مذہب

مرضِ شک اور اس کا علاج

شک یقین کی ضد ہے۔ وہ ایک ایسا مرض ہے جس سے انسان کا سکون و چین ختم ہوجاتا ہے۔ آدمی اس سے ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ بے چینی و بے اطمینانی کی زندگی گزارتا ہے۔ سکونِ قلب زندگی سے رخصت ہوجاتا ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

شک یقین کی ضد ہے۔ وہ ایک ایسا مرض ہے جس سے انسان کا سکون و چین ختم ہوجاتا ہے۔ آدمی اس سے ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ بے چینی و بے اطمینانی کی زندگی گزارتا ہے۔ سکونِ قلب زندگی سے رخصت ہوجاتا ہے۔ شکیّ انسان اپنے آپ کو مریض نہیں سمجھتا بلکہ وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر صحت مند جانتا ہے۔ اس کے جو ذہن میں بیٹھ جائے اس کو حق وصحیح جاننے لگتاہے۔ جن لوگوں سے اسے شک ہو ان کی بات پر وہ اعتماد نہیں کرتا۔ ان سے ہر چیز میں دلیل طلب کرتا ہے، ان کی باتوں سے اسے کبھی تشفی نہیں ہوتی جس سے آپسی دوریاں بڑھنے لگتی ہیں۔ شک کئی قسم کا ہوتا ہے۔ شوہر بیوی پرشک کرتا ہے، بیوی شوہر پر شک کرتی ہے، دوست دوست پر شک کرتا ہے، رشتے دار آپس میں ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں۔

کسی کو پاکیزگی وصفائی میں شک ہوتا ہے، تو وہ ہمیشہ خوب پانی بہانے لگتا ہے پھر بھی اسے دلی اطمینان ویقین حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح مختلف چیزوں میں شک ہونے لگتا ہے۔ انسان میں عموماً شک پیدا کرنے والی چیزیں شیطان یا انسان کی زندگی کا وہ اہم حادثہ جس کے سبب وہ شک میں پڑگیا ہو، یا ذہنی خرابی، اکثر یہ تین چیزیں شک کا سبب ہوتی ہیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی وجوہ ہوتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر آدمی شک کے اندھیرے میں چلا جاتا ہے، اس کو اس تاریکی میں یقین کی منزلیں نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگ کوشش کرکے اس دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ ساری حیات اسی میں پھنس کر اپنی دنیا وآخرت برباد کرتے ہیں۔

تعلیمات اسلامیہ نے سب سے پہلے شک کا خاتمہ کرتے ہوئے یقین کا درس دیا۔ ایمان کیا ہے؟ اللہ کی وحدانیت و رسول ؐ کی رسالت کے یقین کا نام ایمان ہے۔ اس میں تھوڑا سا بھی شک آجائے تو وہ مسلمان باقی نہیں رہتا۔ یقین ہی اصل ایمان ہے۔ یقین میں تھوڑی سی کمی شک میں ڈال دیتی ہے۔ یقین کے سبب انسان فتوحات کے منازل طے کرتا ہے، جو شک کے مریض ہوتے ہیں ان لوگوں کی حیات تذبذب میں گزرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذَلِکَ لاَ إِلَی ہَـؤُلاء وَلاَ إِلَی ھـؤُلاء (سورہ نساء ) (یہ لوگ یعنی منافقین ) کفر و ایمان کے درمیان مذبذب (شک میں) ہیں، نہ وہ ( مسلمانوں )کی طرف ہیں اور نہ ان (کافروں) کی طرف ہیں اور اللہ جنہیں گمراہ کردے تو پھر ممکن نہیں کہ تم اس کے لیے کوئی راستہ نکال سکو۔اس آیت کریمہ میں اللہ کی وحدانیت، رسول ؐکی رسالت پر شک کرنے والوں کا تذکرہ ہے۔ یہ حق ہے کہ شریعت کے قوانین و احکام کی بنیاد یقین پر رکھی گئی اور اسلامی تعلیمات مومن میں یقین پیدا کرتیں ہیں ۔کسی فعل وعمل میں شک پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو اسلام فوراً اس خدشہ کو دور کرنے کا حکم دیتا ہے۔

یہ حق ہے کہ انسان کا ازلی دشمن شیطان ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ مسلمانوں کے دل میں شک پیدا کرکے ان کے ایمان کو چھیننے کی ہمیشہ کوشش میں رہتاہے، اس لیے طرح طرح کے وسوسے انسان کے قلب میں ڈالتا رہتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : یأتي الشیطان احد کم فیقول : من خلق کذا؟ من خلق کذا؟ حتی یقول من خلق ربک فاِذا بلغہ فلیستعذ با للہ ولینتہ (بخاری ) رسول پاک علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے پھر کہتا ہے : فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب یہاں تک (خیال) پہنچ جائے تو فوراً اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے اور ان (غلط خیالات) سے رک جائے۔

اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ قلب میں شک پیدا ہونے سے قبل ہی اس کا سد باب کیا جائے۔ کہیں وہ دل میں جم نہ جائے اور پھر اس کا نکلنا دشوار ہوجائے۔ اگر وہ دل میں بس جائے تو مختلف قسم کے شکوک و شبہات ذہن میںجنم لینے لگتے ہیں پھر ان کو نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً: بعض نفسیاتی مریض کے ذہن میں طہارت کے متعلق شک پیدا ہوتا ہے تو وہ بار بار وضو وغسل میں اپنے اعضاء کو دھوتے رہتے ہیں، گھنٹوں وضو خانہ یا غسل خانے میں جسم پر پانی بہانے کے باوجود انہیں اپنی صفائی وطہارت کا یقین نہیں ہوتا ۔ شریعت اسلامیہ نے ایسے شبہات پیدا ہونے سے قبل ہی اس کی تلافی کا حکم دیا۔

اس سلسلہ میں حدیث شریف میں ہے: عن عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال جاء اعرابي یسألہ عن الوضوءِ فأراہ ثلاثا ثلاثا ثم قال ھٰکذا الوضوء فمن زاد علی ھذا فقد اساء وتعدی (نسائی، ابن ماجہ، ابوداود ) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ ؐ سے وضو کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے انہیں تین تین مرتبہ اعضائے وضو کو دھو کر بتلایا، پھر فرمایا: وضو اس طرح ہے۔ جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، حد سے بڑھا اور ظلم کیا۔ اس حدیث میں تین سے زائد مرتبہ دھونے سے منع کیا گیا۔

ایک تو زیادہ پانی بہانے میں اسراف ہے دوسرے انسان کو زائد دھونے میں شک پیدا ہونے لگتا ہے وہ پانی بہاتا جاتاہے پھر بھی اسے اطمینان نہیں ہوتا کہ اس کا وضو ہوا یا نہیں اس طرح وہ ایک مرض کی شکل اختیار کرلیتا ہے، شیطان اس کے شک میں وسوسوں کے ذریعہ اضافہ کرتا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں حدیث شریف میں ہے: عن ابي بن کعبؓ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ان للوضوءِ شیطانا یقال لہ الولھان، فاتقوا وسواس الماء (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے: رسول پاک علیہ الصلاۃ السلام نے ارشاد فرمایا: بے شک وضوء (میں بہکانے) کے لیے ایک شیطان ہے جس کو ’ولہان‘ کہتے ہیں، تو تم پانی کے وسوسوں سے بچو۔

اس حدیث سے واضح ہے کہ شک اور وسوسے پیدا کرنے والا شیطان ہوتا ہے۔ جتنے پانی بہانے کے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ان میں شیطان کا عمل دخل ہوتا ہے یا پھر ذہن کی خرابی کی وجھ سے شک وشبہات میں مبتلا ہوتے ہیں، شیطان ان کے شک میں اضافہ کرتے رہتا ہے۔شک انتہائی خطرناک مرض ہے اس سے پورا گھر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ اگر کسی مرد کو اپنی بیوی پر دوسرے آدمی سے تعلقات قائم ہونے کا شک ہو جائے تو وہ مرد اس کے ہر عمل پر شک کرتا ہے۔

سب سے پہلے بیوی کے اوپر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، اگر وہ اپنی بات منوانے کے لیے قسم کھا کر یا دلائل پیش کرکے اپنی بات کو ثابت کرنا چاہے تو کسی صورت میں اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کسی خاتون کو اپنے شوہر پر شک ہوجائے کہ اسکا کسی دوسری عورت سے تعلق ہے تو وہ بھی اس کے ہر قول و فعل پر شک کرتی ہے ۔ یہ قسم کھا کر یا دلائل کے ذریعہ اپنی صفائی دے تو اس کو وہ ہر گز تسلیم نہیں کرتی ۔

جس کی وجہ سے ہر دو میں اختلافات بڑھ جاتے ہیں، ہر دن دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، ہر دو کی زندگی تاریکیوں کے دلدل میں ڈوب جاتی ہے۔ اس کا اثر خود ان کی صحت پر بھی پڑتا ہے اور اولاد پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے، ان کی تربیت محال ہوجاتی ہے، زندگی کا ہر لمحہ انکے لئے دشوار سے دشوار ہوتا ہے، ہر دو کے خاندانوں کے درمیان نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا حل انتہائی مشکل ہونے لگتا ہے، بنا بریں طلاق و خلع کی تک نوبت آجاتی ہے۔ شیطان دونوں کے درمیان جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے اور بعض سمجھدار حضرات اس کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

شریعت مطھرہ نے شک پیدا ہونے کے جتنے ذرائع ہیں ان سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: جب رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ کسی سفر سے واپس ہوتے تو مدینہ کے قریب آکر رک جاتے اور ایک شخص کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کی غرض سے مدینہ شریف روانہ فرماتے تاکہ گھروں کی خواتین صاف صفائی کا اہتمام کریں اور کوئی نامناسب واقعہ پیش نہ آجا ئے اس طرح کے طرز عمل سے خواتین آگاہ ہوجاتی ہیں اور اپنے شوہر کی آمد پر تیاری میں جٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یطرق اھلہ لیلا وکان لا یدخل الا غدوۃ او عشیۃ (بخاری، مسلم)رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم (سفر سے واپسی میں ) رات کے وقت اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف نہیں لاتے تھے اور آپؐ صبح یا ابتدائی شام میں ہی تشریف لاتے۔

اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: عن جابرؓ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذا اطال احدکم الغیبۃ فلا یطرق اھلہ لیلا (بخاری، مسلم) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں کوئی شخص (اپنے گھر سے ) بہت دنوں تک غائب رہے تو وہ اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔ ان دو حدیثوں میں اچانک گھر آنے سے روکا گیا۔

ممکن ہوکہ اتفاقاً کوئی غیر محرم آدمی گھر میں موجود ہو اور یہ اسے دیکھ لے تو شک و شبہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور ایک خوش حال آباد گھرانے کے برباد ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے اطلاع دیکر آنے کا حکم دیا گیا۔ بعض صحابہ ؓ نے اس بات پر عمل نہیں کیا اور رات میں اچانک گھر میں داخل ہوئے تو وہاں ایک غیر محرم شخص کو دیکھا تو طلاق واقع ہوگئی، انکی خوشحال زندگی وہیں پر ختم ہوگئی۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس سے شک پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اس سے شریعت نے منع فرمایا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاعدوی ولا طیرۃ ولاصفر۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: متعدی مرض ہے نہ بدفالی ہے اور نہ ہی صفر ہے، یقینا اسلام میں ایسا اعتقاد جائز نہیں جس سے آدمی ہر کام میں شک کرنے لگے۔ عموماً ہمارے سماج میں یہ تو ہم پایا جاتا ہے کہ اگر بلی سامنے سے گذر جائے تو آدمی کہتا ہے آج میرا کام نہیں ہوگا، گھر پر مخصوص پرندہ چہچہائے تو کہتا ہے کہ کوئی پریشانی آنے والی ہے، جسکی وجہ سے ہر کام میں شک پیدا ہونے لگتا ہے۔ تو کل علی اللہ میں کمی واقع ہونے لگتی ہے، توکل علی اللہ ہی کمالِ ایمان ہے۔

جو حضرات شک کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ذہنی مریض بن چکے ہیںانکے شکوک وشبہات کے ازالہ کے لئے کچھ مفید چیزیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، سب سے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر یا طبیب سے رجوع ہوکر علاج کرایا جائے، کیونکہ کوئی مرض ایسا نہیں ہے جسکا علاج نہ ہو چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لکل داء دواء، فاذا اُصیب دواء الدّء برء باذنِ اللہ (مسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بیماری کی دواء ہے جب کسی بیماری کو دواء پہنچتی ہے تو وہ بیمار اللہ کے حکم سے شفاء یاب ہوجاتا ہے۔ دواء کے ساتھ وظائف کا بھی اہتمام کیا جائے، یقینا شک کا تعلق ذہن، دل، خیال سے ہوتا ہے۔

شک کی بیماری کو مخصوص وظائف کے ذریعہ بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ (۱) شکی شخص کو چاہئے کہ باوضو آنکھ بند کرکے تنہائی میں دل سے اسطرح ’’ اللہ ُ اللہ ‘‘ کا ذکر کرے کہ قلب سے اللہ ُکہتے ہوئے دماغ کی طرف لے جائے، پھر اللہ کہتے ہوئے دماغ سے دل کی طرف آئے، اگر کوئی مریض کسی مرشد سے بیعت ہے تو پیر ومرشد کا ذہن میں تصور کرے (یہ طریقہ سلسلہ نقشبندیہ میں ہے جس کو تصور شیخ کہتے ہیں) ۔ یا پھر خانہ کعبہ یا گنبدخضراء کا تصور کرے، اس طرح دن میں ایک ہزار، دوہزار مرتبہ ذکر کرے۔ (۲) اور سورہ ناس کو دن میں چالیس مرتبہ پڑھتے رہیں۔ (۳) اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلي العظیم کسی بھی وقت کم ازکم ۲۰۰ مرتبہ پڑھتے رہیں، اور درود پاک پڑھتے رہیں۔

انشاء اللہ نفسیاتی مریض کو ہمیشہ کے لئے شفاء حاصل ہوگی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام امراض جسمانی وروحانی سے محفوظ ومامون رکھے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭