مضامین

سونا نہیں تو شادی نہیں

ہندوستان میں شادی بیاہ کی تقریبات اتنی بڑی اور شان و شوکت والی ہوتی ہیں کہ غریب گھرانے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس میں اخراجات برداشت کرتے ہیں۔بعض ہندو گھرانوں میں بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کی شادی اور دیگر اخراجات کے لئے رقم جمع کرنے کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں شادی بیاہ کی تقریبات اتنی بڑی اور شان و شوکت والی ہوتی ہیں کہ غریب گھرانے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس میں اخراجات برداشت کرتے ہیں۔بعض ہندو گھرانوں میں بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کی شادی اور دیگر اخراجات کے لئے رقم جمع کرنے کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں
ایشین گیمز: دوسرے دن ہندوستان کو مزید 6 میڈلس
شادی کے موقع پر کی گئی فائرنگ سے ایک شخص کی موت

شادی بیاہ کے انتظامات کرنے والی فرم کی شریک بانی وٹیکا اگروال کے مطابق ہندوستان میں شادی کی تقریبات کم از کم تین دن تک جاری رہتی ہیں اور ان میں 3؍ہزار سے6؍ہزار مہمانوں کی شرکت عام طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی کمپنی اپر مڈل کلاس خاندانوں کی شادیوں کے انتظامات کا خصوصی تجربہ رکھتی ہے۔

اس قسم کے خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کی تقریبات پر زیادہ سے زیادہ 2؍لاکھ ڈالر (ایک کروڑ 30 لاکھ روپے) تک خرچ کرڈالتے ہیں، جس میں سونے کے تاروں سے کام کی ہوئی ایک عروسی ساڑی بھی شامل ہوسکتی ہے، جس کی قیمت 3 ہزار ڈالر(تقریباً 2 لاکھ روپے) تک ہوسکتی ہے۔

وٹیکا اگروال کی بزنس پارٹنر اور سابق بیوٹی کوئن دیویا وٹیکا نے اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے مزید اضافہ کیا کہ ہندوستانی خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے زندگی بھر رقم جمع کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پیدائش کے ساتھ ہی یا پھر ان کے بچپن ہی سے سونے کی شکل میں وہ سرمایہ کاری شروع کردیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلائی زیورات اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دے سکیں ، جنہیں وہ اپنے ساتھ سسرال لے جاتی ہیں اور جن کی وجہ سے ان کا مستقبل بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے۔ اسی بنا پر ہندوستان میں یہ کہاوت بہت عام ہے کہ ’’سونا نہیں ، تو شادی بھی نہیں۔‘‘

سونا، لڑکی کا بہترین دوست

سوما سندرم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہندومت میں بیٹیوں کو جہیز میں سونے کے زیورات دینے کی تاریخ بہت قدیم ہے،تاہم حالیہ دنوں میں اس رجحان کو اس وقت فروغ ملا جب جائیداد سے متعلق ہندوستانی قوانین میں دولہا کے مفادات کا زیادہ تحفظ کیا گیا۔ زمین ہو یا عمارتیں ان کی ملکیت ہمیشہ سے مردوں کے حصے میں آتی رہی ہے اس لئے والدین جب اپنی بیٹیوں کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو وہ اپنی دولت سونے کی صورت میں اس کے حوالے کرتے ہیں۔

اب اگرچہ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے حقوق یکساں قرار دیئے گئے ہیں، تاہم قدیم روایتیں اب بھی زندہ ہیں اور لوگ ان پر عمل کرتے ہیں، جس طرح دنیا ابھی تک سونے کے سحر سے آزاد نہیں ہوئی ہے، یہ روایت بھی ایک ایسا جادو ہے جس کے اثرات مستقبل قریب میں کم ہوتے نظر نہیں آتے۔

جیولرس کی پریشانی

مہاراشٹرکی ایک آٹو کمپنی میں کام کرنے والے رمیش پھالکے اپنی بیٹی کی شادی 2015ء کے آخر میں کرنے کے خواہش مند تھے لیکن اس سال چونکہ شادی کے لئے ہندو جنتری کے مطابق مبارک تاریخیں کم ہوگئی ہیں،لہٰذا انہوں نے مئی کے مہینے ہی میں اس کی شادی کردی۔

یہ دلہن اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اس کی طرح کی بہت سی دلہنوں کی شادیاں ملتوی کی جاچکی تھیںاور اس کا بہت برُا اثر ہندوستانی جیولرز پر پڑا تھا ۔ہندوستان میں کسی بھی دلہن کی جہیز کا سب سے اہم حصہ سونا ہوتا ہے اور خاندان کے دیگر افراد اور دوست احباب بھی اسے تحفتاً سونا یا سونے کے زیورات ہی دینا پسند کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی صرف ایک ریاست کیرالہ کی صرف ایک شادی میں اوسطاً 400؍گرام سونا دلہن کو زیورات کے طور پر مل جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کیرالہ میں سونے کی سالانہ کھپت 80؍ٹن ہے جو 2014ء میں ملک کی مجموعی کھپت کا 10؍ فیصد بنتا ہے۔

ہندوستان میں اگرچہ شادی بیاہ کے موقع پر پوری دنیا میں سب سے زیادہ سونے کی خریداری کی جاتی ہے لیکن اس سال کی دوسری ششماہی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں شبھ تاریخوں میں 40؍فیصد کمی کی وجہ سے سونے کی خریداری اتنی زیادہ نہ ہوسکی۔ انڈیا بلین اینڈ جیولرز اسوسی ایشن کے نائب صدر پرتھوی راج کوٹھاری نے بتایا کہ کم شادیوں کی وجہ سے طلائی زیورات کی ڈیمانڈ میں 30؍فیصد کمی دیکھی گئی۔

a3w
a3w