سیاستمضامین

سپریم کورٹ کی رولنگ اور ا لیکشن کمیشن کی خاموشی

عبدالعزیز

’ای وی ایم‘ (الیکٹرونک ووٹنگ مشین) کے ذریعے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاری ہے۔ وکلاء کے ذریعے کئی مہینوں سے ای وی ایم کے خلاف تحریک بھی چل رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے بھی اکثر و بیشتر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر کے ذریعے الیکشن کرایا جائے۔ اب چنڈی گڑھ میں بیلٹ پیپر کے ذریعے میئر کے الیکشن میں کھلے عام بے شرمی کے ساتھ بی جے پی کے ایک ممبر نے جس طرح کی دھاندلی کی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ’انڈیا اتحاد‘ (کانگریس- عام آدمی پارٹی) کا مقابلہ بی جے پی سے تھا۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے انڈیا کے امیدوار کے حق میں 20 ووٹ پڑے تھے جب کہ بی جے پی کے امیدوار کو 16 ووٹ ۔ انیل مسیح 8، 10 سال پہلے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے ، ان کو نام زد کونسلر بھی بنایا گیا تھا وہ ریٹرننگ آفیسر تھے۔ ووٹوں کی گنتی سے پہلے پورے طور پر یقین تھا کہ بی جے پی کے امیدوار کی ہار ہوگی لیکن ریٹرننگ آفیسر نے انڈیا اتحاد کے امیدوار کے حق میں جو بیس ووٹ پڑے تھے ان میں سے 8ووٹ کو باطل قرار دے دیا۔ سی سی ٹی کیمرے میں جس ڈھٹائی کے ساتھ انیل مسیح دھاندلی کر رہے تھے کیمرے میں اس کی ایک ایک چیز قید ہوگئی۔ ووٹوں کو باطل کرتے وقت وہ بار بار سی سی ٹی وی کیمرے کی طرف دیکھتے تھے جو لوگ ان کی مدد کر رہے تھے ان کے ذریعہ کیمرہ بار بار ہٹانے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ ان کے کالے کرتوت کیمرے میں محفوظ نہ ہوں۔ ریٹرننگ آفیسر انیل مسیح نے الیکشن کے سارے ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ کام سر انجام دیئے۔ طریقہ یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت کسی بھی ووٹ کو باطل کرتے وقت پارٹیوں کے ایجنٹ کو دکھایا جاتا ہے، لیکن متعلق ایجنٹوں کو دکھانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے اس ویڈیو کو جس میں انیل مسیح دھاندلی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جب وائرل کیا تو سوشل میڈیا کے ذریعے ملک بھر میں چرچا ہونے لگا۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔ عام آدمی پارٹی کی طرف سے پیش ہوئے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے سپریم کورٹ میں کہاکہ مقرر کردہ ریٹرننگ آفیسر کا تعلق بی جے پی سے ہے، وہ پارٹی میں بھی سرگرم ہیں اور انھیں یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔ اس پر عدالت نے ابھیشیک منو سنگھوی سے ویڈیو فوٹیج کی پین ڈرائیو طلب کی۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے دورانِ سماعت کہاکہ ’’یہ جمہوریت کا مذاق ہے۔ جمہوریت کا قتل ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کے خلاف مقدمہ چلاکر اسے سزا دینا چاہئے‘‘۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاکہ ’’ہائی کورٹ انتخابات کو صحیح طریقے سے کرانے میں ناکام رہی‘‘۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے یہ بھی کہاکہ یہ مناسب عبوری حکم کی ضرورت تھی جسے ہائی کورٹ جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم ہدایت دیتے ہیں کہ میئر چنڈی گڑھ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا مکمل ریکارڈ ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے ضبط کیا جائے اور بیلٹ پیپرس اور ویڈیو گرافی کو بھی محفوظ کیا جائے۔ ریٹرنگ آفیسر کو نوٹس جاری کرکے تمام ریکارڈ حوالے کرنے کا حکم دیا گیا۔ اب سماعت اگلے ہفتے طے کی گئی ہے۔
کھلے عام ایسی دھاندلی کسی ایک فرد کا کام نہیں ہوسکتا۔ یہ منصوبہ بند دھاندلی تھی جس کے تار اوپر سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اس دھاندلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا الیکشن میں دھاندلی کا ثبوت کچھ ایسا ہوا ہے کہ ان کے چھوٹے بڑے لیڈران منہ چھپائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کی دھاندلی کھلے عام پکڑی گئی اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 2014ء سے لے کر آج تک الیکشن میں بی جے پی ہر قاعدے اور قانون کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق الیکشن کراتی ہے۔ اتنی بڑی انتخابی دھاندلی پر الیکشن کمیشن کے ذریعے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ 135 کروڑ کی آبادی والے ملک میں 95 کروڑ ووٹروں کے اعتماد کو پہلے ہی سے مجروح کیا جارہا تھا اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد بیلٹ پیپر سے جو الیکشن کا مطالبہ کیا جارہا تھا اب یہ مطالبہ بھی کافی نظر نہیں آتا بلکہ اب تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بھی کھلے عام کیا جاسکتا ہے۔ 2014ء سے کیا کچھ نہیں ہوا اور کیا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ کسی ریاست میں اگر ایک بھی بی جے پی کا ایم ایل اے ہے تو وہاں بھی مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے بی جے پی حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ حکمراں جماعت کے 60، 70 فیصد ممبروں کو ای ڈی اور سی بی آئی کا ڈر دکھاکر نئی جماعت بناکر حکومت توڑنے میں بھی بی جے پی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جیسے کہ مہاراشٹر میں ہوا۔ مدھیہ پردیش میں جو کچھ ہوا وہ اظہر من الشمس ہے۔ چند دنوں پہلے پلٹو رام پر ایسا دباؤ پڑا کہ انھیں بھی پلٹنی کھانی پڑی۔ رانچی میں ہیمنت سورین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مثال ہندستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایک مقتدر وزیر اعلیٰ کو ہر طرح سے مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ بی جے پی کے سامنے سرنگوں ہوجائے، لیکن قبائلی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے جیل جانا منظور کرلیا لیکن جھکنا منظور نہیں کیا۔بی جے پی کو یقین تھا کہ ہیمنت سورین کے جیل میں جانے کے بعد جھارکھنڈ میں اتحادی حکومت ختم ہوجائے گی اور ہیمنت سورین کی پارٹی بکھر جائے گی اور اس کے بہت سے لوگ بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے اور آسانی سے جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے گی، مگر انھیں اپنے منصوبے میں بری طرح ناکام ہونا پڑا۔اسمبلی کے فلور ٹسٹ میں چمپئی سورین کی حکومت اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی۔ چمپئی حکومت کے حق میں 47 ووٹ پڑے اور مخالفت میں 29 ووٹ پڑے۔ فلور ٹسٹ کے عمل کے دوران عدالت کی اجازت سے سابق وزیر اعلیٰ جھارکھنڈ ہیمنت سورین بھی نہ صرف موجود تھے بلکہ انھوں نے ایسی زبردست تقریر کی کہ جس کا چرچا میڈیا میں کل سے شروع ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ایک قبائلی وزیر اعلیٰ کو ہٹانے اور نیچا دکھانے کے لئے کیا کچھ نہیں کہا اور کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ایک قبائلی کو اونچے عہدے پر فائز ہونے کا حق نہیں ہے یہاں تک کہ اسے شہر میں بھی رہنے کا حق نہیں ہے۔ وہ جنگلوں میں رہتا تھا اسے جنگلوں میں ہی رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ کسی کے ساتھ بیٹھے گا تو اس کے کپڑے میلے ہوجائیں گے۔ یہ در اصل اشارہ تھا ٹی وی اینکر سدھیر چودھری پر جس نے اپنے پروگرام میں آدی واسیوں کے خلاف توہین آمیز باتیں بیان کی تھیں اور بی جے پی کی ترجمانی کی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے اپنی تقریر میں بی جے پی کے لیڈروں کو چیلنج پر چیلنج دینے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ اسمبلی میں آئیں اور پیش کریں۔ اگر ثبوت پیش کرسکے تو وہ نہ صرف سیاست سے سنیاس لیں گے بلکہ جھارکھنڈ کو بھی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
ہیمنت سورین کی تقریر سے پہلے ہی ان کی حمایت میں بہت ہی بڑا جلسہ رانچی میں منعقد ہوا جس میں تا حد نظر لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ اس تقریر سے اور جھارکھنڈ میں قبائلیوں کی ہمدردیوں سے پورے ملک میں ہیمنت سورین کی حمایت اور مقبولیت بڑھ جائے گی۔ ایک طرح سے بی جے پی نے اپنے پیر میں کلہاڑی مارنے کا کام خود ہی کیا ہے۔ جھارکھنڈ ہی میں نہیں بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی اس کا اثر پڑنے کا امکان ہے۔
بہار میں اس وقت غیر یقینی سیاسی صورت حال ہے۔ نتیش کمار کی جو ساکھ بہار میں تھی وہ اب باقی نہیں ہے ان کی پارٹی میں بھی ان کے خلاف لوگ ہوگئے ہیں۔ اگر ان کی پارٹی کے کچھ لوگ 12فروری کو فلور کے ٹسٹ کے وقت عملاً ناراضگی ظاہر کرتے ہیں تو نتیش کمار کی حکومت گر بھی سکتی ہے۔
ایک طرف این ڈی اے کی یہ حالت ہے کہ بی جے پی کے مودی اور امت شاہ کی ناکامی اور بدنامی کا ملک بھر میں چرچا ہے لیکن دوسری طرف انڈیا اتحاد میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ خاص طور پر مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی سیاست اور بیان بازی انڈیا اتحاد کو فائدہ پہنچانے کے بجائے مودی اور امت شاہ کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کے خلاف بیان دینے کے بجائے کانگریس کے خلاف بیان دیا ہے کہ کانگریس 40 سیٹ بھی جیت نہیں سکے گی۔ اگر اس کو جیت کے دکھانا ہے تو اتر پردیش میں دکھائے اور دیگر ریاستوں میں دکھائے۔ ممتا بنرجی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کانگریس کے بغیر بی جے پی کو الیکشن میں ہرایا نہیں جاسکتا۔ بنگال میں جو انھیں 25، 30 سیٹو ں میں کامیابی ملنے والی ہے اگر وہ مل بھی جائے تو پچیس تیس سیٹوں سے وہ بی جے پی کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ بنگال میں آئی تو محترمہ کو ایسا لگا کہ راہل گاندھی کو بنگال میں نہیں آنا چاہئے تھا کیونکہ ممتا بنرجی کی پارٹی کو لوک سبھا کے الیکشن میں کہیں کم سیٹوں پر نہ اکتفا کرنا پڑے۔ یہ چیز بھی ان کو کھائے جارہی تھی اور کانگریس کی یہ ادا بھی پسند نہیں آرہی ہے کہ ان کے حکم کے مطابق بنگال میں کانگریس دو سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لئے راضی نہیں ہورہی ہے۔ نتیش کے بعد ممتا کا بھی رویّہ غیر معقول اور نا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف کانگریس کے بڑے لیڈروں کی طرف سے نرمی کا مظاہرہ ہے اور دوسری طرف ممتا بنرجی کی طرف سے نامناسب اور ناپسندیدگی کا مظاہرہ ہے جو قابل مذمت ہے۔ کانگریس کے بنگال میں سب سے بڑے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کی بیان بازی بھی اکثر و بیشتر غیر معقول ہوا کرتی ہے۔ کانگریس ہائی کمان ادھیر رنجن چودھری کی زبان پر بھی لگانے سے قاصر ہے۔ ضرورت ہے کہ ممتا بنرجی سے کانگریس کے بڑے لیڈران فیصلہ کن طریقے سے بات کرلیں۔ اگر وہ چار پانچ سیٹیں دینے پر نہیں رضامند ہوں تو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ ان کی بیان بازی سے انڈیا اتحاد کو نقصان نہ پہنچے۔