سیاستمضامین

سی اے اے ؛ ہندوراشٹر کی طرف قانونی قدم

ڈاکٹر عابدالرحمن (چاندور بسوہ)

لیجئے آئینی طور پر سیکولر بھارت میں ہندو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے والا قانون سی اے اے لاگو ہوگیا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ سی اے اے شہریت دینے والا قانون ہے کسی کی شہریت چھیننے والا نہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس قانون کے بعد کسی بھی بھارتی شہری کو اپنی شہریت ثابت کر نے کے لئے نہیں کہا جائے گا۔ سی اے اے سے مسلمانوں کو کوئی پرابلم نہیں ہے بلکہ ستائے جانے والے لوگوں کو پناہ دینا قابل تعریف ہے لیکن سی اے اے کو این آرسی سے جوڑکر دیکھنے سے یہ مسلمانوں کے لئے واقعی مسئلہ نظر آتا ہے اور مسلمانوں کو یہی خدشہ ہے کہ اگر ملک گیر این آرسی کروایا گیا تو اس میں شہریت ثابت نہ کرپانے والے ہندوؤں کو سی اے اے کے ذریعہ بچالیا جائے گا جبکہ مسلمان باہر کے باہر رہ جائیں گے۔ ویسے بھی اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سی اے اے این آرسی کے بغیر ادھورا ہے۔ این آرسی آسام میں آزمایا جا چکا ہے حالانکہ وہاں جن لوگوں کی مانگ این آرسی کروانے کی تھی ان کا مقصدبلا تفریق مذہب غیر ملکی بنگالیوں کو باہر نکالنا تھا مذہب کی بنیاد پر تفریق یا مسلم مخالفت اس کا موضوع نہیں تھا بلکہ آسام قومیت تھا پھر بھی اس اشو کو مسلم مخالفت میں رنگ دیا گیا تھالیکن اس کا نتیجہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن نکلا۔ رپورٹس کے مطابق آسام این آرسی میں تقریباً 19 لاکھ لوگ باہر ہوئے جن میں قریب پانچ لاکھ مسلمان جبکہ 14لاکھ مختلف ذات برادریوں کے غیر مسلم ہیں اور انہی غیر مسلموں کو بھارتی شہریت میں واپس لانے کے لئے سی اے اے لایا گیا ہے تاکہ ہندو تو دوبارہ بھارتی شہری ہوجائیں اور مسلمان غیر ملکی قرار دئے جائیں ۔
یہ سی اے اے دراصل ہندوراشٹر کی طرف قانونی قدم ہے جس کے ذریعہ ہندوراشٹر کی آئینی استھاپنا سے پہلے مسلمانوں کو سماج میں الگ تھلگ کرنے اور اکثریت کی تمام ذات برادریوں کو ایک کرنے اور بدھسٹ اور سکھوں کو بھی ہندوؤں میں شامل کرکے مسلمانوں کے خلاف متحد اور ہندوراشٹر کی حمایت میں یک جٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر ملک گیر این آرسی ہوا اور اس میں بھی آسام کی طرح ہندوؤں کی اکثریت اپنی شہریت ثابت نہ کرپائی تو ان لوگوں کو سی اے اے کے تحت شہریت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو پاکستان افغانستان یا بنگلہ دیش کا شہری ثابت کرنا ہوگا حالانکہ اس کے ثبوت میں کافی سہولت دی گئی ہے لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں ہوگا آسام والے بنگالی ہیں اس لئے وہ اپنے آپ کو آسانی سے بنگلہ دیشی کہہ سکتے ہیں لیکن آسام کے علاوہ دیگر علاقوں کے ہندوؤں کے لئے یہ کام خاصا مشکل ہوگا اور ذلت آمیز بھی کہ انہیں اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی شہریت کے کاغذات دکھانے ہوں گے۔ہوسکتا ہے ہندوؤں کو ہونے والی اس پریشانی کو مسلمانوں کو ملک بدر کرنے یا دوسرے درجے کا شہری بنانے میں کولیٹرل ڈیمیج (Collateral Damage ) کہہ کرقربانی قرار دیا جائے اور اکثریت کی اکثریت بھی اسے ملک و قوم کی خدمت مان کر بے چوں و چرا بھگتنے لگے ۔
حالانکہ ابھی یہ کہا جارہا ہے کہ سی اے اے اور این آرسی آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں اور حکومت کا ملک گیر این آرسی کروانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ابتدا میں جوکرونولوجی سمجھائی گئی تھی وہ تو ڈنکے کی چوٹ پر پہلے سی اے اے بعد میں این آرسی پر مبنی تھی اور اس انداز سے بولی جارہی تھی کہ ملک گیر این آرسی ہوگا اور اگر اس میں ہندو باہر ہوجائیں تو ان ہندوؤں کو بھارتی شہریت دینے کے لئے ہی سی اے اے لاگو کیا جارہا ہے۔ وہ تو مسلمانوں اور خاص طور سے ہماری ماؤں بہنوں کے سردی گرمی بارش اور شدت پسند غنڈوں کی تخریب کاری کی پروا نہ کرتے ہوئے طویل احتجاج نے حکومت کو این آر سی کے تئیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیالیکن اس کی کیا ضمانت کہ حکومت ہمیشہ کے لئے این آرسی سے سبکدوش ہو چکی ہے ؟ ہوسکتا ہے اس جنرل الیکشن میں سی اے اے سے ہی کام نکالا جارہا ہو، این آر سی کو کسی اور الیکشن کے لئے اٹھا رکھا گیا ہو۔ ویسے ابھی الیکشن کے وقت سی اے اے لاگو کرنے کے پیچھے سر دست یہ مقصد نظر آرہا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا بھی شکار کیا جاسکے کہ الیکشن کے وقت مسلمان اس قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر آئیں ان میں کے نقیبان و سالاران ملت جارحانہ بیان بازیاں کریں حالات بگڑیں اور پچھلی بار کی طرح حکومتوں کو لاٹھی چارج سے لے کر فائرنگ تک کا بہانہ مل جائے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع بھی تاکہ این آرسی کی صورت سی اے اے کے تحت شہریت کی واپسی کی گارنٹی دئے گئے لوگ خود بخود مسلمانوں کے خلاف یک جٹ ہوکر ووٹوں کی شکل ان لوگوں کی جھولی میں جاگریں جنہوں نے یہ گارنٹی دی ہے،تاکہ اس بار 370 پار کا نعرہ کامیاب کیا جاسکے اورآئینی ہندوراشٹر کی راہ ہموار ہو۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰