محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ حیدرآباد کا نام اور تہذیب نشانے پر۔
٭ فرقہ پرست عناصر کو شکست دینا وقت کی پکار ہے۔
٭ پردھان منتری نے مسلمانوںکو نام لے کر نشانہ پر لیا۔
٭ اس جرم کی سزا ووٹ کے کوڑے سے دینا چاہیئے۔
ملک کا وزیراعظم مسلمانوں کی سیاسی بیداری سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ اترپردیش ‘ بہار‘ اور مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے سیاسی شعور سے زعفرانی پارٹی کے ایوان لرزرہے ہیں جس کا ثبوت وزیراعظم کا مسلمانوں پر بالراست حملہ ہے کہ وہ زندگی بھر مسلمانوں کو تحفظات حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ بار بار مسلمانوں کو کانگریس کا ووٹ بینک کہا گیا۔ یہ بھی بکواس کی گئی کہ کانگریس ہندو خواتین کا منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دیگی۔ اب زعفرانی پارٹی کے پٹارے میں کچھ باقی نہیں رہا۔ ہندوستان کے باشعور عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خوفناک عزائم کو سمجھ لیا ہے۔ عوام کسی بھی قیمت پر دستور اور جمہوریت کو پامال ہونے نہیں دیں گے۔ آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ زعفرانی پارٹی ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے جس کا ثبوت وزیراعظم کی بے سروپا بکواس ہے۔
ہم حیدرآباد حلقۂ پارلیمان کے باشعور مسلمانوں سے مخاطب ہیں۔ بھائیو! یہ وقت آپسی اختلافات کو فراموش کرنے کا ہے۔ مجلس بچاؤ تحریک نے زبردست ملی اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا جو ایک لائق تحسین اقدام ہے۔ بھائیو! تمام اختلافات کو فراموش کرکے پوری قوم کو ایک فردِ واحد کی طرح کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اقبالؒ
زعفرانی پارٹی کے عزائم نہایت خطرناک ہیں اور وہ حیدرآباد کی تاریخ اور شناخت کو مٹادینے پر کمربستہ نظر آتی ہے۔ ایسی بھی باتیں ہورہی ہیں کہ شہر حیدرآباد کو یونین ٹریٹری بناکر اس کا انتظام مرکز کی جانب سے تھوپے ہوئے کسی کٹر فرقہ پرست لیفٹیننٹ گورنر کے حوالے کرنا ہے۔ 1591ء میں بنایا گیا شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد اب بھاگیہ نگر بن جائے گا۔ اگر یہی حالت رہی تو رفتہ رفتہ شہر حیدرآباد کی شناخت ختم ہوجائے گی۔
ہمارے خیال میں زعفرانی پارٹی کو شکست دینا اور اس کے نظریات کی بیخ کنی کرنا ایک فرض کفایہ ہے۔ اگر جمہوریت اور دستور کی دشمن زعفرانی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوجائے تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
لہٰذا اب مسلمانوں پر یہ دینی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق اور اپنے زبردست سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں اور حیدرآباد پارلیمانی نشست کو زعفرانی پارٹی کے ہاتھوں میں جانے نہ دیں۔ یہ دینی فریضہ اس لئے ہے کہ اگر زعفرانی پارٹی برسراقتدار آجائے اور اسے مطلوبہ تعداد میں منتخب ممبران مل جائیں تو سب سے پہلے ہمارے عائلی قوانین ختم کردیئے جائیں گے جس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ مسلم بہنوں سے پردرد اپیل ہے کہ وہ ایک دن کی زحمت برداشت کریں۔ اپنے گھروں سے ایسے نکلیں جس طرح قرونِ اولیٰ میں مسلم خواتین میدانِ جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور انہیں پانی پلانے کے لئے نکلتی تھیں۔ انتخاب بھی ایک طرح کا جہاد ہے جس میںدین و شریعت کا تحفظ نصب العین ہے۔ جہاں تک ہوسکے زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالیں۔ ریاستِ یوپی اور بہار میں مسلم خواتین نے زبردست سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات زعفرانی پارٹی کو کھٹک رہی ہے کیوں کہ ہندو خواتین نے رائے دہی میں بہت کم حصہ لیا۔
دوسرے پارلیمانی حلقہ جات میں مسلم حضرات و خواتین صرف اس پارٹی کو ووٹ دیں جس میں زعفرانی پارٹی کو ہرانے کی طاقت و ہمت ہے۔ اگر مسلمانوں کے پندرہ فیصد ووٹس زعفرانی پارٹی کے خلاف ڈالے جائیں تو ووٹنگ کا توازن بگڑجائے گا۔ زعفرانی پارٹی کو شکست دینا ہی نصب العین ہونا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر اس بار زعفرانی پارٹی اقتدار سے باہر ہوئی تو پھر دوبارہ کبھی واپسی نہیں کرسکے گی۔
تعمیری اجازت نامہ کے بغیر عمارتوں ‘ کامپلکس کی تعمیر پر خطرات منڈلارہے ہیں
کوئی بھی شکایتی درخواست اور بعد میں رٹ درخواست تعمیرات کو زمین دوز کردے گی
ہوشیار و خبردار رہنے کی ضرورت ہے
آج کل میونسپل کارپوریشن کے بلڈوزر قہر بن کر غیر مجاز تعمیرات پر ٹوٹ رہے ہیں۔ پھر بھی یہ دیکھا جارہا ہے کہ غیر مجاز یا بلااجازت تعمیرات کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے اور مالکینِ جائیداد اس سلسلے کو جاری رکے ہوئے ہیں۔ یہ عام بات ہے کہ کسی شخص کے پاس اگر دو سو مربع گز کا مکان پلاٹ ہو تو وہ کسی بلڈر سے معاہدہ کرلیتا ہے اور یہ بات طئے پاتی ہے کہ تعمیر شدہ رقبہ کی تقسیم 50:50کی اساس پر ہوگی۔ بلڈر کہتا ہے کہ میری دوستی یا ملاقات مقامی کارپوریٹر یا ایم ایل اے سے ہے اور وہ متعلق ڈپٹی کمشنر میونسپل کارپوریشن کو سمجھالیں گے۔ اس ضمن میں جو بھی رقم خرچ ہوگی وہ میں ادا کروں گا ۔ مالکِ جائیداد بلڈر کی اس بات کو مان لیتا ہے اور تعمیر شروع ہوجاتی ہے۔ اجازت تو سرے سے حاصل ہی نہیں کی جاتی۔ اب Slabڈالنے کی نوبت آتی ہے یا تقریباً ساری عمارت تعمیر ہوجاتی ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی ناراض شخص ‘ پڑوسی ‘ کوئی حاسد رشتہ دار‘ کوئی بلیک میلر یا کوئی بھی ایسا شخص جو بہتی ندی میں ہاتھ دھونا چاہتا ہو پہلے تو ایک بھاری رقم کا مطالبہ کرتا ہے ۔ پیسہ نہ لینے کی صورت میں وہ کمشنر میونسپل کارپوریشن یا متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے نام ایک شکایتی تحریر پیش کرتا ہے اور اس کی ایک رسید حاصل کرتا ہے۔ شکایت میں درج ہوتا ہے کہ متذکرہ عمارت غیر مجاز طور پر تعمیر ہوئی ہے۔ اس کی اجازت ہی نہیں لی گئی یا اجازت نامہ کی خلاف ورزی میں تعمیر ہوئی ہے۔ آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ قانون و قاعدہ کے مطابق عمل کرکے اس عمارت کو منہدم کردیں۔ اب ایک ایسی صورت پیش آتی ہے کہ متعلقہ عہدیدار بلڈر یا مالک کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھئے ہم نے تو اپنے وعدہ کی پابندی کی لیکن ایک شکایت آئی۔ آپ شکایت کنندہ سے مصالحت کرلیں ورنہ اگر وہ شخص ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر احکامات حاصل کرے تو ہمیں مجبوراً کوئی ایکشن لینا ہوگا۔
پھر دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ شکایت کنندہ غیر مجاز تعمیر کی تصاویر اور شکایتی درخواست کی نقولات کے ساتھ ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ درخواست رجوع ہوتا ہے اور شکایت کرتا ہے کہ میری شکایت کے باوجود بھی ناجائز تعمیر کو منہدم نہیں کیا گیا۔ ہائیکورٹ لازمی طور پر ایسی درخواستوں کو سماعت کے لئے قبول کرے گا کیوں کہ متعلقہ عہدیداروں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت و تساہل برتا‘ نتیجہ یہ ہوگا کہ متعلقہ عہدیدار کو طلب کیا جائے گا اور جواب طلب کیا جائے گا۔ عہدیدار کہے گا کہ میں غیر مجاز تعمیرات کے خلاف ایکشن لوں گا۔
ایسی صورت میں عہدیداروں کو اپنی نوکری کی فکر ہوگی اور وہ عدالتی حکم پر یقینی طور پر عمل کریں گے اور لاکھوں روپیہ صرف کرکے بنائی ہوئی عمارت گرادی جائے گی۔ ایسا ہورہا ہے جس کی خبریں اخباروں میں شائع ہورہی ہیں اور سوشیل میڈیا پر بھی ایسی خبروں کے چرچے عام ہیں۔
لہٰذا عوام الناس سے پرخلوص اپیل کی جاتی ہے کہ وہ لالچ کا شکار نہ ہوں اور صرف اور صرف اجازت نامہ حاصل کرکے ہی اپنے مکان کی تعمیر کریں۔
بعض لوگوں نے بلیک میلنگ کو اپنا پیشہ بنالیا ہے ۔ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ کوئی ایسا کام ہی نہ کریں جس کی وجہ سے ایسی تباہ کن صورت پیدا ہو۔
زبانی ہبہ کا میمورنڈم ایک قانونی حقیقت ہے جس کی بدولت رجسٹریشن کے لاکھوں روپیہ بچائے جاسکتے ہیں
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہبہ کے میمورنڈم کی طمانیت پر ہم بینک سے قرض حاصل کرسکتے ہیں اور کیا ہبہ میمورنڈم کی بنیاد پر مکان کی تعمیر کی اجازت مل سکتی ہے؟
پہلے سوال کا جواب ہے نہیں ۔ اور یہی ہونا چاہیے کیو ںکہ جہاں بینک قرض ہے وہیں سود ہے اور سودحرام ہے ۔ دوسرے سوال کا جواب ہے یقیناً آپ کو تعمیری اجازت مل سکتی ہے اور اگر کوئی قانون سے ناواقف عہدیدار انکار کردے تو ہائیکورٹ اس کا دماغ درست کردے گا۔ اس طریقہ انتقال جائیداد کو روبہ عمل لاکر آپ لاکھوں روپیہ کی اسٹامپ ڈیوٹی بچ سکتے ہیں۔ مگر آپ کے پاس پھٹے پرانے نوٹری دستاویزات ہوں جو بوسیدہ ہوگئے ہیں تو ایسی بوسیدہ دستاویز کی اساس پر اپنے کسی عزیز کے نام اس جائیداد کو بذریعہ ہبہ منتقل کرسکتے ہیں اگر آپ کا قبضہ کسی مکان پر ہو ‘ قبضہ طویل عرصہ ہو لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہو تو بھی یہ اصول آپ کی مدد کرے گا اور آپ صاحبِ جائیداد کے ساتھ صاحبِ دستاویز بھی بن جائیں گے۔ آپ اپنے بچوں میں اپنی جائیداد بذریعہ ہبہ تقسیم کرکے معرض وجود میں آنے والے وراثت ٹیکس سے محفوظ رہ سکتے ہیں ورنہ تمام جائیداد کی قیمت کا ایک تہائی تو صرف ٹیکس ہوگا۔ آپ بے نامی قانون کی زد میں آنے سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں بشرطیکہ آپ بات کو سمجھیں ورنہ غافلوں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰