مضامین

سعودی، ایران معاہدے کے خطے پر اثرات

منور مرزا

اگر ہم سعودی عرب، ایران معاہدے کے دوطرفہ اور علاقائی اثرات کا جائزہ لیں، تو یہ دیکھنا ہوگا کہ معاہدے میں شامل فریقین کے معاملات، مفادات کیا ہیں، وہ معاہدے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ نئی پیش رفت کے خطّے کے باقی ممالک پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ چین کی ثالثی میں ہونے والے اِس معاہدے سے پتا چلتا ہے کہ اْس کی پالیسی میں جوہری تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ اب اْس نے محض بیانات جاری کرنے کی بجائے عالمی اسٹیج پر اپنا کردار کْھل کر ادا کرنا شروع کردیا ہے، لیکن ذہن میں رہے کہ اب بھی چین کسی فوجی تنازعے میں اْلجھنے کو تیار نہیں، بلکہ اس کی پالیسی کا محور اقتصادی ترقی ہی ہے۔ یہی صدر شی جن پنگ کا خواب ہے اور اْن کی پالیسی کی بنیاد بھی، جس کا اظہار وہ برملا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اْنہوں نے دو بڑی ملاقاتیں کیں، جن میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ مدِمقابل کی سوچ کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا کہ چین کیا چاہتا ہے۔ پہلی ملاقات انڈونیشیا کے جزیرے، بالی میں امریکی صدر، جوبائیڈن سے ہوئی اور پھر وہ ماسکو میں روسی صدر پوٹن سے ملے۔ بعدازاں اْنہوں نے اِن دونوں طاقتوں کو اپنی بیرونی سفارت کاری کی ایک جھلک سعودی، ایران معاہدے کے ذریعے دِکھا دی۔ مشرقِ وسطیٰ، چین کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے اہم خطّہ ہے۔
چین، مشرقِ وسطیٰ میں اقتصادی پیش رفت تو جاری رکھنا چاہتا ہے، مگر امریکہ اور روس کی طرح کسی فوجی دخل اندازی میں دل چسپی نہیں رکھتا، اِس لیے فی الحال یہ سوچنا کہ مشرقِ وسطیٰ کے کسی تنازعے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے سپاہی، امریکی یا روسی فوجیوں کی طرح وہاں موجود ہوں گے، خام خیالی ہی ہوگی۔ ایسا تو اْس نے امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں بھی نہ کیا، جو اْس کا پڑوسی ہے اور جہاں طاقت کا خلا بھی پیدا ہوا۔ درحقیقت، وہ اپنے اقتصادی قدم مضبوط سے مضبوط تر کر کے ہی امریکہ اور روس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، جس میں وہ ابھی تک کام یاب بھی ہے۔
عرب ممالک اور اسرائیل کے ایرانی ایٹمی پروگرام پر ہمیشہ تحفّظات رہے، بلکہ تل ابیب تو اْس کے خلاف فوجی کارروائی بھی کرتا رہا ہے، جیسے پلانٹ کی تباہی اور ٹاپ ایرانی ایٹمی سائنس دان کی ہلاکت۔ عرب ممالک کی خواہش ہے کہ حالیہ معاہدے کے ذریعے ایران کے نیوکلیئر خطرے کو کم کیا جائے۔ اْن کے پاس ایران کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے قربت کے سِوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، اِسی لیے امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ سے جانے کے بعد عربوں کے لیے اسرائیل زبردست اہمیت کا حامل ہوگیا۔ اْن کی اسرائیل سے دوستی اور تعلقات کی بھی یہی وجہ بنی۔
ایران اِس صْورتِ حال کو درست طور پر نہ بھانپ سکا، اْس کا خیال تھا کہ فلسطین سے روایتی لگاؤ کے سبب عرب عوام اپنی حکومتوں پر اسرائیل سے تعلقات نہ رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ معاہدے کے بعد ایران کو سوچنا پڑے گا کہ اگر وہ عربوں کے تحفظات دْور نہ کرسکا، تو اس کے لیے ایٹم بم بنانے کے باوجود مشکلات کم نہ ہوں گی۔ دوسری طرف، ایران کی اصل کم زوری اْس کی بگڑتی معیشت ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کی فروخت بھی بہت کم ہوگئی ہے، حالاں کہ اْس کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح تیل کا قطرہ قطرہ بیچ کر کچھ کمائے۔ ایران یومیہ چار ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہے، لیکن اْس میں سے صرف نصف ہی فروخت کر پاتا ہے۔ اِس وقت ایران تیل سے جو کما رہا ہے، اْس کی وجہ تیل کی بڑھی ہوئی قیمتیں ہیں، لیکن یہ قیمتیں اوپیک کی کوششوں کے باوجود زیادہ عرصے تک برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ ایران بھی روس کی طرح تیل کی چالیس فی صد کم قیمتوں پر فروخت پر مجبور ہے۔ اِس طرح وہ اپنے ہی اہم حلیف روس کے مدِمقابل آگیا ہے۔ دونوں کے بڑے خریدار چین، ہندوستان اوردیگرکم زور معیشت کے حامل ممالک ہیں، لیکن یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک سے ٹکراؤ کا بھی سبب ہے۔ یعنی اب وہ بھی تیل کی پیداوار کم کر کے قیمتیں کم کریں یا اْسے روس اور ایران کی طرح کم قیمت پر بیچیں۔ سعودی، ایران معاہدہ اِس پس منظر میں بھی اہم ہے۔ ایران کی کم زور معیشت اْس کی اندرونی شورش کی ایک وجہ ہے، جس کے نتیجے میں اْسے بیرونی محاذوں پراپنا انقلابی نظریہ برآمد کرنے کی پالیسی محدود کرنی پڑی۔
سعودی، ایران معاہدہ اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، لیکن ایران کے لیے سب سے مشکل فیصلہ عرب، اسرائیل تعلقات کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ نبھاکرنا ہوگا۔ عرب تو اب پیچھے ہٹنے کے نہیں، کیوں کہ وہ سیکیوریٹی معاملات پر طویل بداعتمادی کے بعد فوری طور پر ایران پربھروسہ کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہوں گے۔ پھر یہ کہ عربوں کے اسرائیل سے تعلقات کو امریکہ کے ساتھ روس اور چین کی بھی حمایت حاصل ہے کہ اسرائیل اْن کا بھی اہم تجارتی شراکت دار ہے۔