ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ملک میں اس وقت جن طاقتوں کے قبضہ میں اقتدار کی کنجیاں ہیں وہ اس ملک کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور دستوری حقوق کو سلب کرلینا اپنا فطری حق ماننے لگی ہیں۔ اسی لیے ہر تھوڑے دن بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ کبھی مسجدوں میں دی جانے والی اذان پر پابندی کے لیے قوانین بنائے جا تے ہیں اور کبھی مسلمانوں کی عید گاہوں میں گنیش کی مورتی نصب کرکے ایک مقدس مقام کو شرک کی آلودگیوں سے ناپاک کرنے کی کوشش کی جا تی ہے۔ کبھی مسلم طالبات کا حجاب میں تعلیم حاصل کرنا ان کو کھٹکنے لگتا ہے اور کبھی دوسو سال سے اس ملک کی تہذیب و تمدن کو سنوارنے والے دینی مدارس ان کو دہشت گردی کے اڈے نظر آنے لگتے ہیں۔ غرض یہ کہ کسی نہ کسی طرح ملک میں مذہبی منافرت کے جنون کو بڑھانے اور اکثریت کے ذہن کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ گز شتہ دنوں آسام میں جس انداز سے دینی مدارس کے خلاف وہاں کی بی جے پی حکومت نے جس تعصّب اور کھلی فرقہ پرستی کا بدترین مظاہرہ کیا وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اب اس ملک میں آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے دستوری حقوق اور آزادیوں کو کھلے عام سلب کرلیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف غیر قانونی طاقت کا استعمال اور ان کو خوفزدہ کرنے کے سارے حربے ان دنوں دیکھے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں کے مکانات پر بلڈوزر چلادیے۔ مسلم نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں ماخوذ کردیا گیا اور اب یہی بربریت اور شقاوت کے ہولناک منظر آسام میں نظر آ رہے ہیں۔ آسام میں جب سے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے، اس وقت سے ہی آسام کے مسلمان سخت آزمائش اور نا قابل بیان مصائب و مشکلات کے دور سے گزررہے ہیں۔ آسام میں بی جے پی کو پہلی مرتبہ 2016میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اس وقت سے ہی بی جے پی ریاست میںزہریلی سیاست کا کھیل رچانے کی تیاری میں لگ گئی۔ چناچہ 2019 میں یہیں سے این آ ر سی کا مسئلہ شروع ہوا۔ پھر مرکز کی بی جے پی حکومت نے سی اے اے کا سیاہ قانون ملک میں نافذکرنے کی کوشش کی۔ ان دونوں قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کو دیس نکالا کرنے کی منظم سازش رچائی گئی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ ملک کی جمہوریت نواز اور انصاف پسند قوتوں نے ان ظالمانہ قوانین کے خلاف وہ زبردست احتجاج کیا کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اس کی گونج سنائی دی۔ دہلی کے شاہین باغ کی نڈر اور بیباک خواتین نے اپنے بے مثال عزم وہمت کی ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموشی ایک جرم عظیم ہے۔ سی اے اے۔ این آر سی کے خلاف اٹھنے والی شدید مزاحمت سے خود حکومت پریشان ہو گئی اور وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اپنی اس ناکامی کا نزلہ اب آسام میں دینی مدارس پربلڈوزر چلاکر نکالا جا رہا ہے۔ یہ وہ مدارس ہیں جہاں معصوم بچے تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ اور یہ بچے اکثر غریب خاندانوں کے ہوتے ہیں۔ آخر ان بے قصور بچوں کو کس بات کی سزا دی گئی ہے کہ راتوں رات ان کے مدرسے منہدم کر دیے گئے اور انہیں بارش اور سردی میں زیر ِ آسمان رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ کیسا قانون ہے کہ کسی مبینہ دہشت گرد کی کارستانی پر ناکردہ گناہ بچوں سے اس کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کھلی دہشت گردی ہے۔
اس وقت آسام اور اتر پردیش میں دینی مدارس کے خلاف وہاں کی حکومتوں کا رویہ انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔ آسام میں تین مدارس کو حکومت کے کارندوں نے جس انداز میں منہدم کردیا اس کا کوئی قانونی جواز حکومت فراہم نہیں کرسکتی۔ پہلے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک دینی مدرسہ کے استاذ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ ان کے تعلقات القاعدہ اور بنگلہ دیش کی کسی دہشت گرد تنظیم سے ہیں۔ ان کو پولیس نے گرفتار بھی کرلیا ہے۔ لیکن تادم ِ تحریر آسام کی کوئی تحقیقاتی ایجنسی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے والے شخص کی گرفتاری کے بعد تین مدرسوں کو بغیر کوئی قانونی نوٹس دیے منہدم کر دینا کیا یہی ملک میں قانون کی حکمرانی کا ثبوت ہے۔ سب سے پہلے تو کسی پر الزام لگا دینا بڑا آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اس کا کوئی ثبوت حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ اب حکومت کی جانب سے یہ جواب آرہا ہے کہ مدرسوں کی یہ عمارتیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھیں، اس لیے انہیں منہدم کردیا گیا۔ حکومت کے اس موقف کو بھی مان لیا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا سارے ہندوستان میں جو بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں کیا وہ سب حکومت کی اجازت سے تعمیر ہو رہی ہیں؟ اگر سوال نفی میں ہے تو پھر کیوں ان کو منہدم نہیں کیا جا رہا ہے۔ بغیر اجازت تعمیر کی گئی عمارتوں کو ڈھانے کے لیے کچھ اصول اور ضوابط حکومت نے بنائے ہیں۔ اس پر عمل کئے بغیر اچانک اس قسم کی بے رحمانہ کارروائیاں کسی مخصوص طبقہ کے خلاف کرنا حکومتوں کی بد نیتی اور ان کی تنگ نظری کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ گزشتہ کئی دہوں سے آسام میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ 2016 سے پہلے بھی جب کہ وہاں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی، آسام کے مسلمانوں کو چین کی زندگی میسر نہیں رہی۔ جب سے آسام میں غیرملکی باشندوں کا مسئلہ شروع ہوا ، مسلمانوں کے لیے آسام جہنم زار بنتا گیا۔ اس میں سابق کانگریس حکومت کا رول بھی کچھ کم نہیں ہے۔ 1979 میںغیر ملکی باشندوں کے خلاف شروع کی گئی تحریک غیر آسامیوں کو آسام سے بھگانے کی تھی، لیکن بعد میں اس کا رخ آسامی مسلمانوں کی طرف ہو گیا۔ یہ پروپیگنڈا زور و شور سے ہونے لگا کہ بنگلہ دیش کے مسلمان آسام میں لاکھوں کی تعداد میں آگئے ہیں۔ یہ کہا جانے لگا کہ اس سے آسام میں مسلمانوں کی آبادی آئندہ سالوں میں ہندوو¿ں سے بڑھ جائے گی۔ جب آسام میں پہلا این آر سی کرایا گیا تو مسلمانوں کی اکثریت کوغیر قانونی باشندے قرار دے کر ملک سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب دوسری مرتبہ این آر سی ہوا تو نتیجہ کچھ دوسرا ہی نکلا۔ اس سے گھبرا کر موجودہ چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے مسلمانوں کے دینی مدارس پر حملہ کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر کی گدّی سنبھالتے ہی انہوں نے یہ فرمان جا ری کردیا تھا کہ اب آسام میں کسی دینی مدرسہ کو کوئی سرکاری امداد نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اسی وقت دینی مدارس کو بند کردینے کا اشارہ دے دیا تھا۔ اس لیے دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں منہدم کیا جا رہا ہے۔ ان کے اس غیر انسانی اقدام پر ان کے سیاسی آقا بھی خوش ہیں کہ کم ازکم ایک ریاست میں اس طرح کارروائیاں ہوں گی تو دوسرے بھی آگے بڑھیں گے۔ آسام کی حکومت اس قسم کے جارحانہ اقدامات کے ذریعہ جہاں دستور اور قانون کی دھجیاں اُڑا رہی ہے وہیں مسلمانوں اور خاص طور پر دینی مدارس کے سربراہوں کو خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ اس انہدامی کارروائی کے بعد بھی پولیس کے خطرناک تیور بدلے نہیں ہیں اور وہ ان مدارس کے ذ مہ داروں سے یہ ٹھوس تیقن لے رہی ہے کہ وہ اس معاملے میں حکومت اور پولیس سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ آسام کے ساتھ اب یوپی میں بھی دینی مدارس کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یوپی کی یوگی حکومت نے ریاست کے تمام ضلع مجسٹریٹس کو یہ حکم نامہ جاری کر دیا کہ وہ 10 ستمبر تک تمام غیر سرکاری مدارس کا سروے کرکے اس کی رپورٹ حکومت کو پیش کریں۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ اس سروے کا مقصد ان مدارس میں دستیاب سہولتوں کا جائزہ لینا ہے اور درکار سہولتوں کو فراہم کرنا ہے۔ بظاہر بات تو اچھی لگتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرکاری اسکولس میں حکومت کتنی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ کیا سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر کبھی حکومت نے توجہ دی۔ کیا ان بچوں کو ہر مضمون کے اساتذہ میسر ہیں؟ ان کونصابی کتابیں تعلیمی سال کے آغاز پر مل جا تی ہیں ان کی صحت اور تندرستی کے لیے حکومت نے کوئی اقدامات کئے ہیں؟ قانونِ حقِ تعلیم پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟ کیا حکومت نے اس قانون کے مطابق واقعی اپنے ٹارگٹ حاصل کرلیے ہیں۔ جب یہ سب نہیں ہوسکا تو غیر سرکاری مدارس کا سروے کیا معنی رکھتا ہے۔ یوگی حکومت نے پہلے ہی یوپی مدرسہ ایجوکیشن کونسل سے دینی مدارس کو خارج کرکے انہیں غیر مسلمہ قرار دے دیا ہے۔ اب ایسے ہی مدرسوں پر شب خون مارنے کے لیے سروے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ یوگی حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مسلمانوں کے کئی نامور اور تاریخی مدارس کا وجود خطرہ میں پڑجائے گا۔ غیر سرکاری مدارس کے سروے کے پسِ پردہ یوگی حکومت کے جو عزائم ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔وہ ایک تِیر سے کئی نشانے لگا رہے ہیں۔ سروے کے ذریعہ اس بات کا پتہ چلایا جائے گا کہ آیا مدرسہ کی عمارت حکومت کی اجازت سے بنائی گئی ہے یا نہیں؟ وہاں پڑھانے والے اساتذہ اور تعلیم پانے والے بچوں کی تفصیلات درج کی جائیں گی۔ اس کے بعد ہراسانی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس لیے ہر سطح پر حکومت کے اس حکم نامہ کی مخالفت کرنا ضروری ہے۔ جب دستورہند نے اپنے شہریوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور دیگر انتظامات کرنے کا حق دیا ہے تو اس میں حکومت کو مداخلت کرنے کی ہرگز دستور اجازت نہیں دیتا۔ آسام اور یوپی میں جس انداز سے دینی مدارس پر شکنجہ کسَا جا رہا ہے اس سے فرقہ پرست قوتوں کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ یہ آندھی صرف یوپی اور آسام تک محدود نہیں رہے گی۔ پورے ملک میں دینی مدارس کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا جائے گا کہ ہر عام شہری یہ محسوس کرے گا کہ آیا مسلمانوں کے دینی مدارس واقعی ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اُ س پُر آشوب دور کے آنے سے پہلے جب کہ خدانخواستہ ملک کی رائے عامہ بھی فرقہ پرستوں کے زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، مسلمانوں کی مذہبی، سیاسی اور ملی قیادت کو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل فوری طے کرنا ہوگا۔ دینی مدارس پر آنچ آجائے اور مسلمانوں کے بعض مذہبی رہنماءحکومت کو یہ یقین دلانے میں لگ جائیں کہ ہم آپ کی ساری کارستانیوں میں آپ کا ساتھ دینے تیار ہیں تو پھر آپ کو تباہ کرنے میں دشمن کوزیادہ محنت نہیں لگے گی۔ صدمہ اور افسوس اسی بات کا ہے کہ آپ کی تباہی کے سارے سامان ہو رہے ہیں اور آپ فرقوں اور مسلکوں میں بَٹ کر ساحل سے طوفان کا نظارہ کر رہے ہیں۔ بعض گوشوں سے یہ بات آرہی ہے کہ حکومت نے فلاں مسلک کے مدرسہ کو مہندم کر دیا ،لیکن یاد رکھیے کہ کل یہ مصیبت آپ پر بھی آ سکتی ہے۔ جنگ ،مسلک یا فرقہ کو مٹانے کی نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ گو ان کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آیا آپ امت واحدہ کا ثبوت دیں گے یا خانوں میں بٹ کر دشمن کے لیے نرم چارہ بن جائیں گے۔
صورت شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
( اقبالؒ )