’’دو پہیے‘‘
میاں بیوی کوازدواجی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے اور اگر ان میں موافقت کا فقدان ہو تو اس گاڑی کا چلنا مشکل اور کبھی کبھی ڈان کو پکڑنے کی طرح مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجاتاہے… کہنے کا مطلب یہ کہ پہیہ بار بار پنکچر ہوجاتا ہے ،کبھی ایک ٹائر پھٹ پڑتا ہے تو کبھی دوسرا ٹائر منہ کھول دیتا ہے ، کبھی کسی ٹائر کی ہوا اتر جاتی ہے تو کبھی کسی ٹائر کی …لیکن عموماً یہ گاڑی چلتی رہتی ہے ، خوش نصیب ہیں ازدواجی زندگی کی وہ گاڑیاں، جن کے پہیوں کی ہوا کبھی نہیں اترتی، نہ وہ پنکچر ہوتے ہیںاور نہ ہی پھٹتے ہیں …
حمید عادل
میاں بیوی کوازدواجی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے اور اگر ان میں موافقت کا فقدان ہو تو اس گاڑی کا چلنا مشکل اور کبھی کبھی ڈان کو پکڑنے کی طرح مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجاتاہے… کہنے کا مطلب یہ کہ پہیہ بار بار پنکچر ہوجاتا ہے ،کبھی ایک ٹائر پھٹ پڑتا ہے تو کبھی دوسرا ٹائر منہ کھول دیتا ہے ، کبھی کسی ٹائر کی ہوا اتر جاتی ہے تو کبھی کسی ٹائر کی …لیکن عموماً یہ گاڑی چلتی رہتی ہے ، خوش نصیب ہیں ازدواجی زندگی کی وہ گاڑیاں، جن کے پہیوں کی ہوا کبھی نہیں اترتی، نہ وہ پنکچر ہوتے ہیںاور نہ ہی پھٹتے ہیں …
افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کہہ گئے ہیں :’’ہر معقول آدمی کا بیوی سے جھگڑا ہوتا ہے کیونکہ مرد عورت کا رشتہ ہی جھگڑے کا ہے۔ ‘‘لیکن ایک نامعقول آدمی کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہم نے برسوں جھیلا ہے …
ہمارے محلے میں ایک شرابی تھا،خود سے بے خبر ، ہمیشہ نشے میں دھت…کماتا کچھ نہیں،بیوی محلے میں کام کاج کرکے دو پیسے کماتی لیکن وہ رقم بھی اس سے چھین لیتااور نشے کی نذر کردیتا …اس کی بے حواسی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن اپنا گھرسمجھ کرکسی اور کے گھر میںگھس گیا اور خاتون خانہ سے مطالبہ کرنے لگا کہ جو وہ گوشت لایا ہے ، اسے چٹ پٹ، چٹ پٹا بنا کراس کی خدمت میں پیش کیا جائے … خاتون خانہ کی چیخ و پکار پر سارا محلہ اکٹھا ہوگیا اور اس شرابی کو وہاں سے مار پیٹ کر نکالا گیا…اسے شو مئی قسمت کہیں یا شامت اعمال کہ وہ شرابی ہمارا پڑوسی تھا اور بیوی کووجہ بے وجہ بڑی بے دردی سے پیٹا کرتا تھا…عام طورپرلفظی تکرارسے ان کا جھگڑا شروع ہوتا اور پھر نوبت تشدد تک پہنچ جاتی ، بیوی شوہر کی مار برداشت نہ کرپاتی ، چیختی چلاتی،روتی پیٹتی اور ایسا مہینے میں کئی بار ہوتا … جس دن پڑوس کے گھر میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا ، ہمیں بڑی سکون کی نیند آتی… رات کے سناٹے میں ان کی آوازیں ہمیں اتنی واضح طورپر سنائی دیتیں کہ ہم آنکھیں کھول کر ہونقوں کی طرح اپنے کمرے کا جائزہ لیتے کہ کہیں وہ دونوں ہمارے کمرے میں بیٹھ کر توجھگڑ نہیں رہے ہیں …
پچھلی رات ہم تھکن سے چور بستر پر لیٹے ہی تھے تو میاں بیوی ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے … ہمیشہ کی طرح شوہر شربت غالب کے نشے میں چور تھا اور غالباً چوروں کی طرح گھر میں داخل ہوا تھا …بیوی نے تنک کر کہا ’’جب بھی نشہ کرتے ہو، چوراچکوں کی طرح گھر میں کیوں گھس آتے ہو؟‘‘
شوہر تڑخ کر بولا :’’ چور کس کو کہہ رہی ہو، تمہارا باپ چور، تمہارا خاندان چور اور سب سے بڑی چور تو تم ہو ….‘‘
’’ تمہارے پاس ہے کیا،جو میں چراؤں گی؟ ‘ ‘ بیوی پھٹ پڑی۔
’’ میرا سکھ، میرا چین،میری خوشیاں ، سب کچھ تو چرالیا ہے تم نے …‘‘
بیوی بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی،چہک اٹھی: ’’اسی کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے،کماتے تو کچھ نہیں ہو ، میری کمائی لوٹ لیتے ہو اور پھر مجھ ہی کو چور کہتے ہو ؟‘‘
شوہرنے دلیپ کمارانہ انداز میں سرگوشی کی : ’’اب میری زندگی کیوں عذاب کرتی ہو، نکاح کے وقت خود ہی تو کہا تھا کہ قبول ہے ، قبول ہے، قبول ہے…‘‘
بیوی نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا:’’ ہاں! وہ میری سنگین غلطی تھی اگر میں اپنا مستقبل اس وقت جان لیتی تویقینی طور پر صرف یہی کہتی کہ ’’فضول ہے، فضول ہے، فضول ہے۔‘‘
…رات کے بارہ بج چکے تھے اور دونوں مسلسل لڑے جارہے تھے، اس بات سے بے نیاز کے ان کے پڑوس میں ڈسپلن کا پابند ایک ایساانسان بھی رہتا ہے جو جلدی سوتا ہے اور جلدی جاگتا ہے اورجو دیوار پر آیزاں گھڑی کی ٹک ٹک کا شور بھی برداشت نہیں کرپاتا ہے …کبھی لوگ جس طرح لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپ لیا کرتے تھے ،ٹھیک اسی طرح ہم نے بھی تاڑ لیا کہ میاں بیوی کی یہ لڑائی جلدی ختم ہونے والی نہیں ہے … ہاتھ چلانے کے معاملے میں شوہر آگے تھا تو زبان چلانے میں بیوی ید طولیٰ رکھتی تھی، بیوی کی کوئی بات شوہر نامدارکو سخت ناگوار گزری اور اس نے بیوی کو دھنک کر رکھ دیا …لیکن بیوی کی زبان برابر چل رہی تھی…بیوی کی تڑپا دینے والی سسکیوں نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا …دریں اثناغائب سے آواز آئی:’’ حمید عادل! آخر کب تک بزدل بنا رہے گا، تیرے پڑوس میں ایک ابھلا ناری پر’’اتیا چار‘‘ ہو رہا ہے ،جا، اسے بچا لے،ظالم کو مزہ چکھا…جا حمید عادل جا ،جا حمید عادل جا …‘‘ اس غیبی آواز کے ترغیبی جملوں نے ہم میں اتنا جوش بھر دیا کہ ہم کب پڑوسی کے دروازے پر پہنچ گئے خودہمیں پتا نہ چلا …ہم نے دروازے پر دستک دی،شرابی نے دروازہ کھولااور ہم نے اپنا منہ :’’ شرم نہیں آتی،شراب پیتے ہو،بیوی کو مارتے ہو،تم انسان ہو کہ حیوان؟‘‘ہمارا اتنا کہنا تھا کہ شرابی کی بیوی دندناتی ہوئی باہر آئی اور ہمیں کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کہنے لگی:’’میاں بیوی کے جھگڑے میں تم کون ہوتے ہو، دخل دینے والے…آئندہ ہمارے گھر کا رخ کیا تو انجام کے تم خود ذمے دار ہوں گے …‘‘ بیوی کے سخت تیور دیکھ کر ہم دنگ اور زبان گنگ ہوگئی، ساری باتیں گلے میں گھٹ گئیں،ہم بت بنے کھڑے کے کھڑے رہ گئے …بیوی نے شوہر کو گھر کے اندر کرتے ہوئے دروازہ ایک جھٹکے سے بند کیا اور ہم ’’ کارواں گزر گیا،غبار دیکھتے رہے‘‘کے مصداق کچھ دیر تک وہیں کھڑے ایک باوفابیوی کا وقاردیکھتے رہے …جس ابھلا ناری کو ہم بچانے کے لیے گئے تھے،اس کی باتیں ہمارے ذہن پرمسلسل ہتھوڑے برسا رہی تھیں ’’میاں بیوی کے جھگڑے میں تم کون ہوتے ہو، دخل دینے والے… آئندہ ہمارے گھر کا رخ کیا تو انجام کے تم خود ذمے دار ہوں گے؟‘‘یہ وہ بیوی کہہ رہی تھی جووقتاً فوقتاً شوہر کے تشدد کا شکار ہوا کرتی تھی …
معروف قلمکار چودھری محمد علی ردولوی اپنے مضمون ’’ بیوی کیسی ہونا چاہیے‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’مجھ سے سوال کیا گیا کہ بیوی کیسی ہونا چاہیے، میں کہتا ہوں کہ کوئی بری بیوی مجھ کو دکھادے تو میں اس سوال کاجواب دوں۔ میرے خیال میں بیوی خدا کی نعمت ہے اور خدا کی نعمت کبھی بری نہیں ہوتی۔ بیوی کی وجہ سے گھر میں روشنی سی پھیلی رہتی ہے۔ چراغ کے نیچے ذرا سا اندھیرا بھی ہوتا ہے، جیسا کہ میں ایک مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اگر کوئی نادان مرد ذری سی تاریکی سے گھبراکر چراغ کی شکایت کرے تو اندھیرا ہی تو ہے۔ میں اس کا بھی دعوے دار ہوں کہ میں نے آج تک کوئی بدصورت عورت بھی نہیں دیکھی۔ آنکھیں رکھتا ہوں اور دنیا دیکھتی ہے، اگر کہیں ہوتی تو آخر میں نہ دیکھتا…اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بدصورت سے بدصورت جو کہی جاسکتی ہے اس کا بھی چاہنے والا کوئی نہ کوئی نکل آتا ہے۔ پھر اگر وہ بدصورت تھی تو یہ پرستش کرنے والا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ اس لیلیٰ کا مجنوں کہاں سے آگیا؟ نہیں صاحب! عورت بدصورت نہیں ہوتی ،یہ میرا ایمان ہے او ریہی ایمان ہرشخص کا ہونا چاہیے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ عورت میں عمدہ ترشے ہوئے ہیرے کی طرح ہزاروں پہل ہوتے ہیں اور ہر پہل میں آفتاب ایک نئے رنگ سے مہمان ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی پہل کسی (خاص شخص) کی آنکھ میں ضرورت سے زیادہ چکاچوندھ پیدا کردے اور وہ پسند نہ کرے تو اس سے بیو ی کی برائی کہاں سے ثابت ہوئی۔ ‘‘
(اقتباس ختم ہوا)
کہنے والوں نے شادی کو ایک ایسے لڈو سے تعبیر کیا ہے کہ جو کھائے پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے …شادی سے متعلق کہا گیا یہ لڈو ہمیں آسانی سے ہضم نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ شادی کے بغیر زندگی مکمل کہاں ہوتی ہے …مشہور مفکر سقراط کہتے ہیں: ’’میرا آپ کو مشورہ ہے کہ شادی کر لیں، اگر آپ کو اچھی بیوی مل جائے تو آپ خوش ہوں گے… اگر نہیں، تو آپ ایک فلسفی بن جائیں گے… ‘‘فرانز شوبرٹ کا قول ہے :’’خوش نصیب ہے وہ آدمی جس کو سچا دوست ملے اور زیادہ خوش وہ ہے جس کو وہ سچا دوست اپنی بیوی میں ملے۔ ‘‘
بیوی وہ ہوتی ہے کہ شوہر جسے دیکھ کر اپنے غم بھول جاتا ہے …اسی بات کو مارٹن لوتھر کنگ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ’’شوہر کے گھر آنے پربیوی خوش ہو اور اسے رخصت ہوتا دیکھ کررنجیدہ ۔‘‘اسی قول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ایک دن دفتر جاتے ہوئے پھول بانو سے کہا:’’ بیگم! جب بھی ہم دفتر سے آئیں، ہمارا مسکرا کر استقبال کریں …‘‘بیگم فوری راضی ہوگئیں…شام کو ہم طوفانی بارش میں بھیگ کر تھرتھراتے ہوئے گھر پہنچے تو پھول بانو نے ہمارے کہے کے عین مطابق مسکرا کر ہمارا استقبال کیا…ایسے حالات میں کہ ہم ٹھنڈ سے کانپ رہے ہیں، پھول بانو کا ہمیں دیکھ کر مسکرانا جہاں ہمارے لیے زہر ثابت ہوا وہیںہم ان کی سادہ لوحی کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے …
ایک بڑے فلسفی کا قول ہے ’’ باورچی خانے میں بیوی کی مدد کر کے اس کا دل جیت لیں… ‘‘ اسی پرعمل کرتے ہوئے ہم نے ایک دن باورچی خانے میں پھول بانو کا ہاتھ بٹایا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ، بیگم ہمیں وقت بے وقت باورچی خانے کی نذر کردیتی ہیں…ہماری بنائی گئی ڈش لذیذ بن جائے تو ہمیں کوئی لائیکس نہیں ملتیں، البتہ نمک کم ہوجائے تو شکایت ضرور کرتی ہیں کہ نمک کم ہے … ایک دن ہم نے بے چین ہوکرپوچھ ہی لیا : آخر تم ہمارے پکوان کی دل کھول کرتعریف کیوں نہیں کرتیں؟ کہنے لگیں ’’ اگرمیں آپ کے پکوان کی تعریف کرنا شروع کردوں تو مجھے ڈر ہے کہ آپ مغرورہوجائیں گے اور غرور اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ ‘‘ ہم کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن ہمیں راونڈا کے معروف مصنف Bangambiki Habyarimana کا یہ قول یاد آگیا کہ ’’ مرد کو اپنی بیوی کا خاموشی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ ‘‘انگریزی ادب کے معروف شاعر اور ادیب جان فلوریو کہتے ہیں ’’ ایک اچھا شوہر اچھی بیوی بناتا ہے۔ ‘‘
کامیاب ازدواجی زندگی وہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کو اس حد تک سمجھیں کہ بنا کہے ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کردیں …اوراگر ایسا نہیں ہوتاہے تو پھر اس قبیل کا شعر جنم لیتا ہے:
کوئی اکیلا اکیلا ہے عمر بھر یوں ہی
کہ ہم سفر تو یقینا ہے ہم مزاج نہیں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰