حیدرآباد

سیاسی تبدیلیوں کے باوجود حیدرآباد پر مجلس کا غلبہ غیر متزلزل

اسد الدین اویسی کی زیر قیادت والی مجلس کو تشکیل تلنگانہ کے مسئلہ پر تحفظات ضرور تھے تاہم 2014 میں آندھرا پردیش کی تقسیم اور نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس جماعت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

حیدرآباد: گذشتہ 4دہائیوں کے دوران حیدرآباد کی سیاست پر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کا غلبہ رہا ہے اور ریاست بھر میں سیاسی تبدیلیوں سے مجلس کا یہ گڑھ غیر متزلزل رہا ہے۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں کونسی جماعت برسر اقتدار آئے گی اس سے کوئی فرق نہیں پڑا  تاہم ہر جماعت کو مجلس کی حمایت بدستور ملتی رہی۔

 اسد الدین اویسی کی زیر قیادت والی  مجلس کو تشکیل تلنگانہ کے مسئلہ پر تحفظات ضرور تھے تاہم 2014 میں آندھرا پردیش کی تقسیم اور نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس جماعت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ نئی ریاست میں اگرچیکہ ٹی آر ایس غلبہ والی پارٹی ضرورہے مگر مجلس نے نئے سیاسی ماحول میں خود کو ڈھال لیا۔

حیدرآباد کی لوک سبھا نشست اور شہر کے 7 مسلم اکثریتی اسمبلی حلقو ں پر مجلس کی گرفت ہنوز مضبوط ہے۔ جبکہ2014 اور 2018 کے اسمبلی انتخابات میں حکمراں جماعت ٹی آرایس کو مجلس کی تائید وحمایت حاصل رہی ہے۔ ان کی اس دوستی اور چیف منسٹر کے سی آر کی سیکولر شبہیہ کی وجہ سے ٹی آر ایس کو مسلم ووٹروں کی مدد حاصل رہی۔

 ریاست کے صدر مقام حیدرآباد اور چند دیگر اضلاع میں مسلم رائے دہندوں کی بڑی تعداد ہے۔ اور119 کے منجملہ نصف اسمبلی حلقوں میں انہیں بادشاگر کا موقف حاصل ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ حیدرآباد کے10اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندوں کا تناسب35 اور60 فیصد کے درمیان ہے  جبکہ ریاست کے 50اسمبلی حلقہ جات میں ان کا تناسب10 سے40 فیصد کے درمیان بتایا گیا ہے۔

اسمبلی حلقہ جات جہاں مجلس کا غلبہ ہے کے سوا مابقی اسمبلی حلقوں میں مجلس کی ٹی آر ایس کو مدد وحمایت حاصل ہے۔ دریں اثنا مجلس کے سیاسی حریفوں کا الزام ہے کہ یہ پارٹی، فرقہ وارانہ سیاست پر عمل پیرا ہے جبکہ کئی مواقع پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ مجلس اور اسد اویسی سے دوستی کی مدافعت کرچکے ہیں۔

 کے سی آر نے مسلمانوں کے آئینی حقوق کیلئے اسد الدین اویسی کی جدوجہد کی ستائش کی جو جمہوری انداز میں اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔حتیٰ کہ کے سی آر نے کہا کہ وہ قومی سطح پر غیر بی جے پی اور  غیر کانگریس پر مبنی متبادل کی تشکیل کیلئے اسد الدین اویسی کی خدمات سے استفادہ کیا ہے۔

 وزیر اعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، خوشامدی سیاست پر کے سی آر کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں جبکہ بی جے پی کی ریاستی قیادت نے مجلس کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے اس کو رضا کاروں کی جماعت قرار دیا۔ مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی کیلئے1927 میں مجلس اتحاد المسلمین کی داغ بیل ڈالی گئی تھی تاہم سقوط حیدرآباد کے بعد1948 میں مجلس پر امتناع عائد کردیا گیا تھا۔

مولوی عبدالواحد اویسی نے 1958 میں نئے دستور کے ساتھ مجلس کا احیاء کیا۔ وہ، اُن دنوں میں ایک ممتاز وکیل تھے۔ مولوی عبدالواحد اویسی جو مجلس کے موجودہ صدر اسد الدین اویسی کے دادا ہیں، نے دستور ہند کے تحت مسلمانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے مجلس کو سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا۔

 مجلس نے 1959 میں حیدرآباد میں بلدیہ کے دو حلقوں کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے ذریعہ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔1960 میں مجلس حیدرآباد کی اہم اپوزیشن جماعت کے طور پر ابھرنے لگی۔ سالار ملت صلاح الدین اویسی اور مجلس دیگر قائدین، میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد کیلئے منتخب ہوئے تھے۔

 صلاح الدین اویسی نے 1980 کے دہے میں تین ہندو کارپوریٹرس کو شہر کا مئیر بناتے ہوئے مجلس پر لگے فرقہ پرست جماعت کا داغ مٹا دیا۔ مجلس کا سیاسی سفر 6دہائیوں پر مشتمل ہے۔ مجلس نے بی جے پی کی سیاسی پیشرفت کو روکنے کے مقصد کے تحت17 ستمبر کو یوم قومی یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے جس کا ایک اور مقصد بی جے پی کو17 ستمبر کے مسئلہ کو استحصال کرنے سے روکنا بھی ہے۔