مضامین

سرزنش کے ساتھ سزا بھی ضروری

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے شان رسالت میں گستاخی کرنے والی بی جے پی کی خارج شدہ لیڈر نپور شرما کی جس انداز میں سرزنش کر تے ہوئے جو تبصرہ کیا ہے، اس پر ملک کے انصاف پسند حلقوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک کہ نپور شرما کے زہریلے بیان کے نتیجہ میں ملک میں فرقہ وارانہ تناو¿ بڑھ گیا اور سماج میں افراتفری پھیل گئی، فاضل جج نے اس ضمن میں پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نپور شرما کی اب تک گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آئی۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اس خاتون نے اہانت رسول کی جو گھٹیا حرکت کی اس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو جو ٹھیس پہنچی اس کا حکومت اگر فوری احساس کرلیتی تو ردعمل کے واقعات سامنے نہ آ تے، لیکن پولیس کی نااہلی کے نتیجہ میں حالات دگرگوں ہو گئے اور نپور شرما کی تائید کرنے والے ایک شخص کا قتل بھی ہو گیا۔ یہ دھماکو صورت حال محض اس لیے پیدا ہوگئی کہ کھلے عام توہین رسالت کے بعد بھی مجرم‘ قانون کی دسترس سے آزاد رہا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تبصرہ میں اسی بات کو دوہرایا کہ ایک سیکولر ملک میں اگر کوئی شہری کسی اور مذہب کی مقدس ہستی کے بارے میں یاوہ گوئی کرتا ہے تو اس کو قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیاں فوری اپنی گرفت میں لیں اور قانون کے مطابق ایسے عناصر کو سزا دیں، لیکن یہاں معاملہ بالکل اس کے برعکس رہا۔ نپور شرما اور نوین جندل ورما کی جنونی حرکتوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے جنہوں نے اس کے جرم کو دنیا کے سامنے لایا، انہیں بیجا مقدمات میں ماخوذ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد بھی ابھی تک نپور شرما کو گرفتار نہ کرنے اور انہیں قرار واقعی سزا نہ دینے سے یہ تاثر بھی ابھر رہا کہ آیا کسی گھناو¿نے جرم کے بعد بھی مجرم آزادانہ گھوم پھر سکتا ہے۔ جب سے ملک میں بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار آیا ہے ،یہی دیکھا جارہا ہے کہ بڑے سے بڑا جرم کرنے کے بعد بھی مجرم کو کوئی سزا نہیں مل رہی ہے۔ 2015سے یہی دیکھا جا رہا ہے۔ ہجومی تشدد کا ارتکاب کرنے والے اب بھی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے۔ دن دھاڑے معصوم مسلمانوں کا قتل ہوتا ہے ۔ اس قتل کو دیکھنے والے عینی شاہدین موجود رہتے ہیں لیکن خاطیوں کو کوئی سزا نہیں ملتی ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے سخت تبصروں کے بعد بھی ظالموں کو چھوٹ حاصل ہے اور مظلوم بیچارہ انصاف کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتاہے۔ اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی کا تصور دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ عدالتیں محض خاطیوں کی سرزنش کر تی رہیں گی اور ان کے لیے سزاو¿ں کا تعین نہ کریں گی تو عدالتوں کا یہ عمل اپنی معنویت کھوتا چلا جا ئے گا۔ اس وقت عوام کی ساری امیدیں عدلیہ سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ مقنّنہ اور عاملہ کو اب انصاف کی فراہمی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر ایسے قوانین منظور کیے جا رہے ہیں جن سے شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔ عاملہ ان قوانین کے نفاذ میں اپنی پوری طاقت جھونک دے رہی ہے۔ گز شتہ برسوں میں پارلیمنٹ میں جس قسم کے قوانین منظور کئے گئے، وہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ اب ملک میں عوام کی مرضی اور ان کی ضرورتوں کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ این آر سی اور سی اے اے سے لے کر کسانوں کے خلاف بنائے گئے کالے قانون اس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ ان حالات میں عوام کی نظریں عدلیہ پر ٹِکی ہوئی ہیں او روہیں سے انصاف کی توقع ہے ۔نپور شرما کے معاملے میں سپریم کورٹ کے معزز جج کے تبصرہ کو لے کر بھی ملک میں ایک نئی بحث شروع کر دی گئی ہے۔ عدالت کے کسی ریمارک سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا یا اسے ماننے سے انکار کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آ تا ہے، لیکن نپور شرما کی گٹھیا حرکت پر سپریم کورٹ نے جس حقیقت بیانی سے کام لیا، اس پر گودی میڈیا آگ بگولا ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے سپریم کورٹ کے ریمارکس کو ہندوتوا کے علمبردار توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں۔ عام عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ بھی مسلمانوں کی ہمدرد بن گئی ہے۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اسلامی شدت پسندوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس سے عام ہندوو¿ں میں قانون کے تئیں ایک الگ نظریہ قائم ہو رہا ہے۔ شدّت پسند ہندو انہیں یہ باور کرارہے ہیں ہمارے اپنے ہندو ملک میں مسلمانوں کی منہ بھرائی کی جا رہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے یہ سوال کیا کہ نپور شرما کی زہر افشانی کے بعد انہیں اب تک کیوں گرفتار نہیں کیا گیاتو اس میں کون سی بات ہندوو¿ں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ ایک سیکولر ملک میں اگر کوئی مذہبی شخصیتوں کے بارے میں اوٹ پٹانگ با تیں کرے اور پولیس ان جنونی حرکتوں کا کوئی نوٹس نہ لے تو کیا عدلیہ کو پولیس سے یہ پوچھنے کا اختیار نہیں ہے کہ آخر کس بنیاد پر کسی بھی شہری کو سماج کو باٹنے کا حق دیا گیا ہے۔ عدلیہ بھی خاموش ہو جائے تو پھر جمہوریت اور آئین کے مطابق ملک کیسے چلے گا؟ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسی دوسرے مذہب کی توہین کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر یہ مزاج سارے ملک کے شہریوں کا بن جائے تو پھر کسی بھی مذہب کا تقدس اور کسی بھی مذہبی شخصیت کا احترام باقی نہیں رہے گا۔ نپور شرما اور نوین جندل جیسے بدقماش افراد انسانیت کی سب سے عظیم ہستی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا رام اور کرشن کی شان میں بھی گستاخانہ جملے کہہ سکتا ہے۔ یہی بات دیگر مذاہب اور ان کے مذہبی پیشواو¿ں کے بارے میں ہو سکتی ہے۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے نپور شرما کی ناشائستہ حرکتوں پر روک لگاتے ہوئے انہیں تنبیہ کی ہے، لیکن کوتاہ ذہن لوگ نپور شرما کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ عجیب و غریب منطق دی جارہی ہے سپریم کورٹ نے نپور شرما کی سرزنش تو کی لیکن جن لوگوں نے ان کے بیان پر اپنا غصہ دکھایا اور انہیں دھمکیاں دیں، اس پر سپریم کورٹ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جب کہ سپریم کورٹ کے جج نے حقائق کی بنیاد پر یہ ریمارک کیا کہ جو کچھ واقعات پیش آئے وہ ان کے بیان کا ردعمل تھے۔ وہ اگر کسی کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ نہ کرتیں تو ملک میں یہ انتشاری صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ واقعہ بھی دراصل یہی ہے مسلمانوں نے جو کچھ اپنا ردعمل دیا وہ اس لیے واجبی تھا کہ نپور شرما نے انتہائی مجرمانہ حرکت کر تے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا تھا۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس پر کسی کو کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت اس خاتون سے جو ہمدردی جتائی جا رہی ہے، اس سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ان کے پیچھے ایک بہت بڑی لابی کام کررہی ہے۔خود ان کی پار ٹی کی ان کو حمایت حاصل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بیرونی دباو¿ کے نتیجہ میں وقتی طور پر انہیں پارٹی سے خارج کر دیا گیا ہے۔لیکن اندرونی طور پر ہر قسم کی مدد جاری ہے۔ ساتھ میں حکومت اور پولیس کی بھی ان پر نظر کرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کو بھی خاطر میں نہیں لارہی ہے۔ اب ملک کا مخصوص میڈیا بھی ان کی حمایت میں آگیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ ساری کارستانی ایک فرد کی جانب سے ہو رہی ہے بلکہ ایک بہت بڑا گروہ ان ساری سرگرمیوں کو ایک منظم انداز میں پس پردہ انجام دے رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے حقائق پر مبنی تبصرہ کے باوجود اس پر پورے اطمینا ن کا اظہار اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے اور قانون کی بالادستی کی فضاءکو بنائے رکھنے میں تنبیہ، وارننگ اور سرزنش سے زیادہ خاطیوں کوسزا دینا ضروری ہے۔ فاضل جج صاحب نے نپور شرما کو خاطی تو قرار دے دیا لیکن انہیں تادمِ تحریر کوئی سزا دینے کا فیصلہ نہیں دیا۔ عدالت کے سامنے ان کا جرم واضح ہے پھر سزا میں تاخیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ نے نپور شرما کو سارے ملک سے معافی مانگنے کے لیے کہا ہے۔ آیا کیا اس طرح کے عمل سے کسی کے جرم کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ نپور شرما نے جو جرم کیا ہے، اس سے ملک کے 20کروڑ مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمانوں نے اس پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ محض ایک معافی سے کیا نپور شرما کے سنگین جرم کو معاف کر دیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کسی ایک انسان کا قتل کر تا ہے تو اسے پھانسی کی سزا دی جاتی ہے ۔ یہاں تو کروڑوں انسانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اس لیے محض معافی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ملک کے قانون کے مطابق نپور شرما کو سزا دی جائے۔ تب ہی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل ہو گی۔ ورنہ ہر تھوڑے دن بعد کوئی بھی بدطینت فرد کسی بھی مذہبی شخصیت کے بارے میں یاوہ گوئی کرے گا اور بعد میں معافی چاہ لے گا۔ ملک کو افراتفری سے بچانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایسی منفی سرگرمیوں کو قانون کے ذریعہ روکنا ضروری ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی معتبر تنظیموں نے جہاں سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیرمقدم کیا ہے وہیں اس بات کا بھی سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ نپور شرما کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر اس معاملے میں تاخیر سے کام لیا جائے گا تو اور بھی حمایتی ان کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اس سے ملک میں تناو¿ اور بڑھتا جائے گا۔ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ فسطائی طاقتیں ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ لاقانونیت کو بڑھاوا دینے کی ہر ممکنہ کو شش کی جارہی ہے۔ ملک میں ہونے والے متعدد واقعات اس بات کی نشاندہی کر تے ہیں کہ حکومت اپنی ناکا میوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک ایسا ماحول ملک میں پروان چڑھارہی ہے جہاں ہمیشہ خوف اور دہشت کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس سال کے آغاز سے ہی یکے بعد دیگر ہونے والے دلخراش واقعات سے ملک میں بے اطمینانی بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن حکومت کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ توہین رسالت کے واقعات کو دیکھا جائے تو حکومت کی مجرمانہ خاموشی پر انصاف پسند حلقے انتہائی فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ بے قصور افراد کو جیلوں میں بند کر کے رکھدیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے انہیں خود نہیں معلوم کہ آخر ان کا قصور کیا ہے۔ نپور شرما اور نوین جندل کی شرپسندی کے خلاف جب مسلمانوں نے پر امن احتجاج کیا تو پولیس کی لاٹھیاں ان پر برسائیں گئیں، ان کے معصوم بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلادیے گئے۔ آخر یہ کون سا انصاف ہے کہ مظلوموں کو ہی تہہ تیغ کیا جارہا ہے اور ظالموں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں سپریم کورٹ کو حقائق پسندی سے کام لیتے ہوئے قانون کے مطابق ان عناصر کی سرکوبی کرنا چاہیے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھ کر جو چاہے کہہ رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ ان کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارستانیوں کے خلاف ملک کی عدالتوں کوٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے۔ محض ان پر پھٹکار اور ان سے معافی کا مطالبہ انصاف کے تمام تقاضوں کی تکمیل نہیں کر تا۔ بے لگام زبانوں کو لگام دینے کے لیے قانون کو حرکت میں آنا پڑے گا ۔ صرف اخلاقی درس اور نصیحت سے کام نہیں چلے گا۔ اسی لیے خاطیوں کی سرزنش سے زیادہ ان کو قانون کے مطابق کڑی سزا ملے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔
٭٭٭