مذہب

شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق

جان لیجیے کہ جب بھی دین کسی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کے لیے متوجہ ہونے کی زیادہ ضرورت اُسے ہے جس کے ذمہ اُن حقوق کا ادا کرنا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ انسان کو اپنے حقوق کا علم بھی ہونا چاہیے، انہیں جائز طریقے سے حاصل کرنے کی اسلامی قانون میں اجازت ہے

مفتی محمد راشد ڈسکوی

جان لیجیے کہ جب بھی دین کسی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کے لیے متوجہ ہونے کی زیادہ ضرورت اُسے ہے جس کے ذمہ اُن حقوق کا ادا کرنا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ انسان کو اپنے حقوق کا علم بھی ہونا چاہیے، انہیں جائز طریقے سے حاصل کرنے کی اسلامی قانون میں اجازت ہے؛ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اپنے حق پر جہاں تک ہو سکے سمجھوتہ کر لیا جائے اور دوسرے کا حق ادا کرنے کے لیے ، محض اللہ کی محبت میں ،اپنی پوری کوشش کی جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسان اپنے حقوق کو جاننا اس لیے ضروری سمجھے کہ جس کے ذمہ اس کے حقوق ہیں، اُن حقوق کی ادائیگی میں اس کی معاونت کر سکے۔ اس ضمن میں دوسرے کی معاونت یہ ہے کہ اگر آپ اُس کے حقوق بے لوث ہو کر ادا کریں تو اس کے لیے آپ کے حقوق ادا کرنا ان شاء اللہ مزید آسان ہو جائے گا۔

تیسری ضرورت اپنے حقوق کو جاننے کی یہ بھی ہے کہ اپنے زیر تربیت لوگوں کو ان کے فرائض سکھائے جائیں۔

اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے جو حقوق متعین فرمائے ہیں، انہیں چار نوعیتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق ۔ پھر لوگوں کے ایک دوسرے سے تعلق کی بنا پر ان کی تفصیل میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے۔ آج ان شاء اللہ ہم شوہر کے ذمہ بیوی کے حقوق کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ مرد حضرات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے سنیں، جب کہ مستورات انہیں شوہروں کو سنانے کے لیے نہیں ،بلکہ ان کی معاونت اور اپنے بیٹوں کو ان کی بیویوں کے حقوق بتانے کے لیے سنیں۔

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ترجمہ: اور ان سے اچھا برتاوٴ کرو۔رسول کریم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

”میں تمہیں تمہاری عورتوں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں۔ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو“۔

ذاتی حقوق

٭ بیوی سے اس کی وسعت کے مطابق کام لینا۔
٭ وہ کام اس کے ذمہ لگانا جو واقعی اس کے ذمہ واجب ہیں۔
٭ کبھی اُن کاموں میں کوتاہی ہو تو درگزر کر لینا۔
٭ جائز کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانا۔
٭ اگر بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرنا۔
٭ اِس کی کوشش کرنا کہ اُس کے انسانی شرف کے مد نظر کوئی کراہت والا کام اس کو نہ کہا جائے۔
٭ اُس سے ہم کلام ہوتے ہوئے اگرچہ ”آپ “، ”جناب“ وغیرہ لفظ سے اُسے مخاطب نہ کیا جائے، مگر انسانیت، ایمان اور اپنی بیوی ہونے کے اعتبارات سے اس کی خلوت وجلوت میں بھی عزت کرنا۔
٭ اُس سے گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں مشورہ کرتے رہنا اور اُس کے مشورہ طلب اُمور میں بھر پور
اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔
٭ اُس پر حتی الوسع ہاتھ نہ اٹھانا، جن موقعوں پر ہاتھ اُٹھانے کی اجازت ہے ان میں بھی برداشت اور صبر سے کا م لینا۔
٭ خلوت اور جلوت میں بیوی کے مزاج اور پسند ونا پسند کا خیال رکھنا، خصوصا تنہائی کی ملاقات میں کوئی کام اُس کی جائز مرضی کے خلاف نہ کرنا۔
٭ اُسے اُنس ومحبت دینا اور اِزدواجی حقوق ادا کرنا۔

٭ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تونکاح کے بعد کم از کم ایک بار اورپھرہر چار ماہ میں کم ازکم ایک بار حق زوجیت ادا کرنا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نکاح کے بعد کم از کم ایک بار بیوی کو یہ حق ادا کرنا مرد پر ایسا واجب ہے کہ عدم ادائیگی کی صورت میں بیوی قانونی چارہ جوئی بھی کر سکتی ہے۔ اور اگر شوہر میں اس حق کی ادائیگی کی صلاحیت ہی نہ ہو تو بیوی قانونی طور پر اپنا نکاح ختم بھی کروا سکتی ہے۔ البتہ اگر وہ ایسے شوہر کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرے اور کسی فتنے کا بھی اندیشہ نہ ہو تو ان شاء اللہ بے پناہ اجر کی حق دار ہو گی۔ اگر چار ماہ یا اس سے زائد عرصہ کے سفر کی ضرورت پیش آجائے تو اس کے لیے بیوی سے اس حق کے حوالے سے اجازت لینا ضروری ہے، اگرچہ یہ سفر حصول ِعلمِ دین، دعوت و تبلیغ اور جہاد وغیرہ کے لیے ہو۔ جب وہ بخوشی اس سفر کی اجازت دینے پر تیار ہو جائے تو اس کی جان، مال اور عزت کی حفاظت، قابل اعتماد محرم اور بال بچوں کی ضروریاتِ زندگی کا مناسب انتظام کر کے ہی سفر کرے۔ البتہ، چوں کہ یہ دینی امور آدمی کی ایمانی ضروریات ہیں، اس لیے وہ مسلسل بیوی کی ذہن سازی کر کے اسے اس سفر کی اجازت دینے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ لیکن جب تک بیوی تیار نہ ہو اور مندرجہ بالا انتظامات مکمل نہ ہو سکیں تب تک اپنے مقام پر ہی ان دینی امور میں محنت کرتا رہے۔ اور رہی اس ضمن میں شرعی عذر کی بات تو اس کا حل موقع کے مطابق قریبی مستند مفتی صاحب سے دریافت کر لیا جائے۔

٭ ایسی نوبت تک کسی جھگڑے کو نہ پہنچانا کہ جس کے بعد علیحدگی کے سوا چارہ نہ رہے۔ اور اگر ایسی نوبت آ ہی جائے تو علیحدگی یعنی طلاق کے لیے اسلام کے طے کردہ خوب صورت اُصول وضوابط کی پیروی کرنا۔ کیوں کہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا ﴾

معاشرتی حقوق

٭ اُسے معاشرے میں یعنی اپنے علاوہ دوسرے لوگوں میں عزت دینا۔
٭ کسی دوسرے، خصوصاً اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں وغیرہ کے سامنے اس سے پوچھ گچھ یا اُس کی سر زنش نہ کرنا۔
٭ اِسی طرح بچوں کے سامنے اُن کی ماں کا وقار بحال رکھنا۔
٭ بچوں کے جو معاملات اُن کی ماں سے متعلق ہیں یا جن معاملات میں ماں اُن پر کوئی حکم چلانا چاہے تو بچوں کو یہ باور کروانا کہ اُن کی ماں اُن کے معاملے میں پوری طرح خود مختار ہے۔
٭ گھر میں اپنی عدم موجودگی کی صورت میں اُسے اپنے نائب کی حیثیت دینا اور اُس کے جائز فیصلوں کی تائید کر کے اُنہیں برقرار رکھنا۔
٭ اُس کے ماں باپ کو بالکل اپنے ماں باپ کی طرح عزت دینا۔
٭ اُس کے دیگر رشتہ داروں اور سہیلیوں کو عزت دینا اور اُن کے ہاں وقتا ًفوقتا ًجائز حد تک اُس کے مطالبے پر اُسے وہاں لے جانا۔
٭ بے پردگی اور دیگر منکرات سے حتی الوسع بچتے ہوئے وقتا ًفوقتاً تفریحی مقامات پر لے جانا۔
٭ جہاں جہاں وہ دوسروں پر تحائف وغیرہ کی شکل میں خرچ کرنا چاہے تو جائز مقامات پر حسب حیثیت اُس کی خواہش کو مد نظر رکھنا۔
٭ اگر شوہر کے ماں باپ سے بیوی کا کوئی تنازعہ ہو جائے اور بیوی حق پر ہو تو محبت سے درگزر کرنے اور اپنا مطالبہ وغیرہ دبا لینے کا سمجھا دینا اور اگر بہن بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کے معاملے میں بیوی حق پر ہو تو اُس کا بھر پور دفاع کرنا۔
٭ لوگوں کے سامنے بیوی کی جائز بات کو وقعت دینا اور ہو سکے تو کسی فیصلے والی جگہ پر اُسی کے حق میں اپنا ووٹ دینا۔
٭ بیوی کی راز اور پردے کی باتیں دوسروں سے محفوظ رکھنا۔

٭ اگر دو یا زیادہ بیویاں ہوں تو ان کے درمیان عدل و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرنا۔ یہ شوہر پر حق لازم ہے کہ اگر اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکنی، یعنی رہائش وغیرہ میں عدل وانصاف کرے ۔یعنی جتنا ایک بیوی کو دے اتنا ہی دوسری کو دے، اگر ایک کے پاس ایک رات رہا تو دوسری کے پاس بھی ایک رات رہے، جتنا مال، زیور، کپڑے ایک کو دیے اتنا ہی کپڑے دوسری کو دے، البتہ اگر ایک مال دار گھرانے کی ہو اور دوسری غریب گھرانے کی ہو تو پھر ہر ایک کے حسب حال خرچہ دیا جا سکتا ہے۔

٭ راتوں کی برابری صرف راتوں کو اکٹھا رہنے میں واجب ہے، دِنوں میں اورحق زوجیت کی ادائیگی میں برابری واجب نہیں۔ البتہ اس میں بھی برابری ہو تو پسندیدہ ہے۔ اسی طرح قلبی محبت میں برابری بھی واجب نہیں ،کیوں کہ یہ فعل غیر اختیاری ہے۔

٭ اگر ایک سے زائد نکاح کرنے کا ارادہ ہو تو ضرورتا ایسا کرنا، نہ کہ کسی کو اذیت دینے کی غرض سے اور اس میں پہلی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔

معاشی حقوق

عورت کے معاشی حقوق میں (۱) حق مہر (۲) نان و نفقہ اور (۳) سکنی ہیں، ان سب کی مختصر تفصیل ملاحظہ فرمائیے:

حق مہر… حق مہر وہ مال ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقد نکاح کی وجہ سے شوہر پر دینا لازم ہوتا ہے اوریہ بیوی کا خاوند پر وجوبی حق ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَآتُوْ النِّسَاءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَةً﴾ (النساء)
ترجمہ: اور تم عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی ادا کر دو۔

نان ونفقہ …بیوی کی ضروریات پوری کرنا، مثلا: کھانا ، پینا وغیرہ ، سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے، اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ مال داربھی ہو پھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَةٍ مِنْ سَعَتِہ، وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہ فلْیُنْفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللّٰہُ﴾ (الطلاق)

ترجمہ: وسعت والا اپنی وسعت کے موافق بیوی کو خرچ دے، اور تنگ دست بھی اللہ کے دیے ہوئے میں سے نفقہ دیا کرے ۔

کھانے پینے اور کپڑا دینے میں دونوں کی رعایت کی جائے گی، دونوں مال دار ہیں ، تو مال داری والا کھانا اور لباس ، دونوں غریب ہیں تو غریبوں والا کھانا اور لباس اور ایک امیر ہے اور دوسرا مال دار تو درمیانے درجے کا کھانا اور لباس دینا لازم ہو گا۔

سال میں کم از کم دو ایسے کپڑوں کے جوڑے ، جو سردی اور گرمی کے استعمال کے ہوں، دینا لازم ہیں۔ بشرطیکہ کپڑا ایسا ہو جو چھ ماہ سے پہلے نہ پھٹے اور نہ ہی بوسیدہ ہو۔

تیل، کنگھی، صابن اور سرمہ مرد کے ذمہ ہے، کاسمیٹک کا مکمل سامان مرد کے ذمہ نہیں ہے۔

اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو باوجود اپنی قدرت ووسعت کے خرچہ، یعنی نان ونفقہ نہ دے تو عورت ہر ممکن اس سے خرچ وصول کر سکتی ہے، خاموشی سے نکالنے کی صورت اور اگر کچھ ممکن نہ رہے تو علیحدگی بھی اختیار کر سکتی ہے، چاہے بذریعہ طلا ق ہو یا بذریعہ خلع۔

واضح رہے کہ مذکورہ تفصیل قانونی اعتبار سے ہے کہ کم از کم حق اتنا ہے، لیکن ترغیب اس بات کی دی جاتی ہے کہ اخلاقی اعتبار سے میاں بیوی کا آپس میں جو بھی بھلا طریقہ رائج ہو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کے حکم ﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ سے یہی مراد ہے۔

سکنی، یعنی رہائش …خاوند پر یہ بھی لازم ہے کہ بیوی کو اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش مہیا کرے ، چاہے یہ رہائش ملکیتی ہو، کرایہ پر ہو، یا عاریت پر ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُجْدِکُمْ﴾ (الطلاق)

ترجمہ:انھیں اپنی حیثیت کے موافق ان مکانوں میں ٹھہراؤ ، جہاں تم رہتے ہو۔ اسی سلسلے میں ارشاد نبوی ہے :

”انْ تُطْعِمَہَا اذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوَہَا اذَا اِکتَسَیْتَ، وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ، وَلاَ تُقْبِّحَ، وَلَا تَہْجُرْ إلَّا فِي الْبَیْتِ“

ترجمہ: تم پر بیوی کا حق یہ ہے کہ جب کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے بد دعا نہ دو، ناراض ہوکر گھر سے باہر نہ نکالو۔

ان نصوص سے معلوم ہوا کہ شادی کے بعد،مہرادا کرنا، نان ونفقہ اور رہنے کے لیے مکان دینا، بیوی کے بنیادی حقوق ہیں، جو شوہر پر لازم ہیں۔

٭ رہائش کی نوعیت میں میاں بیوی کی معاشی حیثیت اور ان کے خاندان کے رواج کو دیکھا جائے گاکہ اگر دونوں بہت دولت مند ہوں اور ان کے خاندان میں نئی بیاہی عورت علیحدہ مکان میں رہتی ہے تو اسے اُن کی مالی حیثیت کے مطابق علیحدہ مکان ملے گا۔

٭ اور اگر دونوں دولت مند ہوں ا ور لڑکی کے خاندان میں نئی بیاہی کو علیحدہ مکان ملتا ہو اور لڑکے کے خاندان میں اس کو صرف علیحدہ کمرہ ملتا ہے ، تو دیکھا جائے گا کہ نکاح سے قبل دونوں خاندانوں میں یہ طے پایا ہوکہ لڑکی کو الگ مکان دینا ہو گا تو اس لڑکی کو علیحدہ مکان ملے گا اور اگر ایسا کچھ طے نہیں کیا گیا تو اسے ایک علیحدہ کمرہ ملے گا، جس کے ساتھ علیحدہ غسل خانہ اور کچن ہو۔

٭ اگر بیوی کے ذمہ کوئی قرض ہو اور اُس میں ادا کرنے کی سکت نہ ہو اور شوہر کی وسعت ہو تو اس کی ادائیگی کی کوشش کرنا ۔

قلبی حقوق

قلبی حقوق دو طرح کے ہیں: (۱)روحانی پاکیزگی۔ (۲) ذہنی سکون۔

روحانی پاکیزگی …وہ دین کے معاملے میں جتنا آگے بڑھنا چاہے اس کا بھر پور تعاون کرنا، اگرچہ خاندانی اور معاشرتی ماحول کے خلاف جانا پڑے۔ اگر اس میں کوئی خلاف شرع باتیں ہوں تو اُس کو راہ راست پر لانے کے لیے دھیرے دھیرے محنت کرنا ہو گی، حدیث نبوی ہے: ”اَلْمَرْاَ ةُ کَالضِّلْعِ إِنْ أَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا، وَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیْھَا عِوَجٌ“۔

عورتیں مثل پسلی کی ہیں، اگر تم ان کو سیدھا کرو گے تو توڑ دوگے۔ ان کے ٹیڑھے پن کو برداشت کرلو، ورنہ تو طلاق تک نوبت پہنچ جائے گی۔ جیسے ٹیڑھی پسلیاں کام دے رہی ہیں ایسے ہی ان سے کام چلاتے رہو، ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرتے رہو، اگر تم ان کو سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے۔

٭ بیوی کی دین داری کی فکر کرنا، ارشاد باری ہے: ﴿یَاأَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾

ترجمہ: اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاوٴ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

﴿وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا، لَا نَسْأَلُکَ رِزْقًا، نَّحْنُ نَرْزُقُکَ، وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَیٰ﴾ ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجیے اور خود بھی اس کے پورے پابند رہیے، ہم آپ سے رزق کموانا نہیں چاہتے، رزق تو ہم آپ کو دیں گے اور اچھا انجام پرہیز گاری کا ہے۔

دینی معاملات میں بیوی اور بچوں کی فکر کرنا بھی شوہر کی ذمہ داری ہے، لیکن اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ خود بھی شریعت کے مطابق چلے اور آہستہ آہستہ اسے بھی پیار ومحبت سے شریعت پر چلنے کے لیے تیار کرے، اپنی دین داری کے بغیر محض اسی کو دین دار بنانے کی فکر سے شاید خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہو سکے۔

عَنْ أَبِي ہُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی الله علیہ وسلم :”رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّی وَأَیْقَظَ امْرَأَتَہُ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْہِہَا الْمَاء َ، رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ، وَأَیْقَظَتْ زَوْجَہَا، فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِي وَجْہِہِ الْمَاءَ “
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم:”إِذَا أَیْقَظَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّیَا، أَوْ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ جَمِیعًا، کُتِبَا فِی الذَّاکِرِینَ وَالذَّاکِرَاتِ“
أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَقُولُ: کُلُّکُمْ رَاعٍ، وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ ، الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَہْلِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ“

٭ اُس کے ماں باپ اور اس کے دیگر اعزہ کے لیے دنیا وآخرت کی خیر کی دعائیں کرنا۔
٭ بیوی کو حرام لقمے سے بچانا اور حلال طیب رزق پر خود بھی اکتفا کرنا اور اسے بھی اس کی ترغیب دینا۔

ذہنی سکون

ذہنی سکون میں ایک بات تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا تمام حقوق اس کے پورے کرنا، ان کے علاوہ :

٭ اُس کے قول وفعل پر اعتماد کرنا۔ اُس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا، معمولی معمولی ، بے بنیاد باتوں پر اپنی بیوی سے بدگمانی نہ کرنا، بلکہ اِس معاملہ میں ہمیشہ احتیاط اور سمجھ داری سے کام لینا، معمولی شبہات کی وجہ سے بیوی پر الزام لگانا اور بدگمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
٭ گھرانے سے متعلق اُس کی مشقتوں پر اُسے تسلی دیتے رہنا اور اس کا مشکور رہنا۔
٭ اپنے آپ کو اُس کی نظروں میں حقیقتاً قابل اعتماد بنانے کی کوشش کرتے رہنا۔
٭ اُس کے سامنے بلا ضرورت غیر عورتوں کی تعریفیں نہ کرنا۔
٭ گھر، باہر اُس کی عزت و عصمت کی حفاظت کا ایسا انتظام اُسے مہیا کرنا کہ وہ خود کو ہر شر سے محفوظ سمجھے۔
٭ اُس کے لیے بننا سنورنا اور خصوصا جسمانی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا۔
٭ اُس کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر اُس کے لیے بے چین ہونا۔
٭ مناسب حد تک اپنی تکالیف اور مسائل کا اُس سے تذکرہ کرنا، تاکہ وہ اپنائیت محسوس کرے۔
٭ مناسب حد تک اُسے اپنی ضرورتوں اور خواہشات سے آگاہ رکھنا۔

٭ اُس کی ایذا رسانیوں اور نادانیوں پر آخری حد تک صبر کرنا۔ عین ممکن ہے کہ بیوی کی کچھ عادات وطور طریقے شوہر کو ناپسند ہوں تو اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا جائے، یقینا اس میں اور بہت سی خیریں بھی ہوں گی، جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَیٰٓ أَن تَکْرَہُوا شَیئًا وَیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا﴾ کمی وکوتاہی سے کون خالی ہوتا ہے؟ محض اس وجہ سے نگاہیں پھیر لینا یا دل کو میلا کرنا دانش مندی نہیں ہے، اللہ سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ حکیمانہ تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے اور اس کی دیگر خوبیوں اور صفات پر نظر رکھنی چاہیے، یہ جوڑے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنائے گئے ہیں، دو دن کی زندگی کے بعد جنت میں ان سب عیوب کو ختم کر کے اس بیوی کو جنت کی حوروں کی سردار بنا دیا جائے گا، حدیث مبارکہ میں ہے کہ دنیا کی نیک بیوی کو حوروں سے بھی زیادہ حسین بنا دیا جائے گا۔

٭ اُسے ہمیشہ ایسا ماحول دینا جس میں وہ بے خوف رہے اور اُسے کسی قسم کی سزا یا علیحدگی کا خدشہ نہ ہو(مثلا: غلطی سے بھی اُسے طلاق وغیرہ کی دھمکی نہ دینا)۔

٭ وقتا ًفوقتاً، خصوصا سفر سے واپسی پر اُس کے لیے مناسب ہدیے کا اہتمام کرنا۔
٭ گھر میں کسی جائز ہنسی مذاق یا کھیل کی شکل میں تفریح کے مواقع پیدا کرتے رہنا۔
٭ گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی کو مسکرا کر ملنا اور سلام کرنا۔
٭٭٭