کرناٹک

بیلگاوی میں ”غیرقانونی“ مسجد کو وقف بورڈ نے مقفل کردیا

متنازعہ عمارت کے روبرو کرناٹک اسٹیٹ ریزرو پولیس (کے ایس آر پی) کا پلاٹون بھی تعینات کیا گیا۔ بی جے پی قائدین اور ہندو کارکنوں نے علاقہ میں رہائشی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

بیلگاوی:کرناٹک ریاستی وقف بورڈ نے بیلگاوی ضلع کے سارتھی نگر محلے کے رہائشی علاقہ میں واقع ”غیرقانونی“ فاطمہ مسجد کو مقفل کردیا۔ پولیس محکمہ نے منگل کو احتیاطاً عمارت کے اطراف سیکورٹی میں اضافہ کردیا تھا۔

متعلقہ خبریں
بیٹے نے خلیجی ممالک میں قرض لیا۔ قرض خواہوں کا باپ سے مطالبہ
کمیشن نے چامراج نگر سیٹ پر دیا دوبارہ پولنگ کا حکم
وقف ترمیمی بل چور دروازے سے اوقافی جائیدادوں کو غصب کرنے کی سازش: مشتاق ملک
کرناٹک قانون ساز کونسل میں متنازعہ مندر ٹیکس بل کو شکست
بین مذہبی جوڑے کو مارپیٹ،7 افراد گرفتار

متنازعہ عمارت کے روبرو کرناٹک اسٹیٹ ریزرو پولیس (کے ایس آر پی) کا پلاٹون بھی تعینات کیا گیا۔ بی جے پی قائدین اور ہندو کارکنوں نے علاقہ میں رہائشی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

بی جے پی اور ہندو کارکنوں نے الزام عائد کیا کہ یہ مکان مسجد میں تبدیل کرکے وقف بورڈ کے حوالے کردیا گیا۔ کارکنوں نے اس ضمن میں مقامی افراد کے ساتھ میٹنگ کی اور سابق بی جے پی رکن اسمبلی سنجے پاٹل کی قیادت میں محلے سے مسجد خالی کروانے کی مہم شروع کی۔

 پاٹل نے ضلع حکام اور کارپوریشن سے مسجد خالی کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق حکام نے اس معاملے پر چشم پوشی اختیار کی تھی۔ غیرقانونی اقدام سے واقف ہوتے ہوئے وہ بیلگاوی رورل حلقے کی کانگریس رکن اسمبلی لکشمی ہیبالکر کے دباؤ  میں آگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچیکہ ایک سال سے شکایتیں کی جارہی تھیں مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سری رام سینا نے مسجد کے انخلاء کے لیے ایک ہفتہ کی مہلت دی تھی۔ مقامی افراد نے کہا کہ حقیقی مالک نے یہ جائیداد مولانا ابوالکلام ایجوکیشنل اور چیارٹیبل سوسائٹی کو تحفے میں دے دی تھی۔

 بعد ازاں اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ کارپوریشن نے عمارت کے لائسنس اور رہائشی عمارت میں مذہبی سرگرمیوں کے لیے نوٹس جاری کی تھی۔ مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ بیلگاوی کارپوریشن کے کمشنر ردریش گھالی نے اس ضمن میں وقف بورڈ کو نوٹس جاری کیا تھا۔

 کے پی سی سی کے ورکنگ صدر ستیش جرکی ہولی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات قریب آرہے ہیں، اسی لیے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ منگلورو، اڈپی اور کاروار میں کس طرح کے واقعات ہوئے۔ وہ یہاں اور دیگر مقامات پر بھی ایسا کریں گے۔ مگر اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بی جے پی پر درپردہ حملے کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔ گرجا گھر اور مساجد اس ملک میں ہزاروں سال سے موجودہیں۔ اب تنازعہ پیدا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر عدالتی حکم ہو تو الگ بات ہے۔ بی جے پی قائدین کا مساجد کو خالی کروانے کا مطالبہ کرنا غلط ہے۔ تاہم وہ انتخابات ہونے تک یہ جاری رکھیں گے۔