سیاستمضامین

کیوں پیچھے ہیں مسلمان تعلیم اور تجارت میں

مسلمانوں کو کئی ایک محاذوں پر چیالنجس کا سامنا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی ترقی کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک ایسے پس منظر میں جب تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباء اپنی کامیابی کے سفر میں موبائل فون کے نہ ہونے کو ایک اہم سبب قرار دے رہے ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوان نسل میں موبائل فون کے استعمال کو لت میں بدلنے سے پہلے اقدامات کریں۔ ایک فیصدی آبادی رکھنے والی ہندوستانی اقلیت جین طبقہ موبائل فون کی لعنت سے اپنی قوم کو محفوظ رکھنے اقدامات کر رہا ہے تو مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے اقدامات اور فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کی نہ تو تعلیم کی صورتحال بہتر ہے اور نہ ہی مسلمان تجارت کے میدان میں جین طبقے کی طرح کامیاب ہیں۔

محمد مصطفی علی سروری

دیوانشو مالو کا تعلق اڑیسہ سے ہے۔ اس طالب علم نے 11؍ ستمبر 2022ء کو جب JEE Advance کا اعلان کیا گیا تو اس میں کل ہند سطح کا 11 واں رینک حاصل کیا اور پوری ریاست اڑیسہ میں سرفہرست پوزیشن حاصل کی۔ قارئین ایک اور اہم بات یہ تھی کہ اسی امتحان میں دیپانشو مالو نے بھی 226 واں رینک حاصل کیا۔ دونوں آپس میں بھائی ہوتے ہیں۔ دو بھائیوں کی نمایاں کامیابی پر اخبارات اور میڈیا کے چیانلس پر بھی خصوصی رپورٹیں پیش کی گئیں۔JEE Advance کل ہند سطح کا باوقار انٹرنس امتحان ہے۔
12؍ ستمبر 2022ء کو انڈیا ٹوڈے کی دیویا چوپڑا نے دیوانشو مالو کا ایک انٹرویو شائع کیا۔ انڈیا ٹوڈے کی نمائندہ خاتون سے بات کرتے ہوئے دیوانشو نے بتلایا کہ جے ای ای کے امتحان کے لیے میں نے چھٹی جماعت سے تیاری شروع کردی تھی اور روزانہ 10 گھنٹے پڑھائی کرتا۔ سستی سے بچے رہنے کے لیے میں وقعتا فوقتاً تھوڑی دیر کے لیے نیند لیتا تھا اور پھر فریش ہوکر پڑھائی شروع کردیتا۔
قارئین دیگر دوسرے سوالات کے بعد جب انڈیا ٹوڈے کی رپورٹر نے دیوانشو سے دریافت کیا کہ وہ موبائل فون اور سوشیل میڈیا پر کتنا وقت گذارا کرتے تھے تو اس نوجوان طالب علم نے جو جواب دیا وہ سبھی کے لیے دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔
دیوانشو نے بتلایا کہ اس نے سوشیل میڈیا کا استعمال ہی نہیں کیا۔ کیونکہ اس کو سوشیل میڈیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔
قارئین ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ JEE Main جیسے مسابقتی امتحان میں ٹاپ کرنے والا اسٹوڈنٹ ہو اور سوشیل میڈیا سے ناواقف ہے تو تھوڑا سا تعجب ہوتا ہے کہ کیا دیوانشو کے والدین نے اس کو موبائل فون نہیں دلوایا ہوگا وار آخر دیوانشو کے والدین ہیں کون؟
دیوانشو کے مطابق وہ انٹرنیٹ سے واقف بھی ہے اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی کرتا رہا ہے۔ اس کے مطابق اس نے JEE Main کے لیے Allen بھوبنیشور سے کوچنگ حاصل کی اور کوچنگ آن لائن تھی جس میں وہ آن لائن ہی شریک ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیوانشو انٹرنیٹ اور موبائل سے واقف تھا لیکن اس نے تعلیم کے علاوہ انٹرنیٹ کا دوسرا کوئی استعمال نہیں کیا۔
اب سوال دیوانشو کے والدین کا تھا کہ وہ لوگ کون ہیں اور آخر کیا راز ہے کہ آن لائن تعلیم حاصل کرنے والا دیوانشو سوشیل میڈیا سے محفوظ رہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کی نمائندہ خاتون کے مطابق دیوانشو کے والد مشہور زمانہ آئی ٹی کمپنی انفوسس کے سینئر سافٹ ویئر آرکٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو سوشیل میڈیا سے بچائے رکھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک نوجوان کل ہند سطح پر نمایاں تعلیمی مظاہرہ کرتا ہے اور فخریہ طور پر کہتا ہے کہ ہاں میں سوشیل میڈیا کا استعمال نہیں کرتاہوں۔
آیئے اب ذرا دیوانشو کے خاندان کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔ اخبارنیو انڈین ایکسپریس کی 12؍ ستمبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق دیوانشو کے جڑواں بھائی کا نام دیپانشو ہے اور اس نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ JEE اڈوانس میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ایک گھر کا ایک لڑکا نمایاں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو اتفاق کہا جاسکتا ہے۔ ایک ہی گھر کے دو بھائی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو ان بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کامیابی اتفاقی نہیں بلکہ محنت کا نتیجہ ہی ہے۔
سوشیل میڈیا کس طرح سے ہماری نوجوان نسل کی توانائی، وقت اور مستقبل کو خراب کر رہا ہے اس کا سدباب ضروری ہے۔
کیرالا کے تھامس بجو نے جے ای ای اڈوانس میں کل ہند سطح پر تیرہواں رینک حاصل کیا ہے۔ Mathrubhumi.com کی رپورٹ کے مطابق تھامس روزانہ 12 گھنٹے پڑھائی کرتا تھا۔ اس پڑھائی کے دوران وہ روزآنہ کی بنیاد پر 150 سوالات کو حل کرنے کی پریکٹس کرتا تھا۔ ٹیچرس کے ساتھ اپنے خدشات کو روز کا روز پوچھ لیا کرتا تھا اور رپورٹ کے مطابق سب سے اہم سبق جو تھامس کی کامیابی کا راز رہا وہ موبائل فون کا استعمال ترک کرنا ہے۔ تھامس کے مطابق وہ انٹرنیٹ ضرور استعمال کرتا تھا لیکن صرف پڑھائی کے لیے اور موبائل کا استعمال بالکلیہ ترک کر دیا تھا۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہمارے ملک ہندوستان میں جین طبقے کی آبادی 9.5 ملین ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کے 20؍ جنوری 2014ء کو جاری کردہ حکم نامے کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھ، بدھسٹ اور پارسیوں کے علاوہ جین بھی اقلیت میں ہے۔
ہندوستان میں جین کمیونٹی کے لوگ تجارتی میدان میں بڑے سرگرم ہیں۔ یہاں تک کہ ایک رپورٹ بحوالہ 10؍ نومبر (Mumbai Mirror 2006) دنیا کے تیسرے سب سے امیر ترین سرمایہ دار گوتم اڈانی کا تعلق بھی جین طبقے سے ہے اور وہ خود بھی (جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن) سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان کی کل آبادی کا صرف ایک فیصدی طبقہ جین کمیونٹی کا ہے۔ لیکن یہ لوگ تجارت کے میدان میں بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ بتلایا جاتا ہے کہ ملک میں انکم ٹیکس کا 25 فیصدی حصہ اسی جین کمیونٹی سے حاصل ہوتا ہے۔
خیر سے قارئین میں اب اپنے اصل موضوع کی طرف واپس لوٹ آتا ہوں کہ ملک کے باوقار انجینئرنگ کورسز میں داخلہ کا امتحان کامیاب کرنے والے طلبہ نے کس طرح سے موبائل فون سے ترک تعلق کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح سے ہندوستان کی جو (چھٹی 6th) اقلیت جین ہے انہوں نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا کہ موبائل آج کل ہماری زندگیوں میں کس قدر درآیا ہے۔ جین کمیونٹی چونکہ حقیقت پسند ہے اور تجارت کر کے منافع کمانے پر یقین رکھتی ہے تو اس کمیونٹی نے موبائل سے چھٹکارے کی اہمیت کو سمجھ لیا۔
پریوشن پروا جین کمیونٹی کا ایک اہم تہوار ہے۔ ہر سال اپنے آپ کو پاک و صاف رکھنے اپنا احتساب کرنے اور اپنی روحانی ترقی کے لیے جین یہ تہوار مناتے ہیں۔ اس تہوار کے دوران جین کمیونٹی کے لوگ روزہ رکھنے کے علاوہ پوجا اور دیگر رسومات کا ہر سال انعقاد کرتے ہیں۔ لیکن اس برس 9؍ ستمبر 2022 کی فرسٹ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کے جین طبقے کے لوگوں نے "Digital Fast” منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ڈیجیٹل روزے کے دوران 1000 جین لوگ جب مدھیہ پردیش کی مندر میں عبادت کے لیے جمع ہوئے تو وہاں پر ان سے ان کے موبائل فون چوبیس گھنٹے کے لیے (جتنا وقت وہ عبادت میں گزاریں گے) ان سے لے لیے گئے تھے۔
اکشئے جین کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا تھا کہ صرف موبائل فون ہی نہیں بلکہ پریوشن پرو کے دوران کسی بھی جین کو موبائل فون، لیاپ ٹاپ، کمپیوٹرس کچھ بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ اس دوران پوری یکسوئی کے ساتھ صرف عبادت، احتساب اور روحانی ترقی کا کام کیا جاسکے۔
قارئین ذرا اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک کی ایک فیصدی آبادی والی اقلیت کاروباری میدان میں کس قدر آگے ہے اور وہ دورِ حاضر کے مسائل کو کس انداز میں حل کرنے کے لیے کوشاں ہے او ریہ بات سمجھتی ہے کہ موبائل فون آج کے دور میں رحمت کم اور زحمت زیادہ بن گیا ہے اور کوئی بھی انسان اپنی موبائل فون کو ترک کرے بغیر اپنی عبادات کو بھی پورا نہیں کرسکتا ہے۔
مسلمانوں میں صلاحیت، قابلیت کی بالکل بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن گذشتہ پانچ برسوں کے دوران موبائل فون کی لت نے اس قوم کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔
International Journal of Preventive Medicine میں شائع شدہ ریسرچ کے مطابق ہندوستان میں اسمارٹ فون کے غلط استعمال کے عادی افراد کی شرح 39 فیصدی تا 44فیصدی کے درمیان ہے۔ خاص کر ہندوستان کی نوجوان نسل میں موبائل فون کی لت سے ان کی باہمی مہارت کو نقصان ہو رہا ہے۔ بلکہ نوجوان نسل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور خاص کر نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
مسلمانوں کو کئی ایک محاذوں پر چیالنجس کا سامنا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی ترقی کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک ایسے پس منظر میں جب تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباء اپنی کامیابی کے سفر میں موبائل فون کے نہ ہونے کو ایک اہم سبب قرار دے رہے ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوان نسل میں موبائل فون کے استعمال کو لت میں بدلنے سے پہلے اقدامات کریں۔ ایک فیصدی آبادی رکھنے والی ہندوستانی اقلیت جین طبقہ موبائل فون کی لعنت سے اپنی قوم کو محفوظ رکھنے اقدامات کر رہا ہے تو مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے اقدامات اور فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کی نہ تو تعلیم کی صورتحال بہتر ہے اور نہ ہی مسلمان تجارت کے میدان میں جین طبقے کی طرح کامیاب ہیں۔
یقینا مسلمانوں کا ایمان اللہ رب العزت کی ذات پر ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اور وہ ساری دنیا کا مالک ہے۔ لیکن اسی مالکِ کائنات نے اپنے نبی رحمت حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ سے ہم سب کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں تعلیم بھی حاصل کرنی ہے اور تجارت بھی کرنا ہے اور اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ موبائل فون کا استعمال ہماری نوجوان نسل کو تعلیم سے، اپنی زندگی کے بنیادی مقصد سے دور کر رہا ہے تو اس مسئلے کے سدباب کے لیے اقدامات بھی ہمیں ہی کرنے ہوں گے۔ کاش کہ ہم اس حوالے سے ہوش کے ناخن لیں۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) ۔sarwari829@yahoo.com
۰۰۰٭٭٭۰۰۰