مضامین

پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس۔ ملک میں نئے قوانین کی تدوین کی تیاری!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی حکومت نے اچانک ہندوستان کی پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ یہ پانچ روزہ اجلاس 18 سے 22 ستمبر تک منعقد ہونے جا رہا ہے۔ عام طور پر پارلیمنٹ سیشن کے آغاز سے پہلے حکومت کی جانب سے ایجنڈا پیش کیا جا تا ہے۔ لیکن اس مرتبہ اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ آخر پارلیمنٹ میں کن موضوعات پر مباحث ہوں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کو رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ چند دن پہلے ہی پارلیمنٹ کا مانسون سیشن ختم ہوا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ان اندیشوں کو دور کرنے کے لئے پار لیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے ایک دن قبل حکومت نے 17 ستمبر کو آل پارٹی میٹنگ بلائی ہے۔ اس کا اعلان بھی 13 ستمبر کو کیا گیا۔یہ ماناجا رہاہے کہ بی جے پی حکومت نے ایک ملک ۔ ایک الیکشن کی تیاری کرلی ہے۔ مجوزہ سیشن میں اس تعلق سے بِل پیش کیا جائے گا اور اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر اسے منظور بھی کرالیا جائے گا۔ حکومت اگر جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اتنا بڑا اقدام کر تی ہے تو اس سے ملک کے جمہوری نظام کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔ موجودہ حالات میں ملک اس بات کا متحمل نہیں ہے کہ بیک وقت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کرائیں جا سکیں۔ اس کے لیے سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے کے ساتھ عوام کی رائے کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ بی جے پی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پوری قوم کو آزمائش میں ڈالتی ہے تو اس سے ملک کے عوام کا جمہوریت پر اعتماد جو کچھ باقی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک ملک۔ ایک الیکشن کے جو مضر اثرات ملکی سیاست پر پڑنے والے ہیں، اس پر مختلف گوشوں سے سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے۔ سوائے بی جے پی کے کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی نے اس کی تائید نہیں کی۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی ایک ملک ۔ ایک الیکشن کو اس لیے نقصان دہ قرار دے رہا ہے کہ اس سے مقامی مسائل نظر انداہونے کے پورے امکانات ہوتے ہیں۔ قومی پارٹیاں ، قومی مسائل کو زیر بحث لاکر ووٹ لینے میں کا میاب ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک کی پانچ ریاستوں جن میں تلنگانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور میزورم شامل ہیں، عنقریب وہاں ریاستی اسمبلیوں کا الیکشن ہونے والا ہے،یہ پانچ ریاستیں اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرنے جا رہی ہیں۔ تلنگانہ میں اس وقت انتخابی مہم کا با ضابطہ آغاز بھی ہو گیا ہے۔ بر سرِ اقتدار بھارت راشٹریہ سمیتی نے 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی کے منجملہ 115امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
17 ستمبر کی تاریخ حیدرآباد کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اس دن حیدرآباد میں ریاست کی چار اہم پارٹیوں کی جانب سے بڑے جلسے رکھے جارہے ہیں۔ بی جے پی کے جلسے میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ شرکت کرنے والے ہیں۔ کانگریس بھی ایک بڑا پروگرام اس دن کرنے جا رہی ہے جس میں خاص طور پر سونیا گاندھی شریک ہوں گی اور اہم اعلانات کریں گی۔ بی آر ایس نے اس دن کو قومی یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کر تے ہوئے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے اس دن ایک ترنگا ریالی منظم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ساری سرگرمیاں اسمبلی الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے انجام دی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک ملک۔ ایک الیکشن کا قانون منظور ہو جاتا ہے تو ان سارے ہنگاموں سے ان پارٹیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس لیے سیاسی پارٹیاں مخمصہ کا شکار ہیں۔
پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کے پس پردہ حکومت کے اور بھی عزائم ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے انڈیا اتحاد نے بی جے پی کو 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں شکست دینے کی جو تیاری کر لی ہے اس سے بھی بی جے پی کے قائدین حواس باختہ ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی کے لئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح تیسری مرتبہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑسکتے ہیں۔ اب تک یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مودی ہی ہندوستان کو ترقی کی راہ پرگامزن کر سکتے ہیں۔ ان کے سوا کسی میں اتنا ویژن نہیں ہے کہ وہ اتنے وسیع و عریض ملک کے مسائل کو سمجھ کر اس کا حل تلاش کر سکیں۔ یہ کام صرف مودی جی ہی کر سکتے ہیں۔ گودی میڈیا کے ذریعہ بھی ان کی شخصیت کو ابھارنے کی پوری کوشش کی گئی۔ حالیہ دنوں میں ہوئی جی۔ ۲۰ چوٹی کانفرنس میں بھی مودی ہی مرکز نگاہ رہے۔ انہوں نے اپنے امیج کو خوشنما انداز میں عالمی قائدین کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ باور کرایا کہ وہی ہندوستان کو عالمی سطح پر اس کا مقام اور مرتبہ دلا سکتے ہیں۔ اس اجلاس کے دوران ہندوستان کے ان غریبوں کے مسائل پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی جو آج بھی بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں۔ دو دن کے عالمی میلہ کے لیے بی جے پی سرکار نے کروڑہا روپئے خرچ کر دیے۔ یہی پیسہ غربت کو دور کرنے اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تو اس سے ملک کا امیج بڑھتا، لیکن وزیراعظم مودی نے اپنے قد کو بڑھانے کے لیے چوٹی کانفرنس کی سربراہی کرتے ہوئے عالمی قائدین کو یہ جتلایا کہ ہندوستان ترقی کی ڈور میں کسی اور ملک سے پیچھے نہیں ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ دنیا کے بہت سارے ممالک جن میں جی۔۲۰ کے ممالک بھی شامل ہیں وہ ہندوستان سے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں بہت آگے ہیں۔ مجوزہ پارلیمنٹ سیشن میں بی جے پی حکومت جی۔۲۰ اجلاس کے حوالے سے اپنی تعریف کے پُل باندھے گی اور کہا جائے گا کہ یہ سب کامیابی ملک کے وزیراعظم کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جی۔ ۲۰ ممالک کی سربراہی کو اپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہوئے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعظم کی وجہ سے اس اہم تنظیم کی صدارت ہندوستان کے ہاتھوں میں آ ئی ہے۔ جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جی۔ ۲۰ کی صدارت وقفے وقفے سے تبدیل ہو تی رہتی ہے۔ ہر رکن ملک کو یہ موقع ملتا رہتا ہے۔ ہندوستان کے بعد اب صدارت کا عہدہ برازیل کو ملا ہے۔ اس میں بہت زیادہ خوش ہونے کی کوئی بات نہیں تھی، لیکن جی۔ ۲۰ کی صدارت پر آتے ہی ملک کے عوام کو باور کر ایا گیا کہ یہ عالمی سطح پر ہندوستان کی بڑی کامیابی ہے۔ عالمی اور بین الاقوامی اداروں میں ہندوستان کی شمولیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر غیر جانبدار تحریک تک ہندوستان نے عالمی امور میں اپنا کلیدی رول ادا کیا ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی جس انداز میں تشکیل کی اس کو نہ صرف ہندوستانیوں نے بلکہ بیرون ملک بھی سراہا گیا۔ عالمی امن کے قیام اور مختلف ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بر قراری میں ہندوستان کی خدمات نا قابل فراموش رہی ہیں۔ اس لیے جی۔ ۲۰ کی صدارت یا پھر ہندوستان میں اس کے اجلاس کا انعقاد کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ سابق میں اس سے بڑے پیمانے پر سربراہان مملکت و صدور کے اجلاس ہندوستان میں منعقد ہو چکے ہیں۔ ان بین الاقوامی اجلاسوں کے بعد ہندوستان کو عالمی سطح پر کس قدر تسلیم کیا گیا اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ اجلاس میں روس اور چین کے صدور کی عدم شرکت نے ہندوستان کی اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں پر سوالیہ نشان بھی لگادیا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ کسی اجلاس کی کامیابی کا سہرا اپنے سَر باندھتے ہوئے ملک میں نِت نئے قوانین لائے جاسکتے ہیں تو یہ حکومت کی خام خیالی ہے۔
بی جے پی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے خصوصی سیشن کی طلبی کے تعلق سے یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں کامیابی کے لئے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے بھی کوئی بِل پیش کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں بی جے پی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ کسی بھی طرح ملک میں یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ فسطائی طاقتوں کی جانب سے بار بار دفعہ 44 کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس دفعہ کی آڑ میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب دستورِ ہند میں یہ بات لکھ دی گئی کہ حکومت ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کرے گی۔ ہندوستان کی آزادی کا اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی دستور کی اس دفعہ پرعمل نہیں کیا گیا۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کی رَٹ لگانے والے دانستہ طور پر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان اگرچکہ ایک سیکولر ملک ہے، لیکن ہندوستان کے اسی دستور نے شہریوں کی مذہبی آزادی کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی ضمانت دی ہے۔ ہندوستان کا ہر شہری کسی بھی مذہب پر کاربندرہ سکتا ہے۔وہ اپنے عقیدہ ، فکر ، اور مذہبی رسومات کے ادا کرنے میں مکمل آزاد ہے۔ اُ سے یہ بھی دستوری حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پُر امن تبلیغ کر سکتا ہے۔ یہ ساری دستوری ضمانتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحت آتی ہیں۔ یہ حقوق کوئی حکومت چھین نہیں سکتی۔ جہاں تک یونیفارم سول کوڈ کا تعلق ہے۔ یہ حکومت کے لیے ہدایات اور مشورے ہیں۔ یہ لازمی نوعیت کے نہیں ہیں۔ انہیں نافذ کرنا حکومت کے لیے ضروری نہیںہے۔ دستور کے باب چہارم میںصرف یکساں سول کوڈ کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس کے ذیل میں اور بھی بہت سارے امور شامل کئے گئے۔ جن میں نشہ آور اشیاءپر پابندی اور چھ سال سے لے کر چودہ سال تک بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا انتظام بھی شامل ہے۔ آیا ان دفعات پر گز شتہ 75 سال کے دوران عمل ہوا۔ آج بھی ہندوستان صد فیصد خواندگی کے نشانے کو حاصل نہیں کر سکا۔ جی۔ ۲۰ کے ممالک جن میں بعض پسماندہ ممالک بھی ہیں ، تعلیم میں ہم سے آ گے ہیں۔ نشہ آور اشیاءکے استعمال سے کتنے خاندان تباہ و برباد ہو رہے ہیں، اس پر یکساں سول کوڈ کا نعرہ لگانے والوں کی نگاہیں کیوں نہیں جا تیں۔ یکساں سول کوڈ کا شوشہ ہر الیکشن کے موقع پر چھوڑا جا تا ہے۔ آثار بتارہے ہیں کہ مجوزہ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں بھی اس مسئلہ کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اس کے لیے لا کمیشن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ملک کے اکثر طبقے یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ایسے کوئی مستند اعداد و شمار حکومت پیش کرنے میں ناکام رہی۔ یہ محض اقلیتوں کو ڈرانے کا ایک طریقہ ہے۔ اقلیتوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے طبقات وہ ہیں جو یکساں سول کوڈ کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان میں آدی واسی بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے مخصوص مذہبی روایات پر صدیوں سے عمل کرتے آرہے ہیں۔ موجودہ حکومت زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرے تو ملک میں ایسے مسائل پر گفتگو کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن حکومت اصل مسائل سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کی پالیسی پر عمل کرتی آرہی ہے اس لئے متنازعہ موضوعات ہی اس کی اولین ترجیح ہو تے ہیں۔ ایسے نزاعی عنوانات کو زیر بحث لاکر بی جے پی اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 17ستمبر کی آل پارٹی میٹنگ میں حکومت کا خصوصی اجلاس کے بارے میں کیا موقف ہوتا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں کیا اس سے مطمئن ہوں گی۔ تادمِِ تحریر حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے بارے میں کسی سرکاری ایجنڈے کا نہ آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت بعض معاملات کو ملک کے عوام سے چھپا رہی ہے ۔ بی جے پی حکومت کے اس طرز عمل سے ملک میں دستوری بحران پیدا ہوجائے گا اور ہندوستان کی جمہوریت داو¿ پر لگ جائے گی۔
٭٭٭