سیاستمضامین

سیدنا عمر فاروقؓ 20لاکھ مربع میل وسیع و عریض مملکت ِاسلامیہ کے سرچشمۂ عدل و انصاف تھےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر حضرت عمرؓ کی شہادت کے تمام واقعات پر مبنی ٹی۔وی سیریز ’’ عمر‘‘ کے 30 Episodes دیکھنے کی پرخلوص اپیل

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ تاریخ سے واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ نوجوان دلوں میں دین سے محبت امنگ لے گی۔
٭ پتہ چلے گا کہ اس مبارک دور میں پیمانۂ عدل کیا تھا۔ وہ لوگ کتنے اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل تھے۔
٭ ایک مہینہ تک اگر روزانہ 40منٹ اس سیریل کو دیکھیں تو دینی فہم حاصل ہوجائے گا۔
٭ اس سیریل کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر بڑے اسکرین کے ٹی وی سیٹ پر دیکھیں تو بہتر ہوگا۔
کسی قوم کو مکمل طور پر غارت و تباہ کردینے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے افراد کو ان کے دین‘ زبان اور ان کی تاریخ سے بے بہرہ کردیا جائے۔ اگر یہ تباہی و غارت گری مکمل ہوجائے تو اس قوم کے افراد تعلیم تو ضرور حاصل کریں گے اور ان کی تعلیم کسی پیشہ ‘ ملازمت سے مربوط ہوگی۔ وہ کمائیں گے‘ کھائیں گے اور مرفع الحال ضرور ہوں گے لیکن ان کے دل ایمان و ضمیر سے عاری ‘ ان کی فکر صرف روزگار اور حصولِ جائیداد و دولت کی حد تک مرکوز رہے گی۔ وہ اندر سے دین و اخلاق کے اعتبار سے کھوکھلے ہوں گے۔ وہ نیک و بد۔ گناہ و ثواب میں کوئی تمیز نہ کرسکیں گے۔ ان کے ذہن فکر ِ آخرت سے بھی عاری ہوں گے۔ دین و دنیا دونوں کی تباہی مقدر ہوجائے گی اور ان کی اولاد بھی اسی راہ پر گامزن ہوگی جس پر گامزن ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے باپ دادا کو دیکھا تھا۔
آج جب ہم سوچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا درخشاں ماضی کہیں معدوم ہوگیا ہے۔ ہماری قوم کے نوجوان یہاں تک کہ درمیانی عمر والوں کو اس بات کا پتہ نہیں کہ خلافتِ راشدہ کیا تھی اور اس کا دور کیا تھا۔ بنو امیہ کی سلطنت کے حدود کہاں تک تھے اور بنو عباس کون تھے۔
نوجوانوں حتی کہ عامۃ المسلمین کو اس بات کا پتہ نہیں کہ عشرہ مبشرہ یعنی وہ دس اصحاب رسول اللہ کون تھے جن کو ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ ہمیں پتہ نہیں کہ کس طرح دس سالہ مختصر عرصہ میں مسلمانوں نے دنیا کی تین بڑی بڑی سلطنتوں (روم۔ ایران اور مصر) کو شکست دے کر ان کی سلطنتیں چھین لی تھیں اور ان ممالک میں ایک نیا نظم انصاف قائم کیا تھا جس سے وہاں کے عوام محروم تھے۔ یہ مسلمانوں کا مفتوحہ علاقوں میں نظم انصاف ہی تھا جس نے مفتوحہ ممالک کے لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔ ان محکوموں کو ایسا انصاف دیا گیا جس کا وہ تصور تک نہیں کرسکتے۔ قبل ازیں ان کو ان کے حکمرانوں نے انصاف حتی کہ اقل ترین ضروریات سے تک محروم کررکھا تھا۔ انصاف ظلم پر غالب ہوا اور مفتوحہ علاقوں کے لوگوں نے بہ خوشی اسلام قبول کیا۔ یہ دس سالہ دور تاریخ عالم میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ صحرائے عرب سے اٹھنے والے یہ لوگ صرف دس سالہ عرصہ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے۔ ایک مورخ فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) نے لکھا ہے کہ ان صحرا نشینوں نے دنیا کی تین عظیم الشان سلطنتوں کو اپنے پیروں تلے روند الا۔ اگر کوئی اس بات کی پیشین گوئی کرتا کہ صرف دس سالہ عرصہ میں یہ صحرا نشین ۔ اونٹ کے گوشت ۔ دوددھ اور کھجوروں پر گزارا کرنے والے ‘ دنیا کی تین بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک بن جائیں گے اور ایک ایسا نظامِ عدل قائم کریں گے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی‘ تو لوگ ایسے شخص کو دیوانہ قراردیتے۔ اس مبارک دور میں حضرت عمرؓ حاکم وقت تھے۔ بیس لاکھ مربع میل پر مشتمل ممالک کے واحد حکمران کی زندگی کا یہ حال تھا کہ ان کے بدن پر پہننے کے لئے صرف ایک جوڑا تھا۔ انہیں ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسی غلطی تو سرزد نہیں ہوئی جو خلافِ قانون و انسانیت ہو۔ وہ ہر وقت خود احتسابی میں مصروف رہتے ۔ وہ ہر وقت اپنے ساتھیوں کی رائے طلب کرتے‘ مشورے کرتے اور فرماتے کہ جب اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیا ہے تو میں کیا چیز ہوں۔ وہ فضول خرچی کے سخت مخالف تھے۔ اس وقت کے ایک عظیم جرنیل حضرت خالد بن ولیدؓ جنہوں نے اپنی فوجی حکمتِ عملی اور بسالت سے رومیوں کی تین لاکھ آہن پوش افواج کو میدانِ یرموک میں شکستِ فاش دی تھی اور ملکِ شام کو فتح کیا تھا‘ دوسرے عظیم جرنیل حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے ایرانیوں کی عظیم الشان فوج کو شکست دے کر میدانِ قادسیہ سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بھاگتے وقت شہنشاہ ایران کا تاج اور کنگن مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے حصہ میں آئے۔ تیسرے جرنیل اور زبردست سیاست دان حضرت عمرو ابن العاصؓ نے خون بہائے بغیر مصر فتح کیا اور عظیم الشان شہر اسکندریہ پر قبضہ کیا اور تمام مصر میں انصاف قائم کیا۔ ایک عظیم جرنیل حضرت عبیدہ ابن الجراحؓ کے کارناموں سے کون واقف نہیں جن کا لقب امین الامت تھا۔ حضرت عمرؓ فضول خرچی کے سخت خلاف تھے ۔ ان کے پاس شکایت آئی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام میں دیئے جس نے ان کے فوجی کارناموں کی تعریف کی تھی‘ حضرت عمرؓ کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہو ںنے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کردیا۔ جب خالد ابن ولید ؓ نے کہا کہ یہ پیسہ میرا ذاتی پیسہ تھا‘ میں نے بیت المال سے یہ پیسہ نہیں لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اگر یہ پیسہ تم نے بیت المال سے خرچ کیا تو یہ عمل خیانت تھا اور اگر تم نے اپنا پیسہ شاعر کو دیا تو اسے اسراف کی تعریف میں لایا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد بھی آخری دم تک حضرت خالد بن ولیدؓ حضرت عمرؓ سے راضی رہے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت خالدؓ کی موت پر بہت افسوس کیا۔ بہت روئے اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس دور میں یہ بات مشہور ہوچکی تھی کہ جس طرف خالدؓ ہے اس طرف فتح۔ ہر فتح خالدؓ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا یہ عمل شخصیت پرستی کے خلاف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ عزت و اقبال ہمیں اسلام نے عطا کیا ہے نہ کہ خالدؓ نے ۔ اس مقام پر جس طرح حضرت خالد بن ولید ؓ نے خلیفہ کے حکم کی اطاعت کی وہ بہت ہی مستحسن اقدام ہے۔ حضرت عمرؓ کسی بھی شخص کو دولت مند بنانے کے سخت مخالف تھے۔ ان کے مطابق دولت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ جب بے شمار زوروجواہر۔ سونا چاندی۔ درہم ودینار بیت المال آیا تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ یہ دولت مسلمانوں کو گمراہ نہ کردے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو دنیا کے بڑے بڑے فوجی تجزیہ کاروںنے دنیا کے چند عظیم جنرلوں میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے کوئی بھی جنگ نہیں ہاری۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ جنگِ یمامہ سے شروع ہوا اور اس کا سلسلہ جاری رہا۔ مغربی فوجی تجزیہ نگار حضرت خالدؓ کو Pincer Strategy کا خالق کہتے ہیں۔ اس فوجی حکمتِ عملی سے دشمن کی فوج کو دونوں بازوؤں سے گھیرلیا جاتا ہے۔ دشمن کو یا تو فرار ہونا پڑتا ہے یا کٹ کر مرنا ہوتا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل مقصد کی جانب واپس آتے ہیں اور وہ ہے تاریخ اسلامی سے مکمل واقفیت ۔ یہ ٹیلی ویژن سیریل جس کے کم از کم ایک Episode کو روزانہ دیکھنے کی پرزور سفارش یا گزارش کی جارہی ہے۔ اس میں وہ تمام باتیں نظر آئیں گی جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔
سیریل کی ابتداء حضرت عمرؓ کی جوانی سے ہوتی ہے۔ ان کے باپ بڑے ظالم انسان تھے اور ان پر بہت ظلم کرتے تھے اور بہت زیادہ کام لیتے تھے۔ وہ تجارتی دوروں پر ملک شام جایا کرتے تھے۔ پھر وہ دور آتا ہے جسے بعثتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات۔ فاقوں پر مجبوری تین سالہ عرصہ تک شعب ابو طالب میں نظر بندی۔ فاقہ کشی۔ پھر اس کے بعد ہجرت ۔ مدینہ منورہ میں حضور کی آمد۔ جنگ بدر۔ جنگِ احد۔ جنگِ احزاب۔ صلح حدیبیہ ۔ فتح مکہ ۔ حجۃ الوداع۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ حسرت آیات۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت۔ جنگ یمامہ ۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرکوبی۔ ان کا خاتمہ۔ جنگ موتیٰ ۔ جنگِ یرموک۔ جنگِ قادسیہ۔ فتح شام۔ فتح فلسطین۔ فتح بیت المقدس۔ شام میں مرضِ طاعون اور ہزاروں مسلمانوں کی موت‘ قحط ۔ جس نے حضرتِ عمرؓ کی جان لے لی ۔ یعنی ایک ایرانی غلام ابو لولو ۔ فیروز کے ہاتھوں حضرت عمرؓ کی شہادت اور حضورؓ و ابوبکرؓ کے حجرے میں تدفین۔ یہاں30 ویں Episode پر خاتمہ ہوتا ہے۔ اس ایمان افروز سیریل کو دیکھنے اور اپنی اور بچوں کو دکھانے اور ان کو سمجھانے کی پرزور درخواست کی جاتی ہے۔ شائد یہ سیریل تبلیغ اسلام کا ایک نیا روپ ثابت ہو۔
جعلی سادہ بیع ناموں سے دھرانی پورٹل میں دھاندلیاں
کروڑوں روپیہ مالیتی اراضیات کی غیر قانونی منتقلی
آج سے دو سال قبل جب حکومتِ تلنگانہ نے اعلان کیا تھا کہ سادہ بیع نامہ کی بنیاد پر بھی ریوینیو ریکارڈ میں پٹوں کی منتقلی ہوسکتی ہے تو اسی وقت بات سمجھ میں آگئی تھی کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے۔ ایسی اراضیات کی نشاندہی کی گئی جن کے پٹہ دار غیر موجود تھے یا یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اپنی اراضیات سے غافل تھے۔ لہٰذا محکمہ ریوینیو کے بے ایمان وغیر ذمہ دار عہدیدار ۔ مقامی سیاست دان۔ سرپنچ وغیرہ نے فرضی بیع نامہ جات پرانے کاغذات پر کالے رنگ کی سیاہی سے لکھ لئے جس میں حقیقی پٹہ دار کی جانب سے اقرار نامہ تھا کہ میں نے اپنی اراضی موازی … ایکر موقوعہ موضع … روپیہ رقم وصول کرکے میری اراضی کا قبضہ … کو دیدیا ہے اور ان کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ریوینیو ریکارڈ میں نام کی تبدیلی کروالیں۔
پھر اس کے بعد دھرانی پورٹل کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس قدر دھاندلیاں کی گئی ںکہ ناقابل بیان ہے۔ ہمارے کچھ موکلین نے ہمارے سامنے تین چار سال قبل کی جاری کی گئی پٹہ دار پاس بک پیش کی جس میں ان کی اراضی کا سروے نمبر اور رقبہ درج تھا لیکن بعد کے جاری پٹہ پاس میں سے اس اراضی کا نصف سے زیادہ حصہ غائب تھا۔ ایسی بے شمار شکایتیں سامنے آئی ہیں اور آتی جارہی ہے۔ بات سمجھ میں آگئی کہ کیوں سادہ بیع نامہ کو قانونی موقف ادا کیا۔
تمام متاثرین اپنی شکایت Grievance Cell میں دائر کرسکتے ہیں۔ اگر انصاف نہیں مل رہا ہے تو مقامی سیول کورٹ سے رجوع ہوکر ٹائٹل کی ڈکری حاصل کی جاسکتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰