومت کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر دیا۔ اس لیے یہ کہا جانے لگا کہ صدر جمہوریہ کا عہدہ ایک ” ربر اسٹامپ “ہے۔ صدر وہی کام کرتاہے جس کا حکم وزیر اعظم کی جانب سے دیا جا تا ہے۔ اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ موجودہ صدر مرکزی حکومت کے ہر اشارے پر چلنے اور قبول کے عادی نہ بن جائیں۔
مودی حکومت نے دروپدی مرمو کو اس اعلیٰ ترین عہدہ کے لیے اپنا امیدوار کیوں بنایا اور ان کی کا میابی کو یقینی کیوں بنایا، اس کا جواب تو بی جے پی پارٹی ہی دے سکتی ہے، لیکن اب نئی صدر جمہوریہ کو پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر پورے ملک کے عوام کی توقعات کو پورا کرنا ہے۔ وہ ملک کی پہلی شہری ہیں۔ اس لحاظ سے ملک کی140 کروڑ آبادی کی وہ نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کا تعلق قبائلی طبقہ سے ہے، لیکن اب ملک کے جتنے طبقے ہیں، ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل میں تاخیر سے کام نہیں لیں گی۔ آج ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے، اس کو روکنے کے لیے صدر جمہوریہ کوٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے۔ دستور نے آزادی¿ رائے کا جو حق دیا ہے، اسے حکومت چھین رہی ہے۔ دستوری اور قانونی اداروں میں شفافیت کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت کی ایجنسیوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ شہریوں کے جائز مطالبات کو طاقت کے ذریعہ کچل دیا جا رہا ہے۔ ان ناگہانی حالات سے شریمتی مرمو کس طرح نمٹتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا کسی طبقہ کے کسی شخص کو کسی اعلیٰ عہدے پر فائز کردینے سے اس طبقہ کے مسائل ہوجاتے ہیں؟ ڈاکٹرذاکر حسین ، فخر الدین علی احمداور اے پی جے عبدالکلام ، مسلمان صدر جمہوریہ گزرے ہیں۔ ان مرحومین کے اس اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے سے کیا سارے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل ہو گئے؟ کے آر نارائنن اور رام ناتھ کوند، دلت طبقے سے آئے تھے۔ ان کے صدر بن جانے سے کیا دلتوں کی حالت میں سدھار آیا۔ اور اب پہلی مر تبہ قبائلی خاتون کی قسمت میں یہ عہدہ آیا ہے۔ ان کے صدر بننے سے ملک کے قبائیلوں کو کوئی راحت ملے گی؟ دور دور تک کوئی یہ کہنے کے موقف نہیں ہے کہ اس سے اس طبقہ کا کوئی بھلا ہوگا۔یہ نمائشی عہدے اس لیے دیے جا تے ہیں کہ عالمی سطح پر یہ باور کرایا جا سکے کہ ہندوستان میں سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جا تا ہے۔ ایک عام شہری بھی ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں آدی واسیوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں شورش کا ماحول بھی ہے۔ ان طبقوں میں یہ شعور جاگ رہا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ ملک میں نکسلزم کو بڑھاوا دینے میں قبائلی علاقے اپنا اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے ان ساری چیزوں پر قابو پانے کے لیے اس مرتبہ قبائلی خاتون کو صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ مودی حکومت نے کیا۔ دروپدی مرمو نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز بھی بی جے پی سے کیا ہے۔ اس لیے پارٹی کی وفادار اور پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے والی دروپدی مرمو ، وزیراعظم نریندرمودی کی نظر التفات کی مستحق ہو گئیں۔ بی جے پی نے ان کو صدر بناکر قبائلیوں کے ووٹ بینک کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ قبائلی ملک کی آبادی کا 8.6 فیصد ہیں۔ ایک قبائلی خاتون کے صدر بن جانے سے اتنی بڑی آبادی کے مسائل حل ہوجاتے ہیں تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ آزادی کے 75سال بعد بھی ملک کے کئی طبقے ایسے ہیں جن کے ساتھ حکومتوں نے کوئی انصاف نہیں کیا۔ نئی صدر جمہوریہ ان طبقات کے دیرنیہ مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں اور انہیں حل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیتی ہیں تو اس سے ملک میں سماجی ، معاشی اور سیاسی انصاف کی جو راہ ہموار ہوگی اس سے صدرجمہوریہ کے عہدہ کے وقار میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ اس کے برعکس حالات پیدا ہوتے ہیں تو صدر کے عہدہ جلیلہ کے تئیں عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے۔ انہوں نے جس دستور کا حلف لیتے ہوئے اس عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ اس کے مطابق عمل کریں تا کہ ملک میں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہوں۔